الحمدللہ۔ ثم الحمدللہ۔ وہ موقع آن پہنچا جس کا افغانستان اور پاکستان کے ہر امن پسند انسان کو انتظار تھا۔ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے مذاکرات کی میز پر اس ہفتے قطر میں بیٹھ رہے ہیں۔ بالآخر باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے جس میں امریکہ اور پاکستان سہولت کاری کریں گے۔ یہ مرحلہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات سے بھی زیادہ اہم ہے۔
افغانوں کے آپس کے یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا اور اگر خاکم بدہن ناکام ہوئے تو نئی اور ماضی کی تباہیوں سے بڑی تباہی کی بنیاد پڑ جائے گی۔ یوں اس موقع پر تمام فریقوں (افغان حکومت، افغان پیس کونسل، طالبان اور پاکستان) کو عجلت سے بھی کام لینا ہوگا اور سنجیدگی سے بھی۔
ہٹ دھرمی کے بجائے مخالف فریق کی مجبوریوں کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا اور صرف اپنی بات منوانے کے بجائے امن اور صلح کی منزل کو اپنے ذہنوں پر سوار کرنا ہوگا۔ پہلی تلخ حقیقت جس کی بنیاد پر میں عجلت اور سنجیدگی سے کام لینے پر زور دے رہا ہوں یہ ہے کہ افغانستان سے انخلا اور طالبان کو غیرمعمولی رعایتیں دینے کا فیصلہ تنہا امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی تازہ کتاب کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا یہ منصوبہ اپنے اداروں پر مسلط کردیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی اس طریقے سے افغانستان سے انخلا کے حق میں نہیں ہے۔
اسی طرح امن عمل میں پاکستان کے قائدانہ کردار کے بھی امریکی ادارے حق میں نہیں ہیں۔ یوں اگر بین الافغان مذاکرات امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو سارا معاملہ الٹ سکتا ہے۔
ایسا ہو گیا تو پھر سب پچھتائیں گے اور یہ موقع پھر نہ طالبان کے ہاتھ آئے گا اور نہ پاکستان کے۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ مشرقی بارڈر یعنی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا ہمنوا ہے اور اس کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے جبکہ چین کے معاملے میں بھی دونوں کا ایکا ہو گیا ہے لیکن پاکستان کی وجہ سے حالیہ امن عمل سے اسے بالکل باہر کردیا گیا ہے۔
ہندوستان کو افغانستان کے معاملات سے اپنے باہر ہونے کا بہت دکھ ہے لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف اس کو اس بات کی ہے کہ اگر طالبان افغانستان کے نظام کا حصہ بن گئے تو پھر وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکے گا جس طرح کہ ابھی تک کررہا ہے۔ اسلئے اس وقت ہندوستان افغانستان میں اپنے پراکسیز کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کررہا ہے اور امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔
وہ ایک طرف اپنے افغان پراکسیز کے ذریعے پاکستان کو مشتعل کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسری طرف افغان حکومت کے اندر اپنی لابی کے ذریعے طالبان سے متعلق الٹے سیدھے اقدامات کرے گا تاکہ وہ مشتعل ہوکر مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیں۔ علاوہ ازیں وہ افغانستان کے اندر بھی تخریب کاری کی ایسی کارروائیاں کر سکتا ہے کہ جن سے طالبان کو بدنام کرکے یہ تاثر دے سکے کہ طالبان اب بھی امن کے بجائے جنگ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ امر پیش نظر رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں چونکہ ایک فریق خود امریکہ تھا اسلئے اس کے خوف سے ہندوستان اس کو سبوتاژ کرنے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آسکتا تھا اور اب جبکہ معاملہ افغانوں کے درمیان ہے تو وہ سبوتاژ کرنے کے لئے پوری قوت صرف کرے گا۔ انڈیا کے علاوہ بھی خطے میں بعض ممالک ایسے ہیں جو امریکہ کو افغانستان میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ بھی اپنے پراکسیز کے ذریعے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے۔
