مولانامطیع الرحمن:آپ 1894ء کو وادی کاغان کے مشہورگاؤں جرید میں مولانامحمدافغان کے ہاں پیداہوئے،آپ کے والد علاقہ کے مشہور عالم اور قاضی تھے،ابتدائی تعلیم اپنے گھرمیں حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے 1333ھ میں دارالعلوم دیوبند پہنچے،اور 1339ھ میں حضرت مولانامحمدانورشاہ کشمیری سے دورہ حدیث پڑھ کر سندفراغت حاصل کی۔تحریک خلافت میں بٹھ چڑھ کرحصہ لیا اس کی پاداش میں پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دئے گئے مگر اس سزاکے بعد بھی کوئی اثر نہ ہوا اور پہلے سے زیادہ جوش وخروش سے تحریک میں حصہ لیناشروع کردیا کئی دفعہ گرفتار ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئے گئے مگر ہربار پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ تحریک میں حصہ لیتے رہے،دسمبر 1955ء میں انتقال ہوا۔
قاضی محمداسحق:آپ 10نومبر 1914ء کو ڈھوڈیال نواں شہر ایبٹ آباد میں قاضی غلام جیلانی کے ہاں پیداہوئے،ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی پھر مدرسہ حزب الاحناف لاہورمیں کچھ کتابیں پڑھیں،پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے،چار سال تک وہاں تعلیم کرتے ہوئے 1357ھ کو شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمدمدنی نے دورہ حدیث پڑھ کر سندفراغت حاصل کی،فراغت کے بعد ایبٹ کے مختلف مدارس میں درس وتدریس کے ساتھ صوبائی محکمہ تعلیم سے بھی منسلک ہوکر مختلف سکولوں میں پڑھاتے رہے،1947ء میں ملازمت چھوڑ کر حصولِ آزادی کے لئے تحریک پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور اس جدوجہد میں تین ماہ قیدوبند کی مصائب بھی برداشت کئے 18مارچ 2004کوانتقال ہوا۔
مولانانورمحمدجان:آپ 8اپریل 1918ء کو بالاکوٹ میں مولانافخرالدین صاحب کے ہاں پیداہوئے،گجرات اور میانوالی میں سبق پڑھنے کے بعد دارادلعلوم دیوبند چلے گئے 1360ھ میں شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمدمدنی ؒ سے دورہ حدیث پڑھ کر سندالفراغ حاصل کی،فارغت کے بعد گوجرنوالہ میں کچھ عرصہ تدریس کی پھر اپنے علاقہ میں درس وتدریس اور خطابت کے ساتھ محکمہ تعلیم میں دینیات کے پوسٹ پر تعینات رہے،پہلے کانگریس کی طرف مائل تھے پھر مسلم لیگ میں شامل ہوکر تحریک پاکستان کے لئے کام کیا،اس سلسلہ میں تین ماہ پابندسلاسل رہے۔
مولاناسرفرازخان صفدر:استاذ محترم،امام اہل سنت شیح الحدیث حضر ت مولانا سرفراز خان صفدر کڑمنگ بالا وادی کونش ضلع مانسہرہ میں 1914ء کوجناب نوراحمدخان کے ہاں پیدا ہوئے ملک کے مختلف علاقوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے چھوٹے بھائی مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒ کے ہمراہ 1941 ء کو دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور دیگر اکابر علماء کرام سے سند فراغت حاصل کی دورہ حدیث کے بعد مدرسہ انوار العلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں تدریس کا آغاز کیا۔1952ء میں آپ کے چھوٹے بھائی مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒنے گوجرانوالہ شہر میں جامعہ نصرۃ العلوم کے نام سے ایک عظیم دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی تو امام اہل سنتؒ اس درسگاہ میں طالبان علوم بنوت کو سیراب کرنا شروع کیا اور علوم و فنون کی تما م کتابیں پڑھائیں۔1953ء کی تحریک ختم نبوت میں آپؒ نے قائد انہ کردار ادا کیا اس تحریک میں آپ اپنے چھوٹے بھائی حضرت صوفی صاحبؒ سمیت گرفتار ہوئے اور 9 ماہ تک ملتان جیل میں رہے۔ جیل میں درس و تدریس کے ساتھ تالیف و تنصیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔1956ء میں مولانا احمد علی لاہوریؒ مولاناعبداللہ درخواستی،ؒ مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام کی تشکیل نو ہو ئی تو شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ بھی اس میں شامل ہو گئے اور کم و بیش ربع صدی تک آپ نے جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔1960ء میں آ پ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے اور مسلسل چالیس برس تک آپ قرآن و حدیث کی ضیاپاشیوں سے اطراف عالم کو منور کرتے ہوئے اس منصب پر فائز رہے۔ شعبان اور رمضان کی چھٹیوں میں آپ دورہ تفسیر القرآن بھی ہر سال پڑھاتے تھے اس دوران پچاس ہزار سے زائد طلباء نے آپ سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا۔حضرت شیخ نے سیاسی میدان میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ آپ نے کم عمری کے زمانہ میں بٹل کے مقام پر مولانااللہ دادخان کی زیر قیادت انگریز فوج کے خلاف جہاد میں حصہ لیاتھا،5مئی 2009ء کو انتقال ہوا۔
