انجینئر ضیاء الرحمن مفکر اسلام مفتی اعظم حضرت مولانامفتی محمود سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے فرزند اور قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ہیں،جو عرصہ درازسے سول سروسزمیں ریاست پاکستان کی خدمت میں مصروف عمل ہیں،موصوف اپنی تربیت اور خاندانی پس منظر کی وجہ سے ایک باصلاحیت،باکردار،فرض شناس،محنتی اور عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار آفیسر ہیں،وہ جہاں بھی گئے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر انہوں نے شاندار خدمات انجام دے کر اپنے کردار کا لوہامنوایا،13،2012 ء میں انہیں افغان کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تقریباًآٹھ ماہ تک اس عہدے پر انہوں فرض شناسی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں،شہباز شریف دور حکومت میں انجینئر ضیاء الرحمن کو ضلع خوشاب کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر خوشاب سے لینڈ مافیا کاخاتمہ کرکے دکھایا،ان کے آفس کے دروازے ہروقت عام آدمی کے لئے کھلے رہتے تھے،جس کی گواہی آج بھی خوشاب کے لوگ دیتے ہیں،ضلع خوشاب کے بعد انجینئر ضیاء الرحمن ایک بار پھر افغان کمشنر تعینات کردیاگیا جس پر تحریک انصاف کے کچھ بونوں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ اٹھارہ گریڈ کے شخص کوکس طرح افغان کمشنر بنادیاگیا،حالانکہ اس سے قبل کئی اشخاص کو اٹھارہ گریڈ میں افغان کمشنر تعینات کیا گیا جن میں صاحبزادہ انیس،ناصر اعظم کے نام نمایاں ہیں،ان کے علاوہ ایک اور سول آفیسر بھی اٹھارہ گریڈ سے افغان کمشنرکے عہدے پر تعینات ہوچکے تھے،لیکن ان پر کسی نے اعتراض نہیں کیا،کوئی شور شرابہ نہیں ہوا،گنڈاپوری سمیت آئین وقانون کے تمام نام نہادٹھیکدار خاموش رہے،مرکزمیں تحریک انصاف کی حکومت کے بعد وہ مسلسل مرکزی وصوبائی حکومت کے زیرعتاب ہیں،حکومت کے قیام کے بعدتحریک انصاف کے بے مثال انصاف پہلانشانہ انجینئر ضیاء الرحمن بنے،وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کے خصوصی احکامات پر انہیں افغان کمشنر کے عہدے سے ہٹادیاگیا اور ان پر کئی طرح کے الزامات لگائے گئے،لیکن انجینئر ضیاء الرحمن نے ان انتقامی کاروائیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ جہاں بھی انہیں تعینات کیا گیا انہوں نے پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو اداکیا،افغان کمشنر کے عہدے سے ہٹانے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے انہیں دباؤ میں لانے کے لئے ان کے خلاف ہرطرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے اور مسلسل ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں،سی ایس ایس کے امتحانات کا پروپیگنڈا،مولانافضل الرحمن کے بھائی ہونے کی وجہ سے بغیرمیرٹ کے سلیکشن سمیت دیگرکئی الزمات کی بوچھاڑ کردی گئی،مگر حکومت کو اپنی تمام تر کوششوں کے بعد جس طرح مولانافضل الرحمن کے خلاف کرپشن کے الزامات میں منہ کی کھانی پڑی اسی طرح ان کے بھائی انجینئر ضیاء الرحمن کے خلاف بھی تمام الزمات میں حکومت کو سبکی کا سامناکرناپڑااور کوئی الزام بھی کسی قانونی فورم پر ثابت نہ کرسکی،اب جب انہیں حکومت سندھ کی درخواست پر خیبرپختونخواہ حکومت کی باقاعدہ اجازت سے کراچی کے ضلع وسطی میں ڈپٹی کمشنر تعینات کیاگیا تو شراب کو بوتل کو شہد قراردینے والے گنڈاپوری سمیت تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں ایساشور مچاناشروع کہ گویا کوئی غیرملکی شخص کسی بڑے عہدے پر تعینات کیا گیا ہو،اگریہ کوئی غیرقانونی عمل ہے تو خیبرپختونخوا حکومت نے انہیں این اوسی کیوں جاری کیا،وفاقی حکومت نے انہیں کیوں سندھ بھیجا،اگر ان کی بغیر میرٹ کے سلیکشن پر اعتراض ہے تو اتناعرصہ تک انہیں اس عہدے پر برقرارکیوں رکھاگیا؟کیا مولانافضل الرحمن کا بھائی ہونا اتنابڑاجرم بن گیا کہ ان کے بھائی کو ان کے جائز عہدے پر دیکھنابھی گوارانہیں،مفکر اسلام مولانامفتی محمود کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انہیں ایک ضلع کے انتظامی سربراہ دیکھنے کی بھی سکت نہیں، کیا ایک ضلع کا فرد دوسرے ضلع میں تعینات نہیں ہوسکتا؟پورے ملک میں دیکھیں کتنے افیسرز دوسرے صوبوں میں تعینات ہیں؟