حضور نبی کریم ﷺ کی شان اقدس پر ایمان اور آپ ؐ کی عظمت و کبریائی، عزت و توقیر ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی نکتہ ہے کوئی مسلمان آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ذرہ بھر تحقیر و تنقیص برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں، مسلمانوں نے ہمیشہ اس قسم کے بد بختوں کو جہنم رسید کیا ہے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں کسی قسم کی کوئی بھی گستاخی کی، خود آنحضرت ؐ کے زمانہ پا ک میں اس کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو اجا گر کرنے کیلئے چند واقعات نہایت ہی اختصار کے ساتھ سپرد قلم کئے جاتے ہیں تاکہ آج کے مسلمانوں کو بھی اپنے اسلاف کی ایمانی غیرت اور حب رسول ؐ کا پتہ چلے،بشر نامی منافق کا یہودی سے جھگڑا تھا، یہودی نے کہا چلو محمد ﷺ سے فیصلہ کر الیں منافق سمجھتا تھا کہ حضور ﷺ بغیر کسی رعایت کے حق کا فیصلہ کرینگے۔ اس لئے اس نے ایمان کے دعویدار ہونے کے باوجود کہا کہ کعب بن اشرف یہودی کو ثالت بنا لیتے ہیں تاکہ وہ رشوت کے ذریعے منافق کے حق میں فیصلہ کر دے، وہ یہودی اس پر راضی نہ ہو ا اور چا رو ناچار منافق کو سرکار دو عالم ﷺ کے دربار میں حاضر ہونا پڑا حضور ﷺ کا فیصلہ یہودی کے حق میں ہوا۔ منافق یہودی کو مجبور کر کے فاروق اعظم ؓ کے پاس لے گیا۔ یہودی نے عرض کیا کہ میر ا اس کا معاملہ سرکار دو عالم ﷺ طے فر ما چکے ہیں لیکن یہ حضور ﷺ کے فیصلہ سے مطمئن نہیں آپ سے فیصلہ کرانا چاہتا ہے فاروق اعظم ؓ نے فرمایا میں ابھی آ کر فیصلہ کرتا ہوں یہ فرما کر گھر تشریف لے گئے اور تلوار لا کر اس منافق کی گردن اُڑا دی اور فرمایا جواللہ اور اس کے رسولؐ کے فیصلہ سے راضی نہ ہو میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔ عصما بنتِ مروان ایک یہودی عورت تھی یہ بہت زبان دراز تھی، حضور ﷺ نے حضرت عمیر بن عد ی نابینا صحابی ؓ کو اس کے قتل کیلئے بھیجا۔ حضرت عمیر ؓ رات کو عصما کے گھر پہنچے جو مدینہ سے باہر تھا وہ اپنے بچوں کو دودھ پلارہی تھی حضرت عمیر نے تلوار سے اس کو قتل کیا اور رات کو واپس آئے۔ابی عفکہ 120 سالہ بوڑھا یہودی تھا یہ حضور ﷺ کے خلاف لوگوں کو ورغلا تا اور ابھارتا تھا اور آپ ؐ کے خلاف نفرت انگیز اشعار پڑھتا تھا حضورﷺ نے حضرت سالم بن عمیر ؓ کو بھیجا انہوں نے جا کر اسے قتل کر دیا۔ کعب بن اشرف بڑا مالدار یہودی تھا یہ شاعر تھا اور اپنے اشعار میں آپ ﷺ کے خلاف نفرت پھیلاتا اور قریش مکہ کو جنگ کی ترغیب دیتا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا کون ہے جو کعب بن اشرف کو قتل کرے؟اس لئے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول ؐ کو ایذا پہنچاتا ہے۔ حضرت محمدبن مسلمہ ؓاس کیلئے تیار ہوئے اور ان کے ساتھ حضرت حارث بن اوس ؓ بھی گئے انہوں نے اسے قتل کر کے اس کا سر کاٹ کر آنحضرت ﷺ کی قدموں میں لا کر ڈال دیا۔ ابورافع بھی ایک یہودی تھا آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش رہتا تھا۔حضورﷺ کے فرمان پر حضرت عبداللہ بن عتیکؓ رات کو اس کے قلعہ میں گئے تلوار کی نوک اس کے پیٹ میں گھونپ دی اس کو قتل کرنے کے بعد واپسی پر قلعہ سے چھلانک لگانے کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی، حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے آپ ؐ نے اپنا دست مبارک ان کی ٹانگ پر پھیرا جس سے ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوگئی۔