8 سالہ عابد یوں تو کافی اچھا اور ہوشیار بچہ تھا لیکن اپنی چھوٹی بہنوں اور دیگر بچوں کے ساتھ مسلسل ترش رویہ رکھتا تھا جیسے بدتمیزی، لڑنا جھگڑنا اور کبھی غصے میں کھیلنے سے منع کر دینا۔اتنے چھوٹے سے بچے میں غصے کی یہ نوعیت کافی عجیب سی محسوس ہوئی تو اس حوالے سے تھوڑی سی تفتیش کے بعد پتا چلا کہ عابد کے ماں اور باپ دونوں ہی غصے کے بہت تیز ہیں ۔ ذرا ذرا سی بات پر دونوں کے گفتگو کا انداز اور رویہ طیش بھرا ہو جاتا، پھر میاں و بیوی کے آپسی مسائل میں بھی غیظ و غضب کا معاملہ غالب رہتا اور کبھی کبھی غصہ اتارنے کے لیے عابد ان دونوں کا آسان ہدف ثابت ہوتا۔یوں غصیلے رویے کو برداشت کرتے اور مشاہدہ کرتے کرتے عابد غیر محسوس انداز میں جارحانہ مزاج میں ڈھلتا گیا اور اس کے اثرات عام زندگی میں شدت سے نظر آنے لگے۔گھر کے ماحول اور کلیدی افراد میں غصے کی لہریں جتنی زیادہ ہوتی ہیں، بچوں کی سوچ اور عمل بھی اسی تناسب سے سانچے میں ڈھلتا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ ہم سب ہی کبھی نہ کبھی غصے کا شکار ہو جاتے ہیں، ۔کبھی ٹریفک میں پھنسنے پر، کبھی دفتر میں ترقی نہ ملنے پر، کبھی کام مقررہ وقت پر نہ ہونے پر یا پھر بچوں کے شور شرابے پر بھی ہم غصیلے ہوجاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ہم سب غصے کی کیفیت میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ تو ہم آج اس مختصر مضمون میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں مسئلے کی جڑ تک جانا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمیں غصہ کن محرکات یا اسباب کی وجہ سے آتا ہے اور پھر ہمیں مسئلے کو حل کرنے کے لیے ممکنہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ بڑوں کے غصے کے محرکات : بچوں کا خراب رویہ، جھنجھلاہٹ کا شکار کر دینے والے واقعات جیسے کہیں پھنس جانا، دفتری تناؤ، مالی یا خاندانی تنازعات، حسد یا سازشیں اور اس کے ساتھ بیماری و تھکن بچوں کے غصے کے محرکات : بچوں میں غصے کے محرکات بھی عمومی طور پر بڑوں سے ملتے جلتے ہوتے ہیں تاہم ان میں غصے کی بعض دیگر وجوہات بھی ہوسکتے ہیں، جیسے دوسرے بچوں سے لڑائی،کسی کام کی اجازت نہ ملنا، ہم عمر بچوں کا نظر انداز کرنا، اسکول یا باہر تشدد کا شکار بننا، غنڈہ گردی کا شکار ہونا (Bullying)، سزا کا ملنا یا ڈانٹ پڑنا اور کبھی کبھی صحت کے مسائل کی وجہ سے بھی ان میں غصہ ہوسکتا ہے۔
غصے پر کیسے کنٹرول کریں؟
غصے کی حالت میں فوری طور پر کسی بھی قسم کا ردعمل عام طور پر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، خود کو پرسکون کرنے کے لیے مختلف ذہنی، جذباتی یا عملی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ٹائم آؤٹ اصول۔ شروع میں مشکل ہوگی تاہم اگر کوشش کر کے یہ اصول بنا لیا جائے کہ جیسے ہی غصہ قابو سے باہر ہونے لگے تو کوئی رد عمل دینے سے پہلے آپ 15 منٹ کا وقفہ لیں گے، یوں تھوڑی دیر بعد، جب اعصاب پرسکون ہوجائیں تو آپ اپنی بات اچھے طریقے سے کر سکیں گے۔
ذہنی سرگرمی۔ ذہن کو مصروف رکھنے کے لیے کوئی بھی سرگرمی شروع کی جا سکتی ہے، اگر اور کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو فوری طور پر 100 سے الٹی گنتی کرنا شروع کر دیں، 100 سے الٹی شروع کرکے ایک تک ختم کریں اور اس عمل کو بار بار دہرائیں۔
روحانی سرگرمی۔ بالکل آہستگی سے 10 یا 20 گہری سانسیں لیں، یہ براہ راست غصے کو پیدا کرنے والے ذہنی کیمیکل ‘ایڈرینالائن’ کو نارمل کر دیں گی۔
روحانی عمل کے لیے دعا پر مبنی الفاظ کو مسلسل دہرانے سے بھی جذبات قابو میں آجاتے ہیں۔
جسمانی سرگرمی۔ ورزش کرنے، چہل قدمی کرنے یا صرف باہر جانے سے بھی غصے کی کیفیت بہتر ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ٹھنڈے پانی یا مشروب کے کچھ گلاس پینے سے بھی اعصابی نظام بہتر ہوسکتا ہے۔
غصے کا مثبت استعمال
غصہ آنا ایک فطری عمل ہے لیکن اگر ہم مسلسل اس کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو یہ ہمارے لیے کئی طرح کے ذاتی اور سماجی مسائل کا سبب بن سکتاہے۔
غصے پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس کی توانائی کو بہتر اور نتیجہ خیز سرگرمیوں پر لگانے سے بھی ہم اپنی زندگی اور خاندان کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جب آپ یا آپ کا بچہ غصے کی کیفیت سے نکل آئے تو درج ذیل تدابیر کو آزمائیں۔
بات کرنا ۔ غصے اور اس کی وجوہات سے متعلق بات کریں، آپ خود کسی دوسرے فرد سے اس کے متعلق گفتگو کر سکتے ہیں، اسی طرح اپنے بچے کو صحیح سوالات کے ذریعے مشکل موضوعات پر بات کی رہنمائی دے سکتے ہیں۔
سکون دینے والی مصروفیات تلاش کریں ۔ غصے کی حالت میں ذہنی حرکیات (Thought Processing) بہت تیز ہو جاتی ہیں، اسے لکھنے، ڈرائنگ یا مصوری جیسی ذہنی سرگرمیوں کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ سرگرمی خاص طور پر بچوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ غصے کی حالت میں جسمانی سرگرمی سے منفی توانائی مثبت صورت اختیار کر لیتی ہے، اس کے لیے آپ ورزش کو اپنی عادت بنائیں، جسمانی مشقت کے بعد آنے والی پر سکون نیند کے ذریعے اپنے اعصاب اور جذبات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ غصے والے بچوں کے لیے والدین کو رول ماڈل کا کردار ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ والدین کی حیثیت سے آپ بچے کی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے عناصر ہیں۔جب آپ اپنے غصے پر قابو پانے کی صلاحیتوں پر کام شروع کریں تو نہ صرف یہ کہ بچوں سے اسے شئیر کریں بلکہ انہیں اس کی اہمیت بھی بتائیں۔ پیرنٹنگ یقیناً ایک تھکادینے والا کام ہے اور یہی تھکاوٹ غصے کا ایک بڑا سبب بن جاتی ہے لیکن تھوڑی سی ذہنی اور عملی کوشش سے آپ اس پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے بچوں کے لیے تربیت کا ایک اچھا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