زراعت پاکستان کے لئے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں مگر حکومتی کسان کش پالیسیوں کی بدولت کاشتکارکھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورتحال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔۔ اس کے علاوہ زہریلی زرعی ادویات کے نرخوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کسانوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ باوجوداس کے کہ ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کھاد، تصدیق شدہ معیاری بیج اور بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب، مشینی کاشتکاری کے اہم اور لازمی اجزاء ہیں جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث کسان ان تمام سہولیات کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ گندم کٹائی کے بعد جتنی دیر رکھی جائے کسانوں کو اتنا ہی نقصان ہوتا ہے اور حکومتی اہلکار یہی کوشش کرتے ہیں کہ کسانوں کو دیر ہو جائے۔ گندم کی کٹائی کے بعد کتنے دنوں تک ٹرالیوں میں گندم خریداری مراکز کے باہر کھڑی نظر آتی ہے اور کوئی کسان سے گندم نہیں خریدتا پھر کسان خود ہی اسے نجی شعبے کو سستے داموں بیچ دیتا ہے۔ہم اس حقیقت کو کب اپنے پلے با ندھیں گے کہ زراعت کوترقی دیئے بغیر اور اس ملک کے کسان کی حالت زار میں بہتری لائے بغیر ہم خود کو زراعت میں خود کفیل نہیں بنا سکتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک نے سب سے پہلے زرعی نظام میں اصلاحات اور کسان دوست پالیسیوں کو لاگو کرکے ہی زراعت میں خود کفالت حاصل کی ہے، کیونکہ زراعت کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ مقررہ شرح نمو اور ترقی و خوشحالی کے پیرا میٹرز پر عملدر آمد کو یقینی بنا یا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو کپاس سے ہونے والے دوہرے نقصان کا سامنا ہے۔ ایک تو اس کی جی ڈی پی میں سیدھے سیدھے ایک فیصد کی کمی ہو سکتی ہے دوسری طرف کپڑے کی مصنوعات اور خام کپاس کی برآمد نہ ہونے سے بھی قومی خزانے کو نقصان کا سامنا ہے۔یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کے باعث زراعت اور کسان دونوں تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔پاکستان میں کسانوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ جس قدر دن رات محنت کرتے ہیں اْس کا پھل انہیں ایک دانے کے برابر بھی نہیں ملتا۔ جس قدر وہ مہنگائی ہونے کے باوجود اپنی فصل پر خرچہ کرتے ہیں اس کے بدلے میں حکومت ان کو اس کا صحیح معاوضہ نہیں دیتی۔ پاکستانی حکومت نہ تو کسی قسم کا قرضہ کسانوں کو دیتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا محکمہ بنایا ہے جہاں سے کسانوں کو بیج اور کھاد اْس وقت تک اْدھار مل سکے جب تک اْن کی فصل تیار نہ ہو جائے۔ زرعی ترقیاتی بنک بھی صرف چند با اثر افراد کی خدمت پر معمور ہے۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث ہی کسانوں کو آڑھتیوں کے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ فصل کی بوائی سے قبل بیج اور کھاد فراہم کرکے انتہائی سستے داموں فصل اٹھا لیتے ہیں۔ اس طرح کسان اپنی دن رات محنت کا پھل حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح زرعی ادویات کو بھی روز بروز مہنگا کر دیا جاتا ہے اور حکومت کا کوئی بھی ادارہ اس مافیا کا نوٹس نہیں لیتا۔اگر پاکستان کے ہمسایہ ممالک کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتاہے کہ وہاں کی حکومتیں کسانوں کو کھیتوں میں بیج اور کھاد پہنچاتی ہیں اور فصل پکنے کے بعد اْس کی قیمت کسان کو فوری طور پر ادا کر دی جاتی ہے۔ پاکستانی کسانوں کے مسائل میں محکمہ زراعت بھی اہم کرادار ادا کر رہا ہے یہ کسانوں کو نہ تو بیجائی کے وقت کسی قسم کا طریقہ بتاتے ہیں اور نہ ہی جڑی بوٹیوں کیلئے کوئی ادویات مہیا کرتے ہیں نہ ہی انہیں استعمال کرنے کے بارے میں بتاتے ہیں صرف دفتروں میں بیٹھ کر اچھی تنخواہیں لے کر اچھا وقت گزار رہے ہیں اور کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔آج حالت یہ ہے کہ کسان پے در پے مصیبتوں اور آفتوں سے نیم جان پڑا ہے۔ زراعت مکمل تباہی کے راستے پر ہے پنجاب کے زرخیز میدانوں میں ٹڈی دل کا راج ہے اورپنجاب گورنمنٹ نے سپریم کورٹ میں جا کر اس کو ختم کرنے کے سوال پر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ بے وقت کی بارشوں اور ڑالہ باریوں سے فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم رہی اور پھر گورنمنٹ نے اپنے گودام بھرنے کے لئے کسانوں کو سرکاری ریٹس پر گندم بیچنے پر مجبور کیا اور جب کسانوں کے پاس سے گندم چلی گئی تو اس کے ریٹس یک دم ہوا سے باتیں کرنے لگے۔کیا کسانوں کی ڑالہ باری سے تباہ شدہ فصلوں پر کوئی ریلیف دیا گیا؟ بالکل نہیں۔ حکومت نے تو کسان کو بالکل بے سہارا کر دیاہے۔ نہروں کی بندش کی صورت میں نہری علاقوں میں اور وسیع بارانی علاقوں میں ٹیوب ویل بجلی سے چلائے جاتے ہیں۔ زرعی بجلی کی فی یونٹ قیمت مختلف ٹیکسز لگا کر دوگنا کر دی گئی ہے۔ ہر انتخابات کے موقع پر کسانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں سہانے خواب اور سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد ”کسانوں کے یہ ہمدرد“ نہ جانے کہاں گم ہو جاتے ہیں اور آٹا، مافیا، چینی مافیا، روٹی مافیا، آڑھتی مافیا، کھاد بیج مافیا اور زرعی ادویات ملاوٹ مافیا، بے چارے کسانوں کو گھیرے رکھتے ہیں کسان بے چارا جائے تو کہاں جائے ان کی داد و فریاد سننے والا کوئی نہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دیں زراعت اورکسان کے مسائل کو حل کریں اور یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدارزراعت پر ہی ہے اوار ملکی ترقی کا ہر راستہ زراعت سے منسلک ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شوگر مافیا نے گنے کے کاشتکاروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اور ایک ہی کھیل گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہی کھیل دہرایا جا رہا ہے۔ یعنی ایک دن گنے کے کاشتکاروں سے کم قیمت پر گنا ادھار خریدا جاتا ہے۔ کاشتکار اپنا گنا سڑکوں اور گاڑیوں میں لاد کر شوگر ملز تک پہنچتے ہیں انہیں وہاں کئی کئی دن انتظار کرایا جاتا ہے سڑکوں اور گاڑیوں کا کرایہ بڑھتا جاتا ہے اور دھوپ میں گنا خشک ہو کر اس کا وزن کم ہو جاتا ہے حکومت کے گنے کے اعلان شدہ ریٹ سے ہٹ کر گنا خریدا جاتا ہے جس کی ادائیگی کئی ماہ بعد ہوتی ہے اس کے بعد حکومت سے ساز باز کر کے رعایتیں اور اعانتیں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور کسانوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ گنے کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال نہیں کرسکتے،شکر گڑ کی صورت میں۔کماد کے کسان مسلسل پابندیوں کی زد میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان کو آزاد کر دیا جائے۔