بچوں کے رونے، تنگ کرنے اور ان کی توڑ پھوڑ سے بچنے کی 7 حکمت عملیاں۔ فرحان ظفر

0

ڈیڑھ سالہ ماہم پچھلے ایک گھنٹے سے روئی جا رہی تھی اور اس کی ماں کبھی پیار سے تو کبھی جھنجھلاتے انداز میں اسے چپ کرانے کی کوشش کیے جا رہی تھیں لیکن ماہم تھی کہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے تو ماہم گُم سُم ہوکر دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے خاموش ہو جاتی ہے اس کی ماں اسے گود میں لیے دروازہ کھولتی ہیں تو باہر اس کے والد کام سے واپسی پر تھکی ہوئی صورت لیے کھڑے ہوتے ہیں۔

ماہم ایک قلقاری سی نکالتی ہے اور فورا ماں سے والد کے گود میں جانے کے لیے اُچکنے لگتی ہے، آنکھوں میں جھلمل ہیروں جیسے آنسو اور لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ سجائے ماہم کو دیکھتے ہوئے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے رو رہی تھی۔

دراصل اس ننھی بچی کو اپنے والد کی یاد آرہی تھی لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرپا رہی تھی کہ اسے اپنے والد کے پاس جانا ہے۔

مسلسل رونا’ ہی اس کا اظہار تھا کہ اسے دراصل کسی سے ملنا ہے اور اس کی ماں اس کے ‘ان کہے’ پیغام کو سمجھنے سے قاصر تھیں، نتیجہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف پریشان تھیں بلکہ جھنجھلاہٹ میں گھر کے دیگر افراد سے بھی تلخ کلامی کر چکی تھیں۔

ٹوڈلر (چلنا سیکھتے ہوئے بچے) کے رویے کو ہر دفعہ ‘اچھا’ یا ‘برا’ کی کیٹگری میں ڈالنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہے کہ مختصر سے الفاظ کا ذخیرہ رکھنے والا بچہ کوئی بات کہنا چاہ رہا ہو لیکن اس کے اظہار کے لیے وہ رونے یا کسی اور طرح کے رویے کو اختیار کر رہا ہو، یہ یاد رکھیں کہ زار و قطار رونے سے زبردست غصے یا توڑ پھوڑ کا مظاہرہ دراصل بچوں کے ‘احساس’ کو بیان کر رہا ہوتا ہے۔

والدین کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچے کس وقت کس موڈ میں ہوتے ہیں اور اگر وہ خراب موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا اچانک موڈ کس کام سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔

پریشان کرنے والے رویوں(Behaviors) کی فہرست

اپنی بات اور احساس کا اظہار کرنے کے لیے بچہ درج ذیل میں سے کوئی ایک رویہ یا ایک سے زائد رویے اختیار کر سکتا ہے۔

1۔ غصہ، برہمی کا زبردست مظاہرہ (Tantrum)خصوصاً کسی تقریب یا عوامی جگہ جیسے مارکیٹ یا بازار وغیرہ۔

2۔ چیخنا اور چلانا۔

3۔ رونا دھونا کبھی ہلکا پھلکا تو کبھی برسات کی بارش کی طرح مسلسل روتے چلے جانا۔

4۔ چیزوں کو توڑنا یا دیگر بچوں کو مارنا۔

5۔ کھلونے پھینکنا۔

6۔ بات کرتے ہوئے نظریں چرانا۔

7۔ بات کرنے سے انکار کرنا۔

مذکورہ رویوں کا باعث بننے والے احساسات

جب بھی بچے کا رویہ خراب نظر آئے تو عین ممکن ہے کہ بچہ اس وقت درج ذیل احساسات میں سے کسی ایک سے گزر رہا ہوتا ہے۔

1۔ بھوک کی شدت۔

2 – نیند آ رہی ہوتی ہے۔

3 – کسی بات پر دکھی یا افسردہ ہوتا ہے۔

4 – کسی وجہ سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔

5 – بیمار ہو سکتا ہے۔

6 – تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔

7 – بورہو رہا ہوتا ہے۔

8 – کسی واقعے یا شخص سے ڈرا ہوا ہوگا۔

9 – کھیل کود کرنا یا باہر جانا چاہ رہا ہوتا ہے۔

بچوں کے برے رویے جاننے کے بعد اب والدین کو یہ حکمت عملی تیار کرنی ہے کہ وہ بچوں کے برے رویوں سے کیسے بچیں اور انہیں کیسے ان رویوں سے محفوظ رکھیں، تو اس عمل کے لیے ممکنہ طور پر والدین کو درج ذیل حکمت عملیاں بنانا پڑیں گی۔

برے رویوں کے خلاف والدین کی 7 حکمت عملیاں (Strategies)

بچوں کے ان پریشان کن رویوں سے والدین کا پریشان ہونا یا غصے میں آجانا فطری ہوتا ہے تاہم یہی موقع آپ کے ‘صبر’ اور ‘اعصاب’ کو آزمانے کا بھی ہوتا ہے، ایسے کسی بھی موقع پر بچوں کو رسپانس دیتے ہوئے ان اہم باتوں کا خیال رکھیں۔

1- پرسکون رہیں اور جس حد تک ہو سکے خاموشی برقرار رکھیں، کچھ بولنا ضروری ہو تو سوچ سمجھ کر الفاظ کا چناؤ کریں۔

2 – ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ان کا احساس جاننے کی کوشش کریں۔

3 – ان کے زبانی الفاظ یا عملی برتاؤ کو غور سے محسوس کریں۔

4 – بچوں کی توجہ کسی اور چیز کی جانب دلوائیں، اس سے بچے کے ذہن کو متبادل تلاش کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

5 – بچے کے رویے پر فوکس کرنے کے بجائے، بچے کی ممکنہ ضرورت کو تلاش کریں اور رسپانس دیں۔

6 – ان کے احساسات کو اپنے الفاظ سے واضح کرنے کی کوشش کریں، ایسا کرنے سے ان کی جذباتی تسکین ہو سکے گی کہ ماں یا باپ ان کے جذبات و احساسات سے اچھی طرح واقف ہیں۔

۔  7  یاد رکھیں وہ بچے ہی ہیں، ان کا رونا یا برہمی کا اظہار کرنا، چاہے عوامی مقام پر ہو یا کسی تقریب میں ہی کیوں نہ ہو، بہت حد تک نارمل ہے۔

یاد رکھیں کہ بچے کے احساسات سمجھنے کی صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی ہے یہ والدین کا کام ہے کہ کسی فکر مند رویے کی صورت میں بچے کے احساس، خوف یا جھنجھلاہٹ کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

والدین بچوں کے رونے، دھونے، ناراض ہونے یا تھوڑ پھوڑ کرنے کے وقت یہ سوچیں کہ کہیں ان کے بچے کو ’بھوک تو نہیں لگی‘ یا سوچیں کہ ’کہیں اسے آپ کی محبت یا توجہ کی ضرورت تو نہیں، خود سے سوال کریں کہ کیا آپ نے اس کے ساتھ پورے دن میں اب تک اچھا وقت گزارا ہے‘ یا پھر خیال کریں کہ کہیں ’اسے کسی اور فرد یا چیز کی ضرورت تو نہیں‘۔؟

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.