ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کا وہ بنیادہ نکتہ ہے جس کے بغیر ایمان قابل قبول ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی زمانہ میں کسی گستاخِ رسول ؐنے سر اُٹھایاہے تو عشاق رسولؐ نے جان ہتھیلیوں پر رکھ کر ختم نبوت کا دفاع کرنا اپنافرض سمجھا ہے،جنگ یمامہ سے کر 1953ء کی تحریک ختم نبوت تک عشاق رسولؐ کی قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہزاروں عشاق رسولﷺ کی بیش بہا قربانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں،برصغیر پاک وہندمیں جب مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کرکے نبی کریم ﷺکی ختم نبوت کو چیلنج کیا تو اس وقت کے رئیس المحدثین دارالعلوم دیوبند کے مسندحدیث کے صدرنشین حضرت مولانامحمدانور شاہ کشمیری ؒنے خود میدان میں آکر ختم نبوت کے دفاع کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی،آپ نے درس وتدریس کے ساتھ اس فتنہ سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لئے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور اپنے شاگردوں کواس فتنہ کی سرکوبی کے لئے میدان میں اُتارا،قادیان میں جاکر نبی کریم ﷺکی ختم نبوت کا اعلان،امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت اور ان کو اس فتنہ کے خلاف میدان میں اُتارنااور مقدمہ بھاولپورمیں شرکت، کئی دنوں تک ختم نبوت کے دفاع اور قادیانیت پر جرح علامہ کشمیریؒ کی ایمانی حرارت کا بین ثبوت ہے،قیام پاکستان کے بعد جب اس گروہ کے سربراہ مرزابشیرالدین محمود قادیانی نے ملک میں اپنی ریشہ دوانیاں قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں قادیانیت کے فروغ کے لئے کھلے عام سرگرمیاں شروع کردیں اور وزارت خاجہ پر قابض ظفراللہ خان قادیانی نے اس کے لئے حکومتی مشینری کو استعمال میں لانا شروع کیا تو اس وقت اس تحریک میں شدت پیداہوگئی اور 1953 میں قادیانیوں کے خلاف زبردست تحریک چلی جس میں لاہور کے مسلمانوں کی قربانیاں پیش پیش تھیں، مال روڈ پر ایک دن میں ساڑھے دس ہزار عشاق رسول ﷺ نے اپنے خون کے فواروں سے ختم نبوت کا دفاع کرکے جنگ یمامہ کی یاد تازہ کردی،اس تحریک کے روح رواں امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اورصدرمجلس عمل مولاناابولحسنات قادریؒ کی قیادت میں نوجوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کرکے قادیانیوں کے بڑھتے قدموں کو روک کر ان کے مذموم عزائم پرپانی پھیردیا،حضرت امیر شریعت ؒ،مولاناابولحسنات قادریؒ،خطیب پاکستان مولاناقاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ،مجاہدملت مولانامحمدعلی جالندہری ؒ،امام الاولیاء مولانااحمدعلی لاہوریؒ،مولانالال حسین اخترؒ،مفکر اسلام مولانامفتی محمودؒ،شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان ؒ،شیخ الحدیث مولانانصیرالدین غورغشتویؒ،مولاناخلیل احمدقادریؒ،حافظ الحدیث مولاناعبداللہ درخواستی،ؒ شیخ المشائخ مولاناخواجہ خان محمد،ؒامام اہل سنت مولاناسرفرازخان صفدرؒاورمولاناتاج محمود فیصل آبادیؒ کے علاوہ سینکڑوں اکابرعلماء کرام ومشائخ عظام کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا،جو کئی عرصہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگر مسلمانوں کے مطالبات پورے نہ ہوئے،حکومت قادیانی خول سے باہر نہ نکلی،دوبارہ ختم نبوت کی تحریک اس وقت چلی جب نشتر میڈیکل کالج کے مسلمان طلباء تفریح کے لئے ٹور پر سوات جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پرگزررہے تھے گزرتے ہوئے انہوں نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا جو قادیانیوں کو بہت برالگا سوات سے واپسی پر جب 29/مئی 1974ء کو طلباء کی گاڑی یہاں پہنچی تو قادیانیوں نے گاڑی کو روک لیا اور باقاعدہ تیاری کے ساتھ لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان مسلمان طلباء کومارا پیٹا جس سے بہت سارے طلباء زخمی ہوگئے جب یہ خبر فیصل آباد پہنچی تو مسلمانوں میں اشتعال پیداہوااور مولاناتاج محمودؒکی قیادت میں قادیونیوں کے خلاف جلسہ جلوس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس طرح یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی چوہدری ظہور الہی نے قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی تحریک پیش کی لیکن 4جون کو قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی سات تحریکیں مستردہونے پراپوزیشن ارکان نے ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے واک آؤٹ کردیا۔پنجاب بھر میں سانحہ ربوہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اکثر شہروں میں ہڑتال ہوئی متعددمقامات پر قادیانیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو نزرآتش کیاگیا پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسوگیس استعمال کی بعض مقامات پر فائرنگ سے کئی افرادزخمی ہوئے اور سینکڑوں مظاہرین گرفتار ہوئے ملتان میں انتظامیہ نے کالج کے تمام ہوسٹل بندکردئے اور طلباء کو فوری طورپر گھروں کو چلے جانے کا حکم دیا۔