ہر انسان کے اندر عزم،ہمت،ارادہ اور اختیار کو مضبوط کرنے والی ایک طاقت ہوتی ہے، جو ارادے کو کمزور نہیں ہونے دیتی۔اس کو قوت ارادی (will power)کہتے ہے۔ بعض لوگوں کی یہ قوت کمزور ہوتی ہے،کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو توڑتے ہیں،ایک قدم آگے تود وقدم پیچھے رہ جاتے ہیں۔جن افراد کی یہ قوت مضبوط کرتی ہے،وہ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ اس قوت کو مضبوط کرنے کا طریقہ یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان، توکل،اعتماد، بھروسہ اور یقین کیجئے۔ خود اعتمادی حاصل کیجئے۔ مسلسل اس بات پر توجہ رہے کہ مقصد حاصل کرنا ضروری ہے۔اور مقصد کے حصول کیلئے قربانی کیلئے بھی خود کو تیار کرنا ہے، مشقت اُٹھانی ہے، سستی سے جان چھڑانی ہے تو ان تمام عوامل کا اہتمام کیا جائے تو یہ قوت ارادی مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتی ہے۔
قوت ارادی کی ضرورت نوجوانی کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی پڑتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان کی زندگی کارُخ موڑنے میں بہت اھم کردار ادا کرتی ہے۔ جس نوجوان نے زندگی میں ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کا تہیہ کرلیاہے اور ساتھ ہی یہ اطمینان کر لیا ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے تو اسے نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ وہ اپنی قوت ارادی سے کتنا کام لے سکتا ہے، کیونکہ کسی کام کی انجام ہی میں جن چیزوں کی لازمی ضرورت پڑتی ہے۔ قوت ارادی اُن میں پہلی اور سب سے ذیادہ ضروری ہے۔
قوت ارادی ہی وہ پٹرول ہے جس سے انسانی موٹر اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔ آپ موٹر بغیر پٹرول کے تھوڑی دور بھی نہیں چلاسکتے، انسانی طاقت بھی اس وقت تک بالکل بیکار ہے جب تک کہ قوت ارادی، عزم، حوصلہ اور اُمید اس کا ساتھ نہ دیں۔یہ ارادہ کی قوت ہی ہے جو کامیابی تک کیھنچ کرلے جاتی ہے اور صرف اسی کے نہ ہونے سے بزدلی اور ابتری پھیل جاتی ہے۔قوت ارادی انسانی دماغ کا حکمران ہے یہی وہ قوت ہے جو”میں کرسکتا ہوں“کو”میں کروں گا“اور ”میں کروں گا“کو ”میں نے کردکھایا“ میں بدل دیتی ہے۔اگر کسی کام میں آپ کا دماغ اور قوت جواب دینے لگے تو وہیں ٹھرجاہیئے،انھیں ایک بار ذرا پیچھے کیھنچ لیجئے اور پھر از سر نو حوصلہ کیجئے،کامیابی یقیناً آپ کے قدم چومے گی۔لیکن آج کل نوجوان میں سب سے بڑی کمی قوت ارادی ہی کی ہے۔
اب قوت ارادی کیسے پیدا کی جائے تواس کو ایک آسان مثال سے سمجھنے۔کبھی آپ ہاکی،فٹ بال یاکرکٹ کے میچ میں گئے ہوں گے،وہاں جب بڑے سخت مقابلہ کے بعد آپ کی ٹیم جیت گئی ہوگی تو آپ نے رور انتہائی جوش میں چیخ چیخ کر اپنا گلابٹھا لیاہوگا۔اور پھر بھی آپ کا جوش دھیما نہ پڑا ہوگا، گھر پہنچ کر اپنے ساتھیوں اور عزیزوں کو بتایا ہوگا کہ ہماری ٹیم جیت گئی یا اپنے کلاس فیلوز اور آفس میں سنایا ہوگا کہ ہماری ٹیم جیت گئی،ہم نے مقابلے کی ٹیم کے چھکے چھڑادیئے،ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں نے کمال کردیا،اور اگراس دور ان کبھی کال پر بات کرتے ہونگے تو بھی جیت کا ذکر کیا ہوگا۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے نا!ایسے موقعوں پر اپنی خوشی اور دھن میں آپ اور سب کچھ بھول جاتے ہیں،آپ کو صرف ایک ہی خیال ہوتا ہے کہ ہماری ٹیم جیت گئی۔اس عارضی سپرٹ کو اپنے اندر مستقل بنانے کی کوشش کیجئے اس سے آپ میں قوت ارادی پیدا ہوگی،یقین مانیئے آپ بہت جلد اسے حاصل کرلیں گے۔ بس آئندہ جب بھی آپ کوئی کام شروع کریں تو وہی ہماری ٹیم جیت گئی والی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لیجئے،یہاں تک کہ آپ اس کام کی دھن میں اور سب کچھ بھول جائیں،اس وقت آپ کو کبھی اپنا،اپنی ہستی کا خیال آئے گا توآپ پہلے کی طرح”کاش میں کرتا“ یا ”میں کر تو سکتا ہوں“ نہیں کہیں گے بلکہ خود بخود آپ کی زبان سے نکلے گا ”میں کردوں گا‘‘۔ یہ قوت ارادی بول رہی ہوگی۔
قوت ارادی کو حاصل کرنے کے لئیے چار باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔اس کے لیئے نہ تو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی غیر معمولی ذہانت کی،البتہ انتھک محنت ضرورت ہوتی ہے۔وہ چار باتیں درج ذیل ہیں۔
.1 ایک قطعی مقصد جس کے حصول کا پختہ ارادہ ہوں۔
.2 ایک مکمل لائحہ عمل جس پر مسلسل عمل کیا جائے۔
.3 ایک پکا ارادہ جو کسی بھی قسم کے خطرات اور مخالفتوں کو خاطر میں نہ لائے۔
.4 ایسے لوگوں سے ذیادہ سے ذیادہ تعلقات اور روابط جو آپ کے ارادے کی حمایت اور تائید کریں اور آپ کے مقصد میں کامیابی کے متمنی ہیں۔