فتح مکہ کے دن حضور ﷺ مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے کسی نے آ کر عرض کیا حضور! ابن خطل کعبہ سے لپٹ ہوا ہے آپ نے فرمایا اس کوقتل کر و یہ شخض آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا تھا اور اپنے اشعار میں آپ ﷺ کے خلاف زبان درازیاں کرتا تھا آپﷺ کے حکم پر اسے غلاف کعبہ سے باہر نکال کر باندھا گیا۔ مقام ابراہیم اور زم زم کے درمیان اس کی گردن اڑادی گئی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے مالک بن نویرہ کو اس لئے قتل کیا تھا کہ اس نے دوران گفتگو آپﷺ کیلئے صا حبکم (تمہارے ساتھی) کا لفظ بطور تمسخراستعمال کیا تھا۔ایک صحابی کی بیوی گستاخ رسول تھی ایک دن اس نے توہین کا ارتکاب کیا تو انہوں نے اسے قتل کر دیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا میری بیوی میرے دو بیٹوں کی ماں تھی میری خدمت گزار تھی مگر آپ ﷺ کی گستاخ تھی اس نے میرے سامنے آپ ﷺ کے خلاف بد زبانی کی جس پر میں نے اسے قتل کر دیا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا اس آدمی پر میرا حق ہے اور اس نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا گواہ رہو اس عورت کا خون ساقط ہے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے ایک ایسی عورت کو قتل کیا جو آنحضرت ؐ کو گالیاں دیتی تھی۔ ایک صحابی نے اپنی گستاخ رسول بہن کو قتل کر کے حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا قصہ سنایا تو آپ ؐ نے اس عورت کا خون ساقط کر دیا۔ ایک یہودی عورت آنحضرتﷺ کو گالیاں دیتی تھی ایک صحابی نے اس کا گلہ گھونٹ کر اسے قتل کر دیا آپ ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ؐ نے اس کا خون ساقط قرار دیا،یہ دورِ نبوت کے چند واقعات تھے اب آئیے بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کا طرزِ عمل دیکھتے ہیں کہ انہوں گستاخانِ رسول کے ساتھ کیا برتاؤکیا؟حضرت فاروق اعظم ؓ کے زمانہ خلافت میں ایک پیش امام قرات جہری میں ہمیشہ ”سورۃ عَبَسَ“کی تلاوت کرتا تھا مقتدیوں کو شکایت پر اسے طلب کیا گیا اور پوچھا تم ہمیشہ یہی سورۃ کیوں پڑھتے ہو؟ کہنے لگا مجھے مزہ آتاہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جھڑکا ہے اس پر اس کا سر قلم کر دیا گیا۔شیطان صفت بادشاہ ریجی نالڈ نے عرب پر فوج کشی کا ارادہ کیا تاکہ روضۂ اقدس ؐ کو منہدم اور کعبہ کو مسمار کرد ے مسلمان اسکے مقابلے کیلئے مدینہ سے باہر نکلے اسلامی لشکر کو دیکھ اس کی فوج بھاگ گئی لیکن مسلمانوں نے ان کو پکڑ پکڑ کر قتل کیا۔بادشاہ خود بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔1186ء میں اس نے مسلمان تاجروں کا ایک قافلہ لوٹ کر اہل قافلہ کو گرفتار کیا جب لوگوں نے اس سے رہائی کیلئے کہا تو اس نے توہین آمیز جواب دیتے ہوئے کہا تم محمد ﷺ پر ایمان رکھتے ہو اسے کہو کہ وہ آ کر تمہیں چھڑا دے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس کی گستاخانہ گفتگو کی خبر ملی تو سلطان نے قسم کھا کر کہاکہ اس گستاخ کو میں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔ صلیبی لڑائیوں کے سلسلہ میں ایک موقع پر فرنگیوں کو شکست ہوئی، فرنگی شہنشاہ اور شہزادے قید کر کے سلطان کے سامنے لائے گئے ان میں ریجی نالڈ بھی تھا،سلطان نے اس کو تما م بد اعمالیاں گنوائیں اور یہ بھی کہا کہ اس وقت میں محمد رسول اللہ ﷺ سے مدد چاہتا ہوں اور یہ کہہ کر اپنے ہاتھ سے اس موذی کا سر قلم کر دیا اور کہا یہ حضور ﷺ کے ساتھ گستاخی کی سزا ہے۔