علم کی اہمیت جس طرح ایک مرد کے لیے ہے اسی طرح ایک عورت کی لیے بھی ہے، ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے میں جتنا کردار ایک ادمی کا ہوتا ہے اتنا ایک عورت کی بھی ہوتی ہے۔
تعلیم نسواں کی اہمیت کا اندازہ ہم خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حدیث سے بھی لگا سکتے ہے کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کی بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اﷲ نے اس کو دیئے ہیں تو وہ بیٹی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔‘‘
جب برصغیر میں قائد اعظم پاکستان بنانے کی تحریک چلا رہے تھے تو انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ ہندوستان کی مسلمان خواتین اس تحریک میں اگر شامل نہ ہوئیں تو شاید آزادی حاصل کرنا اتنا آسان نہ ہو تو قائد نے مادرِ ملت کو کہا کہ وہ مسلم خواتین کو اس تحریک میں شامل کریں مادرے ملت اور ان کی ساتھی خواتین نے صوبہ سرحد سے لیکر راس کماری تک خواتین میں ایسا جذبہ بھر دیا کہ 1947ءمیں پاکستان وجود میں آ گیا ۔
جب پاکستان بن گیا تو قائد اعظم نے خواتین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ”پاکستان بنانے میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے پاکستان میں ان کا برابر کا حق ہے“ ۔ مگر کیا حصول آزادی کے بعد پاکستانی معاشرے میں خواتین کو وہ مقام مل سکا جس کی وہ بجاطور پر مستحق تھیں
(ماہ ناز رفیع کی کالم سے حوالہ)
اس وقت ایکس فاٹا اور خاص کر ضلع باجوڑ میں تعلیم نسواں یعنی عورتوں کی تعلیم کی بہت بڑی کمی ہے اور افسسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمایندگان، سوشل مڈیا ایکٹویسٹ اور ہمارے لوکل مڈیا نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کی ہےلیکن ہمارے غیرت تب جاگتی ہے جب ہمارے کوئی بہن، ماں بیمار ہوجاتی ہے تو پھر ہم ضد کرتے ہے کہ ہم اپنی بہن ماں کا علاج فیمل ڈاکٹر سے کرواتے ہے نہ کہ کوئی میل ڈاکٹر سے تو اس وقت خدارا سوچ لو کہ یہ فیمل ڈاکٹر کہاں سے اتی ہے ۔
میرے معلومات کے مطابق اس وقت ضلع باجوڑ میں “190” پرائمری سکول، “30” مڈل سکول اور “11” ہائی سکول ہے اور اس میں “34144” گرلز طالبات انرول ہے تو اپ خود اندازہ لگائیں کہ “220” سکولوں کا طالبات “11” ہائی سکولوں میں کیسی ایڈجسٹ ہوسکتی ہے “34144” گرلز طالبات سے صرف “1100” طالبات ہائی سکول تک اسکتی ہےاور ان باقی “23044” طالبات مڈل یا پرایمری سکول سے اگے نہیں بڑھ سکتی اور پھر ان “34144” طالبات کے لئے صرف ایک ڈگری کالج ہے اپ خود سوچ لیجئیں کہ کتنی گیپ ہے “190” مڈل سکولیں صرف ایک ڈگری کالج پر اختتام ہوتی ہے تو باقی ہمارے “23044” بہنیں پرایمری سے اگے نہیں جا سکتی ۔
اس سلسلے میں اج میرے اسسٹنٹ ایجوکشن افسر سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے تفصیل سے اگاہ کیا کہ ہم نے ایجوکیشن منسٹر کو صورت حال سے اگاہ کیا ہے لیکن فنڈ نہ ہونے کے وجہ سے اس پر ایجوکیشن منسٹر عمل درامد نہیں کر سکتا۔
جب میں نے ان سے گرلز ڈگری کالج کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے سمجھایا کہ ڈگری کالج ہمارے دائرے اختیار میں نہیں ہے ڈگری کالج کا اختیار ہائرایجوکیشن کمیشن کی زمرے میں اتی ہے۔
میں منتخب نمائندگان سے اپیل لرتا ہوں کہ خدارا دوسرے ترقی یافتہ کاموں کیطرح گرلز ایجوکیشن پر بھی توجہ دیں میرے سوچ کے مطابق گرلز ایجوکیشن انفرسٹریکچر سے زیادہ ضروری ہے۔
اور ساتھ ساتھ میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور مقامی صحافیوں سے التجا کرتا ہوں کہ گرلز ایجوکیشن کے حوالے سے کمپین سوشل مڈیا پرل چلائیں۔
نور مې مه وژنه هم ده سزا مې بس ده
بې تعلیمه دې چې پاتې کړم په کور کښې