تحریک آزادی میں علماء ہزارہ کاکردار (قسط نمبر4) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

شیخ الہندمولانامحمود حسنؒ نے برطانوی حکومت کے خلاف ”تحریک ریشمی رومال“کے نام سے جس خفیہ جنگ کا آغازکیا تھا،مولانامحمداسحق مانسہرویؒ اس کے اہم رکن تھے،جن راستوں سے ترکی فوج کی معیت میں انگریزی فوج پر حملہ کرنامقصودتھا،ان میں ایک راستہ اوگی (وادیئ اگرور)کاتھااس محاذکی نگرانی آپ کے ذمہ تھی،ہزارہ میں اس تحریک کا صدرمقام اوگی(اگرور)تھا،تمام قبائل اس کی پشت پرتھے،لیکن افسوس یہ رازفاش ہوگیا اور حضرت شیخ الہندکومکہ مکرمہ سے گرفتار کرکے مالٹامیں نظر بند کردیا گیا جب مرکزی رہنما گرفتار ہوگئے تو آپ نے ازخود جہاد کا حکم دے دیا اور ایک رجمنٹ کا صفایا کردیا،جس پر آپ کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاگیا 1916تا 1919تک قید رہے،رہاہوئے تو انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد اور تیزکردی۔ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون ]ترک موالات[میں اس اندازسے حصہ لیا کہ ہزارہ میں تحریک خلافت کے”روحِ رواں“بن گئے،آپ شعلہ بیان مقررتھے،آپ کا اندازِ بیان بہت پراثر ہوتاتھا،آپ کی پُر اثر تقریر جس میں استدلال کی پختگی،زبان کی لطافت،الفاظ کی شوکت،اندازِ بیاں کی پاکیزگی کے ساتھ آپ کی ذاتی وجاہت اور اثر ورسوخ بھی شامل تھا،لوگوں کے دل ودماغ اور عقل وجذبات کو یوں مسخرکیا کہ وہ جوق درجوق آپ کے ساتھ شامل ہونے لگے،مانسہرہ شہر توانگریزی حکومت سے بغاوت پر آمادہ ہوگیا۔تحریک کی حمایت میں لوگ جوق درجوق جلسوں میں شریک ہوتے اور اس کو اپنامذہبی فریضہ خیال کرتے،ان جلسوں میں سرفہرست مطالبہ خلافت عثمانیہ کی بحالی کا ہوتا۔آپ کے اس اعلان پر کہ ”انگریزی حکومت میں نوکری کرنا اور ان کی تائیدو حمایت کرنا مسلمانوں پر قطعاًحرام ہے اور اسے امدادی چندہ دینا خلاف شریعت ہے“تقریباًایک سوچالیس (140)نمبردار اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے،اسی طرح دیگر محکمہ جات کے ملازمین نے بھی یکے بعد دیگرے اپنے استعفے پیش کئے ۔یکم اگست 1920ء سارے ہندوستان میں ہمہ گیر ہڑتال ہوئی،11/اگست 1920ء کو اہلیان پکھل کی دعوت پر ڈھوڈیال (مانسہرہ) تشریف لے گئے جہاں ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کیا اور جہادکے لئے چندہ کی اپیل کی تو لوگوں نے والہانہ اندازمیں جہاد فنڈکے لئے چندہ جمع کیا،جوجس کے بس میں تھا دیا حتی کہ مستورات نے اپنے زیور بھی اُتار کردئیے،12اگست کو بفہ میں اور 13/اگست کو خاکی کے مقام پر تاریخی جلسہ ہوا،الغرض آپ کی شبانہ روز کوششوں سے ہزارہ میں تحریک خلافت کا طوفان برپا ہوگیا،ریاست تناول اور پھلڑہ اور علاقہ پکھل میں تویہ تحریک عروج پرتھی،لوگوں نے آپ پر زور دیا کہ آپ انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیں،پورے ہزارہ میں اعلان ہوگئے کہ آئندہ جمعہ مولاناجہاد کا اعلان کریں گے جبکہ مولانااس اعلان سے بے خبرتھے،27اگست 1920ء بروزجمعہ آپ جمعہ کی