تیسری تلخ حقیقت یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ اس عمل کو ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے بادل ناخواستہ آگے بڑھا رہی تھی، اسی طرح افغان حکومت بھی بین الافغان مذاکرات میں بادل ناخواستہ شرکت کررہی ہے۔ امریکہ نے افغان حکومت کے بغیر جس طرح طالبان سے براہِ راست مذاکرات کئے، اس کی وجہ سے افغان حکومت کی پوزیشن اور حیثیت کافی کمزور ہوئی اور ڈاکٹر اشرف غنی نے اس معاہدے کو بادل ناخواستہ قبول کیا۔
اب ان کی حکومت کے اندراہم عہدوں پر فائز ایسے عناصر موجود ہیں جو ڈاکٹر اشرف غنی کو یہ باور کرارہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کا مطلب ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا۔ انہی عناصر کی وجہ سے طالبان کے چار سو قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی گئی اور لویہ جرگہ بھی اصلا اس غرض کے لئے بلایا گیا تھا کہ اس سے طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرانے کا فیصلہ لے سکیں لیکن حامد کرزئی، ڈاکٹر عبداللہ اور پیس کونسل کی کوششوں سے لویہ جرگہ سے الٹ فیصلہ آگیا۔
تاہم آگے جاکر بھی یہ عناصر مذاکرات میں افغان حکومت سے ایسی شرائط رکھوائیں گے کہ جو طالبان کے لئے قابلِ قبول نہ ہوں۔ دوسری طرف طالبان کی مجموعی قیادت کی سوچ میں کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن ان کے ہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو سابقہ سوچ کے حامل ہیں یا پھر کچھ ممالک کے زیر اثر آگئے ہیں یا پھر آئین اور جمہوریت کی بجائے بندوق پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ عناصر بھی رکاوٹیں ڈال سکتے ہیں۔
چوتھی حقیقت یہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات پر آمادگی کے باوجود سردست افغان حکومت اور طالبان کے موقف میں بعدالمشرقین ہے۔ حکومت اپنے آپ کو آئینی اور قانونی حکومت سمجھتی ہے اور کابل میں بیٹھے ہوئے تمام کرداروں کا اصرار ہے کہ طالبان کو بھی گلبدین حکمت یار کی طرح آئین کے تابع بن کر جمہوری نظام کا حصہ بننا ہوگا۔ دوسری طرف طالبان کا اصرار ہے کہ ان کی امارت ہی افغانستان کی اصل حکومت ہے۔ اس امارت اسلامی کو بحال ہونا چاہئے اور موجودہ سیاسی نظام میں شامل لوگوں کو ان کی امارت میں شمولیت اختیار کرنی ہوگی۔
یوں بظاہر دیکھا جائے تو اس وقت دونوں فریق دو انتہائوں پر کھڑے ہیں۔ حامد کرزئی کی قیادت میں جرگہ کے ذریعے ڈاکٹراشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین ڈیل یا پھر اب لویہ جرگہ کے انعقاد اور فیصلوں نے ثابت کردیا کہ افغان اب بھی مذاکرات اور جرگوں کے ذریعے مشکل سے مشکل مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ افغان حکومت اور طالبان کی ڈیل اتنی آسان نہیں۔اس لئے دونوں فریقوں کو بہت تحمل اور قربانی سے کام لینا ہوگا اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی فریقین کو مشترکہ نکات پر لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
اگرچہ اب بھی معاملات کی ڈرائیونگ سیٹ پر امریکہ بیٹھا ہے لیکن پاکستان اور افغان حکومتوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ چین اور روس کو بھی پس پردہ فعال کردار پر آمادہ کرلیں کیونکہ یہ دونوں ممالک بھی فریقین پر گہرا اثر ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں۔
امریکہ باہر سے آیا ہوا ملک ہے جبکہ افغانستان میں امن، افغانوں کی طرح پاکستان، چین اور روس جیسے ممالک کی زیادہ ضرورت ہے۔