یہ پابندی صرف اس لئے کہ یہ مولانافضل الرحمن کے بھائی ہیں؟مولانافضل الرحمن کے بغض میں آپ کسی کو اس کے جائز حقوق سے کیسے محروم کرسکتے ہیں؟حالانکہ دستاویزات کے مطاق وفاقی حکومت نے خود جنوری میں گریڈ 19 کے افسرانجینئرضیاء الرحمن کے سندھ بھیجنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جو 25جنوری سے سندھ میں اوایس ڈی تعینات تھے،6ماہ بعد 23جولائی کوانہیں ڈی سی سنٹرل کراچی تعینات کردیاگیا ہے،انجینئر ضیاء الرحمن کو ڈپٹی کمشنر ضلع وسطی کراچی تعینات ہونے پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے اتناشور کیوں؟کیا وہ پاکستانی شہری نہیں؟کیا اس کے پاس ڈگری نہیں؟کیا اس کی ڈگری جعلی ہے؟کیاایساکوئی قانون ہے کہ ایک صوبہ کا شخص دوسرے صوبہ میں تعینات نہیں ہوسکتا؟اگر ہے تو پھر لاڑکانہ کا ثناء اللہ عباسی آئی جی خیبرپختونخوا کیسے؟خیبرپختونخواکے محکمہ صحت کو گزشتہ سات سے کون چلارہاہے؟ کیا وزیراعظم کا کزن کنیڈاسے بیٹھ کر صوبے کے پورا محکمہ صحت کا بیڑہ غرق نہیں کررہے؟یہاں تو نہ چوہان اور نہ ہی گنڈاپورجیسے لوگوں کو آئین وقانون اور میرٹ کی خلاف ورزی نظر آئی مگر مولانافضل الرحمن کا بھائی اگر دوسرے صوبے میں ایک افسر کے طورپر تعینات ہوتا ہے تو ان کے پیٹوں میں مروڑ اُٹھناشروع ہوجاتے ہیں،ان لوگوں کو اپنی کارکردگی تو نظر آتی نہیں ساری قوتیں مخالفین کے نیچادکھانے پر صرف کررہے ہیں،ان کی اپنی حکومت میں کئی وزراء جعلی ڈگریوں پر وزارتوں کے مزے لوٹ کر اداروں کو تباہ کررہے ہیں،مگروہاں ان کو چپ کی بیماری لگ جاتی ہے، کیااس قسم کے لوگوں کو کسی معززگھرانے کے باصلاحیت فرد پر اس قسم کی انگشت نمائی زیب دیتی ہے؟ مولانافضل الرحمن کے بھائی کو سند ھ کراچی میں ڈپٹی کمشنر ہونے پر وہ لوگ اعتراض کررہے ہیں جن کی اپنی حکومت میں کئی غیرملکیوں کو وزیر اور مشیر کے عہدوں پر فائز کیا گیا ہے،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہبازگل امریکی گرین کارڈ ہولڈرہیں،جبکہ معاون خصوصی برائے نیشنل سیکیورٹی ڈویژن معید یوسف امریکہ کے رہائشی ہیں،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر بھی امریکہ کے شہری ہیں،معاون خصوصی زلفی بخاری بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں ان کے پاس برطانوی شہریت بھی ہے،وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدریس کے پاس کنیڈاکی پیدائشی شہریت ہے اور وہ سنگاپورکی مستقل رہائشی ہیں،معاون خصوصی برائے امور توانائی شہزاد سید قاسم بھی امریکہ شریف کے شہری ہیں،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور ندیم افضل گوندل بھی کنیڈاکے مستقل رہائشی ہیں،مشیروں کا یہ لشکرجرار اس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جس دن ان سے یہ عہدے چھین لئے گئے اسی دن یہ بریف کیس اُٹھاکراپنے ملکوں کورفوچکر ہوجائیں گے،تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ذرا آنکھیں کھول کر اپنے گھر کی خبرلینی چاہئے،پورے ملک میں دیندار گھرانے سے ایک ہی فرد ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہواہے اور وہ بھی حکمرانوں کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کٹک رہاہے،یہ لوگ علماء اور دیندار لوگوں کو ملک کے کسی عہدے پر فائز نہیں دیکھنا چاہتے،اگرکوئی شخص اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پرپہنچ بھی جاتا ہے توان کی آنکھوں پر اندھیرا چھاجاتا ہے،کسی عالم دین یا دیندارشخص کو کسی عہدے پردیکھ ان کو چکرآناشروع ہوجاتے ہیں،ان کے جسم وجان میں تکلیفیں اُٹھتی ہیں کہ یہ مولانایایہ دیندار شخص کیوں اس عہدے پر پہنچ گیا؟اس کے خلاف یہ لوگ اس قدر نچلی سطح پر اُتر آتے ہیں کہ پھر نہ انہیں آئین قانون کی کوئی پرواہوتی ہے اور نہ یہ لوگ پھراخلاقی قدروں لحاظ رکھتے ہیں،یہ کن کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا ہرپاکستانی جانتا ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے؟یہ جن کی خدمت گزاری کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں،حکومت کو بھی ان لوگوں کی اوقات معلوم ہیں اس لئے انہیں سرکاری امور سے مطلع ہی نہیں کیاجاتا،انہیں صرف خانہ پوری کے لئے رکھاہواہے ورنہ یہ مال مویشی چرانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