تیاری کررہے تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ شر پسندوں نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ آج مولانانماز جمعہ کے بعد انگریزوں کے خلاف جہادکا اعلان کریں گے،آپ بہت متعجب ہوئے اور مسجد سے نکل کر کھلے میدان میں چلے گئے،ڈب کے مقام پر لاکھوں افراد جمع ہوگئے،انگریزوں نے اپنی پوری قوت مانسہرہ میں جمع کررکھی تھی،سرکار کے حکم سے گورکھافوج نے چاروں طرف سے مشین گنیں نصب کردیں،آپ نے گھوڑے پر سوار ہوکر نمازجمعہ کا خطبہ دیا،نماز کی ادائیگی کے بعد آپ نے ایسی موثر تقریرفرمائی جس میں لوگوں کا جوش ٹھنڈاہوگیا،آپ نے اعلان فرمایا:”میرے بھائیو!ابھی تمہارے لئے جہاد بالسیف کا وقت نہیں آیا،یہ سب افواہیں بے ایمانوں کی پھیلائی ہوئی ہیں،میری جانب سے تمہیں ہرگزفساد کی اجازت نہیں،اگر تم مجھے عزیز سمجھتے ہو اور خلافت مقدسہ کے ساتھ خلوص دل سے محبت رکھتے ہو تو بلا شور وفساد واپس چلے جاؤ“۔اس کے بعد مولانانے فرمایا:”تم میرا حکم ماننے کے لئے تیار ہو؟آوازیں آئیں ”بالکل تیار ہیں“۔آپ نے فرمایا:”میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ تم کسی شور وغل اور بدنظمی کے بغیر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ“۔چنانچہ آپ نے سرکردہ افراد کے ذریعہ اس عظیم اجتماع کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دورلے جاکر منتشرکردیا۔قوم تنولی کے افراد شہر کے باہر ایک پہاڑ کے دامن میں مورچہ زن ہوگئے،مخبروں نے انگریزوں کوخبردی کہ قوم تنولی کے افراد شہر کے باہر ایک پہاڑی کے دامن میں چھپ کربیٹھ گئے ہیں اور رات کی تاریکی میں شب خون مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں،دوسری طرف انہی شرپسندوں نے یہ طے کیاکہ رات کو ہوائی فائرنگ کردی جائے۔اس سے دوفائدے ہوں گے۔ایک توہم انگریز آقاکے سامنے سرخروہوجائیں گے کہ ہماری اطلاع غلط نہ تھی اور دوسرے مولاناگرفتار کرلئے جائیں گے۔ہم پر انگریزوں کی نوازشات ہوں گی اور ہمیں انعام واکرام سے نوازاجائے گا۔چنانچہ ان شرپسندوں نے رات کی تاریکی میں فائرنگ شروع کردی۔انگریزوں نے اس خیال سے کہ مجاہدین نے ان پر حملہ کردیا ہے مشین گنوں سے فائر کھول دئے،سارے شہرمیں خوف وہراس اور افراتفری پھیل گئی،صبح ہوتے ہی فوج آپ کی گرفتاری کے لئے حرکت میں آگئی اور 28/اگست 1920ء کو گھرسے ناشتہ کرتے ہوئے آپ کو گرفتار کرلیا اور مانسہرہ شہرمیں کرفیونافذ کردیاگیا پہلے راولپنڈی پھر مختلف جیلوں سے ہوتے ہوئے نینی تال جیل بھجوادیا،جہاں آپ نے تین سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل کے اندر مولانا محمد اسحق مانسہروی کے ساتھ انگریز حکام نے جو وحشت ناک واذیت ناک سلوک کیا اس کے تصور سے ہی بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، مولانا کو منہ کے بل اوندھالٹا کر آپ کے جسم پر انگریز پولیس آفسر اور فوجی جوان بوٹوں سمیت کھڑے ہوگئے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو اس قدر بے دری سے پیٹا اور زدو کوب کیا کہ آپ اس دوران کئی دفعہ بے ہوش ہوگئے مولانا محمد اسحق مانسہروی خود فرمایا کرتے تھے کہ تحریک خلافت میں گرفتاری کے بعد پولیس اور فوج نے میرے ساتھ جونارواسلوک کیا مجھے جب کبھی اس کا تصور آتا ہے تو میں آج بھی کانپ جاتا ہوں۔