دوآدمیوں کے ملنے کے ہر مذہب اورہردین نے کوئی نہ کوئی طریقہ منتخب اوروضع کیاہواہے کیوں کہ بغیر کچھ کہنے کا ملنا ملناہی نہیں ہے لیکن ان تمام میں سے جو طریقہ سیرتِ نبویﷺ میں موجودہے اس کا کوئی بدل نہیں کیونکہ اس میں ایک طرف دعاہے تودوسری طرف ملنے کا طریقہ اور ساتھ ہی تعارف کا ذریعہ ہے۔ ابتداء میں تو اس طرح ہوتا کہ جب اللہ نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایاور ان کے اندر روح پھونک دی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے‘‘الحمدللہ’’ کہااللہ تعالیٰ نے ‘‘یرحمک اللہ’’فرمایااورفرمایاکہ اے آدم ان فرشتوں کی طرف جاؤ جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اوران کو جا کر سلام کرو۔حضرت آدمؑ نے وہاں پہنچ کر‘‘السلام علیکم’’کہاتو فرشتوں نے اس کے جواب میں ‘‘وعلیکم السلام’’کہاپھر واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ بلاشبہ یہ تحیہ ہے تمہارااور آپس میں تمہارے بیٹوں کا۔
سلام ایک ایسی عظیم چیز ہے جو جھگڑوں کو ختم کردیتی ہے۔سلام آدمی نہ کرے توبرا سمجھاجاتاہے اور اگر سلام کرلے تو جاہل بھی جھک جائیں گے کہ یہ بڑااچھا آدمی ہے سلام کررہاہے اس واسطے فرمایاگیاہے کہ باہم دشمنیاں ڈھیلی پڑجائیں گی اور‘‘وعلیکم السلام’’کہنے پر مجبورہوگا جس کا مطلب ہے کہ تمہارے لیے بھی سلامتی ہوجب سلامتی کی دعا دے گا تو جھگڑااُٹھائے گاکیوں؟خودکہہ رہاہے کہ اللہ تمہیں صحیح سلامت رکھے تو دعابھی دی اور اوپر سے جھگڑابھی اُٹھائے اس سلام نے ساری دشمنیاں ختم کردیں اس واسطے حدیث میں فرمایاگیاکہ سلام کرنے کی عادت ڈالو،خواہ تعارف ہو یا نہ ہو۔
آج کل کے زمانہ میں تمدن یہ ہے کہ جب تک تیسرا بندہ تعارف نہ کرائے نہ بول چال، نہ سلام نہ کلام۔یہ متکبرانہ تمدن ہے یہ اسلام کا تمدن نہیں ہے۔اسلام کا تمدن یہ ہے کہ جب ہم میں اورتم میں اسلام کا رشتہ مشترکہ اسلامی اُخوت اور بھائی چارہ موجود ہے تو کیاضرورت کہ کوئی تیسرا تعارف کرائے پہلے سے ہی تعارف حاصل ہے۔بس یہ مسلمان بھائی ہے اس کے سلام کا انتظارنہ کرو بلکہ سلام میں پہل کرو۔حدیث میں ہے کہ‘‘ایسا بندہ تکبر سے بری ہوتاہے جو سلام میں پہل کرے۔’’حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایاہے کہ‘‘ یہودکا سلام انگلیوں سے ہے نصاریٰ کا سلام ہتھیلی سے ہے اور مسلمانوں کا سلام ‘‘السلام علیکم ورحمۃ اللہ’’ہے۔’’یعنی یہود ونصاریٰ کا سلام صرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کا سلام ایک مستقل دعاہے کہ تم پر سلامتی ہو۔اللہ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں ہر مسلمان دوسرے کو دعادے اس سے اس کی خیر خواہی اورمحبت ظاہر ہوگی تعلق بھی مضبوط ہوجائے گا۔ قصہ مشہور ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جن آگیا تو اسے خطرہ لاحق ہوگیاکہ یہ تو کھاجائے گا اس نے آگے بڑھ کر کہا ماموں جان سلام، اس نے کہا بھانجا وعلیکم السلام اورکہاکہ میرا ارادہ تجھے کھانے کا تھا لیکن تو نے ماموں کہاوارسلام کیاتو میرے دل میں رحم آیا میں نے چھوڑ دیااب تو آزادہے جہاں چاہے چلا جا تونے سلام کرکے جان بچائی۔یہی صورت دشمن کی بھی ہے اگر کسی کے ساتھ دشمنی ہے تو آپ کہیں السلام علیکم وہ پسیج جائے گا۔
حضرت طفیل کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمر کی مجلس میں حاضر ہوتااورآپؓ کے ہمراہ بازار جایاکرتا جب ہم دونوں بازار جاتے تو حضرت ابن عمرؓجس کے پاس سے بھی گزرتے تو اس کو سلام کرتے چاہے وہ کوئی کباڑیہ ہوتاچاہے کوئی دکاندار ہوتاچاہے کوئی غریب اورمسکین ہوتا،غرض کوئی بھی ہوتاوہ اس کو سلام کرتے ایک دن میں حاضر خدمت ہواتوآپؓ نے کہاچلو بازارچلیں میں کہاکہ حضرت بازار جاکے کیاکیجئے گا؟ آپؓ نہ تو کسی سودے کی خریداری کے لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ کسی مال کے بارے میں معلومات کرتے ہیں نہ مول بھاؤ کرتے ہیں نہ بازار کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں آئیے یہیں بیٹھ کر بات چیت کریں تو انہوں نے فرمایا‘‘ اے بڑے پیٹ والے ہم تو صرف سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں کہ ہمیں جو ملے ہم اس کو سلام کریں۔’’نبی کریمﷺنے صحابہ کرامؓ کو سلام کے بارے میں فرمایاکہ تم لوگ جنت میں داخل نہیں ہوسکتے ہو یہاں تک کہ تم آپس میں محبت نہ کرواورمحبت نہیں کرسکتے ہویہاں تک کہ تم لوگ سلام کرناشروع نہ کرو تو آپس میں سلام کیاکروتاکہ محبت زیادہ ہوجائے اورجنت میں داخل ہوجائے۔ایک حدیث میں مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ ‘‘مسلمان کے مسلمان پر حقوق میں یہ بھی ہے کہ جب مل جائے توسلام کرے۔’’