پورے شہر میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کا گشت شروع ہوااسی اثناء میں ملتان کے دینی مدارس کے طلباء بھی سراپااحتجاج بن گئے اور احتجاج کیا۔پولیس نے مدارس پر چھاپے مارکر درجنوں طلباء اور اساتذہ کو گرفتار کرلیاقائدجمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن ان دنوں دارالعلوم حقانیہ میں طالب علم تھے،چھٹی پر اپنے گھر ملتان گئے گرفتار طلباء اور اساتذہ کو چھڑانے کے لئے پولیس چوکی پر پہنچے جہاں انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا پولیس نے رات کو تھانہ میں رکھا اور پھر جیل بھیج دیا۔ 9/جون 1974ء کو امیرتحریک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضرت مولاناسید محمدیوسف بنوری کی طرف سے ایک اجتماع رکھاگیا جس میں بیس جماعتوں کودعوت دی گئی تھی۔اجلاس میں حضرت بنوریؒکے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانامفتی محمود،ؒ مولاناحکیم عبدالرحیم اشرفؒ،نوابزادہ نصراللہ خان،ؒچوہدری غلام جیلانی،ؒشیخ الحدیث مولانا عبدالحق اؒور آغاشورش کاشمیریؒ نے شرکت کی۔ حضرت بنوری ؒنے اجتماع کے اغراض ومقاصدبیان کئے اور کہا کہ ہمارا یہ اجتماع صرف ایک دینی عقیدہ کی حفاظت کے لئے ہے یہ اجماع ختم نبوت کے مسئلے پر ہے اس کا دائرہ آخرتک محض دین رہے گا ہمارے مدمقابل صرف مرزائی امت ہوگی ہم حکومت کو ہدف نہیں بناناچاہتے اگر حکومت نے ان کی حفاظت کی یا ان کی حمایت میں کوئی غلط قدم اٹھایا تو وقت مجلس عمل کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔ اس طرح یہ تحریک پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہنچ گئی اور کئی دن کے بحث مباحثہ کے بعد متفقہ طورپر پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردے کر مسلمانوں میں پھیلے ہوئے نوے سالہ خلفشار اورانتشار کو ختم کردیا،قادیانیوں کی طر ف اسلامی شعائر کے استعمال پر 1984ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے پانندی لگادی ئی جس پر یہ فرقہ بھاگ کر برطانیہ چلایاگیا اور وہاں سے اسلام اور پاکستان کے خلاف اپنے سازشوں میں مصروف رہا،موجودہ حکومت کے آتے ہی قادیانیوں کو ایک بار پھر اپنے پرزے نکالنے کا موقع ملا،جس سے سارے لوگ آگاہ ہیں،گزشتہ دنوں پشاور میں ایک قادیانی کو جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا برسرعدالت فیصل خالد نامی نوجوان کے ہاتھوں دنیا سے چلتا کردیا گیا،اس قسم کے کئی دیگر واقعات بھی رونما ہوئے،جس سے ہرشخص واقف اور دل گرفتہ ہے،رسالت مآب ﷺکی شان اقدس میں ہرزہ سرائیوں کے ساتھ اس سال محرم کے دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں بعض بدبختوں کی طرف سے حکومت کی ناک کے نیچے اور قانون نافذکرنے والے اداروں سامنے افضل البشربعدالانبیاء حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت ابوسفیانؓ،حضرت امیر معاویہؓ،امہات المومنین ؓاور بنات رسول ﷺکی شان گستاخیوں سے ہرمسلمان کا دل مجروح ہے،ان دگرگوں حالات میں جمعیت علماء اسلام نے7 ستمبر 2020 ء کو پشاور میں ختم نبوت کا نفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے،جس میں قائدجمعیت مولانافضل الرحمن سمیت دیگر مذہبی وسیاسی قائدین خطاب کریں گے،تاکہ امت مسلمہ کو ایک اجتماعی فکر دے کر نوجوانوں کو درست سمت پرڈالاجاسکے اور اس قسم کی دل آزاری سے امت مسلمہ کو بچایاجاسکے،اس کانفرنس کو بھرپور طریقہ سے منعقد کرنے کے لئے صوبائی جماعت نے پورے صوبہ کا دورہ کیا ہے چند دن قبل جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولاناعطاء الرحمن،جنرل سیکرٹری مولاناعطاء الحق درویش اور سیکرٹری اطلاعات حاجی جلیل جان نے مانسہرہ کا دورہ کیا اور چھتر پلین کے مقام پر ہزارہ ڈویژن کی مجالس عاملہ کو بریفنگ دیتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کی دی،اسی سلسلہ میں آج 2ستمبر کو مانسہرہ کے مرکزی جامع مسجد میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری خطیب اسلام مولانامحمدامجد خان صاحب،اسیر ختم نبوت مفتی کفایت اللہ صاحب کے علاوہ ضلعی قائدین خطاب کرتے ہوئے پشاور ختم نبوت کانفرنس کے لئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے،جبکہ اس کانفرنس سے قبل صبح دس بجے اسی مرکزی جامع مسجد میں جے یوآئی ضلع مانسہرہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس بھی ہورہاہے جس میں کانفرنس کی تیاریوں کاجائزہ لیتے ہوئے پورے ضلع سے اس عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کے لئے طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