مولانا نے ان تمام سختیوں کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ آپ کئی سال تک صوبہ سرحد (خیبرپختون خواہ) اور پنجاب کی جیلوں میں بھی محبوس رکھا گیا اور جیل کے اندر انتہائی و حشناک قسم کی مشتقیں دی گئیں ایک دفعہ مولانا نے فرمایا کہ میں جیل میں کولہو، چکی، خراس وغیرہ پیستار اور چلاتا رہا ہوں اس کے علاوہ مہینوں قید تنہائی میں دن گزارے لیکن ان سختیوں اور اذیتوں نے جہاں مجھے جسمانی طور پر کمزور کردیا وہاں قلبی طور پر میں انگریزوں کا جانی دشمن بن گیا انگریز کو اس ملک سے نکالنے کے سلسلے میں میرے ارادے اور عزائم اور زیادہ پختہ ہوگئے۔تحریک خلاف میں قید کانٹے کے بعد آپ رہا ہوئے تو انگریز گورنمنٹ نے آپ کو مانسہرہ نہیں جانے دیابلکہ ہزارہ بھر میں آپ کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس دوران آپ کا قیام ڈھیری شاہاں ٹیکسلا کے مشرقی جانب ایک مسجد میں جناب مولوی عبدالرحمن صاحب کے ہاں رہا تین چار سال آپ نے وہاں گزارے مانسہرہ سے آپ کے عقیدت مند اسی مسجد میں آپ کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرنے جاتے تھے۔ مانسہرہ میں پابندی لگ جانے کے بعد مولانا محمد اسحق مانسہروی نے راولپنڈی کو اپنی سیاسی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔ راولپنڈی میں آپ نے سب سے پہلے مرکزی جامع مسجد حنیفہ میں امامت کے فرائض سنبھالے لیکن اس مسجد کی مجلس منتظمہ پر انگریزوں کے جی حضور یوں اور کاسیہ لیسوں کا قبضہ تھا چنانچہ انگریز نے آپ کی تقاریر اور خطبات پر پابندی لگانا چاہی اور مسجد کی مجلس منتظمہ کے ارکان نے بھی آپ پر زور دیا کہ آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جائیں لیکن مولانا نے ان پابندیوں کو برداشت نہ کیااور مسجد کی خطابت وامامت سے الگ ہوگئے۔ انگریز کی حاشیہ برداروں سے الگ ہو کر آپ نے 1922میں محلہ امام باڑہ میں انگور مسجد کی بنیاد رکھی اور یہاں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مسلسل چالیس برس تک مسجد انگور میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا آپ نے اپنے درس و تدریس کا ذریعہ کئی مجا ہد نواجون پیدا کئے جنہوں نے راولپنڈی کی سیاسی ماحول میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے زندگی کے چالیس سال اسی انگور مسجد کے ایک حجرے میں بسر کئے اور چالیس برس کے عرصہ میں آپ مختلف تحریکات کے سلسلہ میں کئی دفعہ گرفتار ہو کر قید ہوئے رہائی کے بعد پھر اسی مسجد جاگزیں ہو جاتے راولپنڈی میں مسجد انگور چالیس سال تک سیاسی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ 8 دسمبر 1962ء کو نما ز فجر کے بعد وظیفہ کرتے ہوئے انتقال ہوا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.