تحریک پاکستان اور اس سے قبل آزادی ہندکی جتنی تحریکیں چلی ہیں ان میں علماء ہزارہ کا کردار روزِ روشن کی طرح واضح ہے، ان حضرات نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر دینی،قومی،ملی اور عوامی مفادات کے لئے ہروہ قربانی پیش کی ہے جس کی اس وقت ضرورت تھی،شدیدسے شدیدمشکلات میں بھی انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کیانہ لوگوں کے طعن وتشنیع کی کوئی پرواہ کی نہ کسی خان وڈیرے سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی فرنگی جبراستبدادکوخاطرمیں لاکر انہوں نے اپناراستہ بدلا،ورنہ ان کے لئے عافیت کے بے شمار دروازے کھلے ہوئے تھے،فرنگی سرکار کی طرف سے ان کوپرسکون زندگی گزارنے کے کئی پیشکشیں ہوئیں،لالچ اور خوف کے سارے حربے ان کی زبانوں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کئے گئے مگر ان مردانِ حق وصداقت کو کوئی طاقت اپنے متعین کردہ راہ سے ہٹانہ سکی،یہی وہ لوگ تھے جن کی قربانیوں کی وجہ سے بالآخرانگریزوں کو اپنابوریابستر گول کرکے برصغیر پاک وہندسے جاناپڑا،جہادی آزادی میں ان لوگوں کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے۔جن میں چند حضرات کا تذکرہ درجِ ذیل ہے۔
حکیم عبدالسلام ہزاروی:آپ کی پیدائش موضع میرپور (علاقہ کنڈی کاہل)ہری پور شہر سے تین میل دورمیں ہوئی ا ٓپ کے والد مولانا محمددین ایک جید عالم اورمجاہد صفت بزرگ تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی، ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد کاسایہ سرسے اُٹھ گیا۔مختلف دینی کتب پڑھنے کے بعد علم طب کی تکمیل کی، 1927ء میں ہری پور شہرمیں طب کا آغازکیا۔1927ء میں ان کے مطب میں کانگریس کمیٹی کی بنیادرکھی گئی۔1928ء میں انہیں ہزارہ کانگریس کمیٹی کا صدرچن لیاگیا۔اس کے بعد جلد ہی سرحدکانگریس کمیٹی کے صدر اور کل ہندکانگریس کی مجلس عاملہ کے رکن چن لئے گئے۔اس عرصہ میں کئی بارگرفتار ہوئے 1939 ء میں سبھاش چندربوس کو ملک سے فرارہونے میں مدددینے کی وجہ سے گرفتارکرلئے گئے اور ساڑھے تین سال کے لئے دیولی کیمپ (راجپوتانہ)میں نظر بندکردئے گئے۔رہائی کے بعد تین سال تک ہری پور میں نظربند رکھے گئے۔کچھ عرصہ بعد کانگریس کی پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے کر مجلس احرارِ اسلام سے منسلک ہوگئے اور عرصہ تک مجلس احرارِ اسلام کے صوبائی صدررہے۔قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔1915ء کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔لیکن برسراقتدار لیگی قیادت کی دراندازی سے کامیاب نہ ہوسکے۔اس کے بعد جمعیت علماء اسلام سے وابستہ رہ کر دین کی خدمت کاکام کرتے رہے۔وفات سے قبل وہ جمعیت علماء اسلام ہزارہ ڈویژن کے امیر تھے۔آپ ایک تجربہ کار اور نامور حکیم تھے،اس شہرت کی بناء پر 1958ء میں گورنمنٹ طبی بورڈکے ممبرنامزد ہوئے دوسری بار 1965ء میں پھر ممبرنامزد ہوئے۔تیسری بار انہوں نے اطباء کی مقبول جماعت پاکستان طبی کانفرنس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑااور اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 1935ء میں جب حکومت برطانیہ نے قبائلی علاقوں پر بمباری کی تو آپ حضرت علامہ اقبال کا تعارفی خط لے کر افغانستان کے سفیر متعینہ دہلی سے ملے اور ان کی وساطت سے حکومت افغانستان کو مطلع کیا،جس سے یہ بمباری فوراً بندکردی گئی۔آپ سیاسی،علمی وطبی دنیا کے نامور فردتھے،اپنی سترسالہ زندگی کاساتواں حصہ پسِ دیوارزنداں گزارا،انگریز کے جورواستبداد کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔تحریک ختم نبوت 1953ء اور 1972ء میں موثر کردار اداکیا۔22جنوری 1977ء کو انتقال ہوا۔