بطل حریت حضرت مولانا محمد اسحق مانسہروی ؒ:آپؒ1856ء میں جناب مولانا خواجہ گل محمد صاحب کے گھرحویلیاں میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر ہری پور میں مولانا عبداللہ صاحب اور مانسہرہ میں مولانا نورعالم سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے ہندوستان تشریف لے گئے اور مختلف مدارس میں پڑھ کر سندفراغت مولانا عبدالغفور صاحب کے مدرسہ دہلی سے حاصل کی۔فراغت کے بعد آپ کو جناب محمدحسین صاحب اور اور ارسلہ خان سواتی اپنے ہمراہ مانسہرہ میں خطیب کی حیثیت سے لے گئے۔ مانسہرہ جامع مسجدکی ا مامت وخطابت کے ساتھ آپ نے دینی کتابوں کی تدریس بھی شروع کردی۔مانسہرہ میں رہائش اختیار کرنے کی وجہ سے آپ مانسہروی کے نام سے مشہور ہوگئے۔آپ ہر اسلامی تحریک میں پیش پیش رہے،جن میں تحریک خلافت،تحریک مسجد شہیدگنج،اور تحریک ہلال احمرشامل ہیں۔ اس مرد مجاہد نے مانسہرہ کی سر زمین سے اٹھ کر پورے علاقے میں برطا نوی ظلم و استبداد کے خلاف رائے عامہ کو منظم کیا آپ عالم بے بدل اور پکے سچے مسلمان تھے آپ کی آواز میں گرج تھی تقریروں میں خلوص اور ایمانی جذبہ تھا جرات و بیباکی آپ کا خاصہ تھا۔ جب لاہور سے مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے جنگ طرابلس اور جنگ بلقان کے سلسلہ میں برطانیہ کے و جل وفریب کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو بیدار ہونے کی دعوت دی تو مانسہرہ سے اس آوازپر جس مرد مجاہد نے لبیک کہا وہ مولانا اسحق مانسہروی تھے یہاں سے مولانا اسحق مانسہروی کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا آپ نے پرجوش تقریروں سے نہ صرف ہزارہ بلکہ پورے صوبہ خیبرپختونخواہ(سرحد)میں آزادی کے شعلے بھڑکا دیئے۔مولانا کی اس آتش بیانی نے انگریزس حکام کو پریشان کردیا اور وہ مولانا اسحق مانسہروی کو نظر بند،گرفتار اور قید کرنا کی تدبیریں سوچنے لگے مولانا کی سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لئے انگریز حکام نے کئی قسم کے حربے استعمال کئے ہزارہ اور کے پی کے کے خوانین کو آپ کے خلاف بھڑکایا آپ کے راستہ میں کئی قسم کی مشکلات پیدا کیں،بلکہ انگریز کے وفادار خوانین آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے اور آپ پر کئی دفعہ قاتلانہ حملے بھی کروائے گئے مگر مولانا محمد اسحق مانسہروی ان لوگوں میں سے نہیں تھے کہ ان مشکلات و مصائب کو دیکھ کر گھبرا جاتے اور انگریز کے خلاف جدوجہد چھو ڑ کر گوشہ نشین ہو جاتے بلکہ ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں نے مولانا مرحوم کو اور زیادہ مشتعل کردیا آپ نے انگریز اور ان کے نمک خوار غدران ملک وملت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیا جس پر حکومت نے آپ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا محمداسحق مانسہروی نہایت بہادر اور نڈرمجاہد تھے انگریز کے خلاف جدوجہدان کا محبو ب مشعلہ تھا چنانچہ آپ نے مانسہرہ میں انگریز کی ایک پوری رجمنٹ مروادی تھی جس کے بعد آپ کو راولپنڈمیں محبوس کردیاگیا،انگریز حکام مولاناسے اس قدر خائف تھے کہ انہوں نے آپ کوگرفتار کرنے کے لئے فوج طلب کرلی فوج نے اس مرد مجاہد کو ان کے حجرے سے چاروں طرف سے گھیر لیا اس کے بعد آپ کو گرفتار کرکے نظر بند کردیا۔ تحریک خلافت میں آپ نے اہم کردار ادا کیا آپ اس دور کے کانگریسی اور خلافتی رہنماؤں میں صف اول کے رہنما تھے ہزارہ اور چھچہ حضرو اٹک کے علاقہ میں آپ کا بے حد اثرورسوخ تھا آپ کی پرجوش تقریروں اور مسلسل جاندار سرگرمیوں نے پورے علاقے میں سیاسی بیدار ی کی لہر دوڑا دی،آپ نے دو عمدہ قسم کے گھوڑے پال رکھے تھے جن پر سوار ہو کر ہزارہ اور چھچھ(حضروضلع اٹک) کے علاقوں میں تقاریر کرنے جایا کرتے تھے۔(جاری ہے)
تحریک آزادی میں علماء ہزارہ کا کردار (قسط سوم) حافظ مومن خان عثمانی
You might also like