ابی شریح نے نبی کریمﷺ سے سوال کیاکہ مجھے ایک ایسا عمل بتائیں کہ وہ میرے لیے جنت واجب کرے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا‘‘اچھی باتیں کرو سلام پھیلاؤلوگوں کو کھلاؤ ’’اورایک جگہ فرمایاکہ‘‘جنت واجب کرانے والے اعمال میں سے سلام کرناہے۔’’ اورفرمایاکہ ‘‘سلام کرتے رہو تاکہ تم عالی شان ہوجاؤ۔’’اورفرمایاکہ‘‘ تمام لوگوں مین بہتر اور اولیٰ انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔’’ اوریہ ہی نبی کریمﷺ کا طریقہ تھاکہ جب بھی کسی مجلس کے پاس سے گزرتے تو سلام کرتے یہاں تک کہ بچوں پربھی سلام کرتے ۔حضرت ابوہریرہؓ نے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے کہاکہ‘‘حضورﷺ جب میں آپﷺ کو دیکھتاہوں تو میرا جی خوش ہوجاتاہے اورمیری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں آپﷺ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کریں’’۔آپﷺ نے فرمایاکہ‘‘ اے ابوہریرہؓ تمام چیزیں پانی سے پیداکی گئی ہیں’’۔ پھرمیں نے کہاکہ‘‘یارسول اللہﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں’’۔آپﷺ نے فرمایاکہ‘‘لوگوں کو سلام کیاکرو۔(۲)بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔(۳)صلہ رحمی کرو۔(۴)اوررات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں توتم تہجد کی نمازپڑھاکروتاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔’’
یہ توسلام کے فضائل اور فائدے ہیں جوکہ بہت سارے اوربھی ہیں لیکن ہر وہ شے جو قیمتی ہواس کی حفاظت کرنالازمی ہوتاہے اس لیے سلام کی بھی حفاظت ضروری ہے تاکہ لوگ وہ ہم سے خراب اور ضائع نہ کریں جیساکہ آج کل ہم لوگ یاتو یہود اور نصاریٰ کی طرح ہاتھ سے، انگلی سے اشارہ کرتے ہیں لیکن منہ سے کوئی الفاظ نہیں کہتے اوریہ سلام نبوی نہیں بلکہ سلام نبوی ‘‘السلام علیکم’’کانام ہے۔ دوسرا نقصان جو ہم نے پیداکیاہے ایک بندہ جب دوسرے بھائی کے ساتھ مل جاتاہے تووہ کہتاہے ‘‘السلام علیکم’’ تو دونوں ذمہ دار رہ گئے کیونکہ فقہاء فرماتے ہیں سلام کرناسنت ہے اس کی دس نیکیاں ہیں جبکہ جواب دینا واجب ہے اس کی تیس نیکیاں ہیں لہٰذا دونوں پر واجب باقی رہ گئے۔ ایک اورنقصان ہم نے اپنے سلام میں یہ داخل کیاہے کہ الفاظ صحیح نہیں کہتے۔ السلام علیکم کا ترجمہ تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو۔اس کے مقابلے میں اورالفاظ کی معانی۔(سام علیکم)تم بربادہو۔(اسامہ علیکم)تم کو موت آئے۔(سلالیکم)تم پر لعنت ہو۔(اساعکم)تم خوشی کو ترسو۔ تو سلام بھی کیااوربدعا بھی دی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ سلام پورے اور صحیح الفاظ کے ساتھ کریں اور اس میں شرم نہ کریں بلکہ یہ اپنی سعادت اورنیک بختی خیال کریں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے بہرانہیں بنایا،اور سلام کرنے کی توفیق دی۔ایک حدیث میں ہے کہ ‘‘سلام کو حقیر نہ دیکھوبلکہ یہ اللہ نے اپنا نام زمین والوں کودیاہے،اس کو پھیلاؤ آپس میں خیر حاصل کرو اورادب یہ ہے کہ سلام کا چھوٹے بڑے پر، سوارنیچےپیدل چلنے والے پر، کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے پر اور کم زیادہ جماعت پر سلام کریں۔پس ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ اپنی زبان پر‘‘السلام علیکم’’ کے الفاظ کہیں اور اپنے لیے اور اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعاکریں۔اللہ ہماری زبان کو اپنی رضاکے الفاظ اورباتوں میں استعمال کرے۔(آمین)