’’ایثار و ہمدردی‘‘ تقریباًـ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔’’ ایثار‘‘ عربی زبان کا مصدر ہے، جس کامعنیٰ ہے ترجیح دینا۔ ہمدرری اردو زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے’’ خیر خواہی‘‘۔ یہ دونوں بہترین صفات ہیں۔ شاید ہی کوئی انسان ہوجو چاہتا ہو کہ اسے مومن کہا جائے ،مگر وہ ان صفات سے متصف نہ ہو۔ یہ دونوں اچھائیاں کسی بھی مسلمان بلکہ انسان کا خاصہ ہونی چاہییں۔ ہماری زندگی مختصر ہے، بہت ہی مختصر۔ اس زندگی میں اگر ہم ہر مقام پر دوسروں کو ترجیح دیں، ایثار و قربانی سے کام لیں ،اپنے اوپر دوسروں کو فوقیت دیں، تو یہ جہاں ہمارے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔ وہیں ایک مثالی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بھی انتہائی مؤثر اور مددگار ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایثار اور ہمدردی کی جو مثالیں آپ ﷺنے قائم فرمائیں،ان کی نظیر ملنا بھی مشکل ہے۔ چناںچہ آپ ﷺکے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی آپ ﷺ کی مجلس میں کوئی پھل، دودوھ یا کوئی کھانے کی چیز پیش کی جاتی توآپﷺ مجلس میں موجود صحابۂ کرامؓ کو دیتے اور آخر میں خود تناول فرماتے۔یہی وہ خوبصورت تعلیمات ہیں، جنہیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب اپنایا۔ چناںچہ جب غزوۂ اُحد کا موقع آتا ہے اور مسلمانوں پر عارضی طور پر حالات تنگ ہوجاتے ہیں، تو ہر صحابی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں آپ ﷺکے لئے بطور دیوار کام کروں۔ ہر ایک عاشق رسولﷺ آپ کی خاطر جان دینے کو تیار نظرآتا ۔دیگر مواقع پر بھی صحابۂ کرامؓایثار و ہمدردی کے پیکر نظر آتے ۔ آج ہم گویا ان مثالی تعلیمات کو یکسر بھلا چکے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
وہ تھے اسلاف تمہارے، تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے، منتظر فردا ہو
ایک اور موقع پر جب شدیدجنگ کا معرکہ برپا تھا، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہورہے تھے تو بیک وقت کئی زخمی صحابہؓ پانی طلب کرنے لگے۔ اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پانی پلانے والا جب پہلے کے پاس گیا تو اس نے دوسرے صحابیؓ کی طرف اشارہ کیا کہ وہ زیادہ ا س پانی کے حقد ار ہیں،دوسرے نے تیسرے کی طرف جبکہ تیسرے نے پہلے کی طرف پانی لے جانے کا کہا۔ایثار و ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ جب پانی پلانے والا پہلے کی طرف لوٹا تو وہ شہید ہو چکے تھے۔ دوسرے کی طرف لوٹا تو وہ بھی جام شہادت نوش کر جاچکے تھے۔ تیسرے کے پاس آئے تو وہ بھی اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرچکے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا ایثار تھا صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا !!!
آج ہماری حالت کیا ہے ! بازا سے لے کر مسجد جیسی مقدس جگہ تک، گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے بس اسٹاپ پر سے،دکان پر کھڑے اشیائے خورونوش خریدنے تک، تندور کے سامنے لگی قطار سے ٹریفک کے رش تک، ہر جگہ ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے،یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ ایثار و ہمدردی تو دور کی بات ہے ، ہم تو ایسے مواقع پر گالم گلوچ کو بھی عار نہیں سمجھتے۔ برا بھلا تو ثانوی شئے ہے ،ہم تو لڑائی کو تیار ہوجاتے ہیں۔جی ہاں،یہ ہماری وہ غلطیاں ہیں جن کے سبب ہم اخلاقی پستی کا شکار ہورہے ہیں۔
مصائب و مشکلات کے اس دور میں،ایثار و ہمدردی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دور حاضر میں ہر ایک جلد باز ہے اور ہر ایک بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ اس صورت میں آپ ایثار و ہمدودی کا رویہ اپناتے ہوئے دوسروں کو ترجیح دیں گے، تو معاملات بہت ہی آسان ہوجائیں گے۔ ان بے صبری کے اوقات میں، پیار و محبت کا رویہ اپنائیں گے، تو ہر ایک کے گرویدہ ہوجائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ چناںچہ معاشرے کا ہر فرد اس صفت کو بآسانی اپنا سکتا ہے۔اس طرح ایثار و ہمدردی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ایک مثالی اورپر امن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