مولانامقبول الرحمن:مولانا مقبول الرحمن صاحب”شہیلیہ“ضلع مانسہرہ میں 1891ء کو پیداہوئے،آپ کے والد کانام مولانا عزیزالرحمن صاحب ہے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی کچھ عرصہ مدرسہ عبدالرب دہلی میں نبھی پڑھتے رہے پھر دارالعلوم دیوبندمیں داخل ہوئے اور 1913ء میں حضرت شیخ الہندسے دورہ حدیث پڑھ سندفراغت حاصل کی۔ 1920ء میں تحریک خلافت کی بناپر ریاست پلڑہ کی سکونت ترک کرکے ڈھائی ہزار کے قافلہ کے امیرکی حیثیت سے ہجرت کرکے کابل چلے گئے۔وہاں امیر امان اللہ خان نے انہیں حبیبیہ کالج میں لیکچرر لگادیا مگر ایک ماہ بعد اگست 1920ء میں واپس آگئے۔
حضرت مولانا فضل ربی:مولانا فضل ربی بفہ (ضلع مانسہرہ)میں پیداہوئے آپ کے والدکانام مولوی محمود تھا جید عالم دین تھے جو بٹگرام سے آکر بفہ میں سکونت پذیر ہوگئے تھے 1910ء کودارالعلوم دیوبندمیں حضرت شیخ الہندمولانا محمود حسن ؒسے دورہ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت شیخ الہندؒ کے مکان پر خفیہ جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔شیخ الہندمولانا محمودحسن نے انہیں مولاناسیف الرحمن، مولانافضل محمود وغیرہ کے ہمراہ جہاد کی تبلیغ کے لیے آزاد قبائلی علاقہ میں بھیجا تھا۔آپ نے ہزارہ میں جگہ جگہ جلسوں سے خطاب کرکے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں میں ایک جوش وجذبہ پیداکردیا تھا۔ انگریزحکومت نے تاج برطانیہ کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے جرم میں آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے مگر آپ بھیس بدل کر مجاہدین چمرقند کے پاس چلے گئے۔حاجی صاحب ترنگزئی نے حزب اللہ کے پروگرام کے مطابق اتمان زئی سے نکل کر قبائلی علاقوں میں جاکر انگریز وں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو آپ حاجی صاحب کے لشکر میں شامل ہوگئے۔مجاہدین چمرقندبھی آپ کی معیت میں تحریک حزب اللہ کے علم کے نیچے انگریزوں کے خلاف جہادمیں بھرپورحصہ لینے کے لئے رستم (ضلع صوابی)کے میدان میں حاجی صاحب کی کمان میں انگریزی فوج کے خلاف لڑائیوں میں مصروف ہوگئے، جن میں انگریزی فوجوں کا بھاری نقصان ہواتھا۔ اس کی پاداش میں چیف کمشنرپشاور نے ڈپٹی کمشنرہزارہ مسٹربولٹن کو29اگست 1916ء کولکھاکہ تحقیق سے معلوم ہواہے کہ بفہ مانسہرہ کا مولوی فضل ربی حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ شامل ہوکرتاج برطانیہ کے خلاف سرگرم جہاد ہے لہذاحکم دیاجاتا ہے کہ اس کے تمام رشتہ داروں کو گرفتارکرکے ان کی تمام جائیدادبحق تاج برطانیہ ضبط کی جائے اس حکم نامے کے ملتے ہی ڈپٹی کمشنرہزارہ نے مولانا فضل ربی کے تمام رشتہ داروں کو گرفتارکرکے جیلوں میں بندکردیا ان کے چھوٹے بھائی مولانا فضل الہی اور قریبی رشتہ دار مولانا گل حسن کو گرفتار کرکے ان کی تمام جائیدادضبط کرلی مولانا گل حسن توکچھ عرصہ بعد رہاہوئے مگر مولانا فضل الہی کئی سال تک قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔مولانا فضل ربی آخرتک انگریز حکومت کے خلاف برسرپیکار رہے 1929ء میں انگریز وں نے شاہ امان اللہ کے خلاف سازش شروع کردی تو مولانا فضل ربی حاجی صاحب کی قیادت میں ٹل (ضلع کوہاٹ) پہنچے ٹل کے مقام پر مجاہدین نے مولانا فضل ربی کی کمان میں مجاہدین نے انگریزی فوجوں کا مردانہ وارمقابلہ کیا۔ جب امان اللہ خان تخت شاہی پر بیٹھے تو مولانا کی علمی قابلیت،زہدوتقویٰ اور نیک سیرتی کومدنظر رکھتے ہوئے شاہ امان اللہ نے آپ کو افغانستان کا ”مفتی“مقررکیا قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے آپ کی جائیدادکو واگزار کرکے آپ کو دعوت دی کہ آپ پاکستان آجائیں مگر آپ واپس نہ آئے۔ افغانستان میں مستقل قیام اختیار کیا اوروہیں انتقال کرگئے۔جنودِ ربانیہ کی فہرست میں آپ کو کرنل کا عہدہ دیاگیا تھا۔