اندلس (سپین) میں 850ء میں یولو جئیس نامی پادری اور اس کی محبوبہ فلورا نے گستاخی رسالت کی تحریک شروع کی امیر عبدالرحمن نے سختی اور نرمی دونوں طریقوں سے کام لیا لیکن یہ سلسلہ ختم نہ ہوا۔ ان واقعات نے امیر کی صحت پر اثر ڈالا اور وہ مرض سکتہ کے سبب 852ء کو دنیا سے چل بسے۔ ان کے بیٹے محمد بن عبدالرحمن نے توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم دیا اس دوران 12پادریوں اور راہباؤں کو جہنم رسید کر دیا گیا۔ 860ء جاکر گستاخیوں کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ 1929ء کو لاہور کے ایک کتب فروش راجپال نے ایک گستاخانہ کتاب شائع کی، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی مگر لاہور ہائی کورٹ نے اسے بری کر دیا۔ اس پرمسلمانوں میں سخت ہیجان بر پا ہو گیا۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے غلامانِ رسول کی غیرت کو للکارتے فرمایا حرمت رسول پر کٹ مرنے کا وقت آگیاہے آج کفار نے توہین پیغمبرکافیصلہ کرلیا ہے۔انہیں شاید یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ مسلمان مرچکاہے آؤ اپنی زندگی کا ثبوت دیں۔ عزیزنوجوانو!تمہارے دامن کے سارے داغ صاف ہونے کا وقت آپہنچاہے۔گنبدخضریٰ کے مکین ﷺتمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔ان کی آبروخطرے میں ہے،ان کی عزت پر کتے بھونک رہے ہیں۔اگر قیامت کے دن محمدﷺکی شفاعت کے طالب ہو توپھر نبی کی توہین کرنے والی زبان نہ رہے یا سننے والے کان نہ رہیں۔“راجپال پر یکے بعد دیگرے تین قاتلانہ حملے ہوئے۔تیسرا حملہ غازی علم الدین ؒنے کیا۔ جس سے وہ جہنم رسید ہوگیا۔ غازی علم الدین ؒکو سزائے موت ہو گئی اور وہ شہادت کے بلند مقام پر فائز ہو گئے۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو قتل پر اکسانے کے جرم میں دو سال قید کی سزا ہوئی۔ اسی طرح غازی مرید حسین شہید ؒ، غازی میاں محمد شہیدؒ، غازی عبدالرشید شہید ؒ، غازی عبداللہ شہیدؒ، غازی محمد صدیق شہید ؒ، غازی بابو معرالدین شہید ؒ، غازی امیر احمد شہید ؒ، غازی حاجی محمد مانکؒ، غازی عبد المنانؒ، غازی منظور حسین شہیدؒ، غازی محمد اسحاق شہیدؒ، غازی فاروق احمدؒ، غازی عبدالرحمن شہیدؒ (بفہ) غازی احمددین شہیدؒ، غازی زاہد حسینؒ، غازی عامر چیمہ شہیدؒ،غازی ممتاز قادری شہید ؒاور دیگرکئی گمنام غازیانِ تحفظ ناموس رسالت ؐ نے ہر دور میں گستاخانِ رسول ؐ کو کیفرکردار تک پہنچا کر ایمانی غیرت کا ثبوت دیا ہے۔فقہائے امت میں سے امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ،ؒ حضرت امام مالکؒ،امام احمدبن حنبلؒ،امام ابویوسف،ؒامام ابن عابدین شامی ؒ،امام ابن نجیم مصری حنفی،ؒامام حصفکیؒاور امام ابن تیمیہؒ سمیت جمہورعلمائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ آنحضرت ﷺکی شان میں کسی قسم کی گستاخی کے مرتکب کی سزاقتل اورصرف قتل ہے،البتہ امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ ہے کہ گستاخیئ رسولؐ کا مرتکب اگر مسلمان ہو تو اسے توبہ کرنے کو کہاجائے،اگرتوبہ کرے تو ٹھیک ورنہ مرتدہونے کی وجہ سے اسے قتل کیا جائے،لیکن علامہ ابن نجیم حنفی ؒنے اپنی مشہور کتاب”بحرالرائق“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مرتدکی سزاہے اور مرتدسے توبہ کے بارے میں کہاجائے گا اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں قتل کیاجائے گا مگر گستاخ رسول اس سے مستثنیٰ ہے،گستاخیئ رسول کی وجہ سے جو شخص مرتدہوجائے اسے بہرحال قتل کیاجائے اگرچہ توبہ کرلے،ہاں توبہ کے بعد اس کی نماز جنازہ اور تجہیزوتکفین مسلمانوں کی طرح کی جائے گی اور اگر توبہ نہ کرے تو قتل کے بعد اس کے ساتھ غیرمسلموں والاسلوک کیاجائے گا۔ شانِ رسالتؐ میں گستاخی بہت بڑاگھناؤنا جرم ہے لیکن افسوس ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک گستاخانِ رسول ؐ کے محافظ ٹھکانے بنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے یہ ممالک گستاخانِ رسولؐ کو پروٹوکول دیکر خصوصی عنایات سے نوازتے ہیں۔آج پورا مغرب آسیہ مسیح نامی اس ملعونہ عورت کو ایک ایساہیرو تسلیم کرتاہے،گویاجس نے کوئی بہت بڑامعرکہ سرکیا ہو۔پورا یورپ اس کے استقبال کے لئے بے چین ہے۔مغرب کاہرملک اس کو مہمان بنانے کے لئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے ہے۔کبھی فرانس کاصدر اس سے تنہائی میں شرف ملاقات بخشتاہے،کبھی پاپائے روم اس کوبوسہ دینے کے شرف سے محظوظ ہوتا ہے،اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اس ملعونہ نے ہمارے آقائے دوعالم ﷺکی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے،اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا دل دکھایا ہے۔محبت ورواداری،صبر وبرداشت اورانسانی حقوق کے راگ الاپنے والے اسلام اور مسلمانوں سے اتنی شدید عداوت،نفرت،حسد اور بغض رکھتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائے،جومسلمانوں کے جذبات کودکھ دے،جو مسلمانوں کے ایمانیات پر حملہ کرے،جومسلمانوں کی غیرت کو للکارے،جومسلمانوں کو ذہنی اذیت سے دوچارکرے،جو مسلمانوں کے عقیدے پر نکتہ چینی کرے،جو مسلمانوں کی سب سے بڑی ہستی پر کیچڑاچھالے،جو مسلمانوں کے پیغمبرؐکے خلاف زبان درازی کرے وہی گندگی کا کیڑامغربی عوام،حکومتوں،تنظیموں اور مذہبی پیشواؤں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے،اس کے لئے مغرب کا ہرملک اپنے دروازے کھول دیتا ہے،اس کے لئے مغربی ممالک کے خزانوں کے دھانے کھول دئے جاتے ہیں،اس کا پورا خاندان بڑے پروٹوکول کے ساتھ مغربی ممالک میں منتقل کردیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ 29جولائی 2020 ء کو پشاور کی ایک عدالت میں پیش ہونے والے جھوٹے مدعیئ نبوت طاہر احمدنسیم نامی شخص کو خالد نامی نوجوان نے بھری عدالت میں گولی مار جہنم رسید کردیا،اس پر کچھ عناصر واویلا کررہے ہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لے کر اس طرح کسی قتل کرنا جائز نہیں،حالانکہ یہ صرف ایک کیس نہیں اس کے علاوہ عدالتوں میں کتنے حملے ہوتے ہیں اور اپنے مخالفین کو بھری عدالتوں میں قتل کردیاجاتاہے مگر اس پر کوئی شور نہیں مچاتا لیکن جب کسی گستاخِ رسول کوکوئی عاشق رسول قتل کرتا ہے تو وہاں سیکولر اور کچھ مذہبی جدت پسندوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں،تاریخ صاف بتاتی ہے کہ آج تک کسی گستاخِ رسول کو قتل کی سزانہیں ملی اگر کسی گستاخِ رسول کو کیفرکردار تک پہنچایا ہے تو وہ غازی علم دین سے لے کر غازی خالد تک کے عاشقانِ رسول کے کارنامے ہیں جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ گستاخِ رسول کو اس کے اصلی انجام تک پہنچایا ہے۔