خطیب ہزارہ مولانامحمداسحاق لودھی:مولانامحمداسحق صاحب 1890ء میں اپرتناول کے مرکزی مقام ”لساں“میں مولانااحمدگل لودھی کے ہاں پیداہوئے،ابتدائی تعلیم کے بعد پیرمہرعلی شاہ صاحب سے علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند پہنچے 1921ء میں علامہ انورشاہ کشمیری سے دورہ حدیث پڑھ کر سندفرغت حاصل کی،آپ نے حضرت شیخ الہندمولانامحمود حسن ؒسے بھی استفادہ کیا تھا اور ان کے خادم بھی رہے تھے،فرغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں بطور معاون مدرس پڑھایا،1922 میں مرکزی جامع مسجد ایبٹ آبادمیں خطیب مقررہوئے،جرات وبیباکی،فصاحت وبلاغت اور خوش بیانی کی بناپر خطیب ہزارہ کے لقب سے مشہور ہوگئے،تحریک پاکستان میں آپ نے نمایاں حصہ لیا ۷۴۹۱ء کی تحریک سول نافرمانی میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،صوبہ (سرحد)خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں الیاگیا تو اس کا پہلا اجلاس ایبٹ آباد میں ہی میں ہوا،خطیب ہزارہ اس اجلاس میں شریک ہوئے اور انہیں جائنٹ سیکرٹری بنایاگیا،آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ اور خطیبانہ صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کے استاذ علامہ شبیر احمدعثمانی نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کے موقع پر خصوصی طورپر آپ کا انتخاب کیا،چنانچہ آپ نے اپنی تقریروں سے پورے صوبہ میں نظریہ پاکستان یوں متعارف کرایا کہ یہ نظریہ ہر شخص کا روح وجان بن گیا اور خصوصاًہزارہ کی سرزمین کی سیاسی بیداری کا باعث بنا،حق گوئی وبیباکی میں آپ کاکوئی ثانی نہیں تھا،اس لئے آپ فرمایاکرتے تھے کہ ”میراایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمادے گا،کیونکہ میں دین کی خاطر کبھی اپنی عزت کی پرواہ نہیں کی۔31اگست 1971ء کوانتقال ہوا۔
مولاناعبدالغنی اویسی:مولاناصاحب 1897ء کو نواں شہر ایبٹ آباد میں مولانابدرالدین صاحب کے گھر پیداہوئے،آپ نے ملک کے مختلف علماء کرام سے علوم وفنون حاصل کئے،1925 میں سلہڈ گاؤں امامت وخطابت شروع کی۔1937ء تا 1947ء آزادی وطن کی خاطر جتنی تحریکیں چلیں آپ ان سب میں پیش پیش تھے،بالخصوص سول نافرمانی کی تحریک اور ریفرنڈم کو کامیاب کرانے میں آپ نے انتھک جدوجہد کی،1940ء میں منٹوپارک لاہور میں منعقدہ اجلاس میں آپ نے ہزارہ ڈویژن کی نمائندگی کی،27جولائی 1947 ء کے مسلم لیگی اجلاس منعقدہ بمبئی میں صوبہ سرحدسے جو وفد شمولیت کیلئے بھیجاگیا اس میں آپ بھی شامل تھے،جب حکومت پاکستان نے مجاہدین تحریک پاکستان آپ کی سیاسی خدمات کے عوض صداتی تمغہ دینے کااعلان کیا توآپ نے اس تقریب میں یہ کہہ کرجانے سے انکار کردیا کہ ”میرے لئے یہی بڑاتمغہ ہے کہ پاکستان بن چکاہے اور صوبہ سرحدکا اس کے ساتھ الحاق ہوچکاہے“۔آپ یہ بھی فر مایاکرتے تھے کہ ”میں انگریز کے خلاف جہاد کیا ہے،جہاد عبادت ہے اور میں عبادت کا عوض دنیا میں حاصل نہیں کرنا چاہتا“۔تحریک ختم نبوت 1953ء اور تحریک ختم نبوت 1974ء میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کیں،14دسمبر 1984ء کوانتقال ہوا۔(جاری ہے)