پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہوگئے اور اس دوران مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سستی اشیاء کی فراہمی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور حکومت کے 2 سال کے دوران مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ کے ارکان نے پی ٹی آئی حکومت کی قومی‘ خارجہ‘ دفاعی‘ مالی‘ اقتصادی اور عوامی بہبود کی پالیسیوں کو مثالی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن اور دوسرے حکومتی مخالفین کو باور کرایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کریز پر لمبی اننگ کھیلنے کیلئے تیار ہیں اور کسی کو این آر او نہیں دینگے۔ بے شک عمران خان کا اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی تشکیل کی صورت میں نئے پاکستان کا خواب انکی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ انہوں نے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے سابق حکمرانوں کے گھمبیر بنائے گئے مسائل کے حل‘ توانائی کے بحران اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے ملک کو نجات دلانے اور اسکے ساتھ ساتھ معاشرے کو کرپشن کے ناسور سے پاک کرنے کا جس عزم و یقین کے ساتھ قوم کے سامنے ایجنڈا پیش کیا تھا اسکی بنیاد پر قوم کی انکے ساتھ بہت زیادہ توقعات وابستہ ہو گئیں تھیں۔ جبکہ اقتدار سنبھالتے ہی وزیراعظم نے اپنے منشور کے مطابق سب سے پہلے کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی‘ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس سمیت حکومتی اخراجات کم کرنے کا اعلان کیا اور عوام کے روزگار کیلئے مختلف منصوبوں کا خاکہ پیش کیا۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آنے تک ملک کی دگرگوں اقتصادی اور مالی صورتحال کا یقیناً ادراک نہیں تھا جبکہ قومی معیشت کی ان خرابیوں کے ہوتے ہوئے حکومت کیلئے عوام کی فلاح کے اقدامات اٹھانا مشکل امر تھا چنانچہ حکومت کو سب سے پہلے قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سخت مالیاتی پالیسیاں وضع کرنا پڑیں جس کے تحت ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی بے وقعت ہونے لگی اور حکومت کو دوضمنی میزانیے پیش کرکے مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگانا پڑے۔ اسی طرح بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ بھی حکومت کی مجبوری بن گیا نتیجتاً عوام غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے نجات پاتے پاتے ان مسائل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔حکومت کو بے شک اپنے دوست ممالک سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارات سے 12‘ ارب ڈالر کے قریب مجموعی بیل آؤٹ پیکج بھی مل گئے‘ اسکے باوجود قومی معیشت کو سنبھالا نہ دیا جا سکا اور حکومت اپنے منشور اور ایجنڈے کے برعکس بیل آؤٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر بھی مجبور ہو گئی جس کے چھ ارب ڈالر کے قسط وار قرضے کے عوض اسکی ناروا شرائط قبول کرنا بھی حکومت کی مجبوری بن گیا۔ وزیراعظم تو عوامی مسائل کے حوالے سے یقیناً مضطرب تھے اور اصلاح احوال کے اقدامات بھی اٹھاتے رہے تاہم قومی معیشت پر چھائے مافیاز نے انکی ایک نہ چلنے دی۔ پہلے گندم اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اسکے نرخ بڑھائے اور پھر چینی کی قلت کا بحران پیدا کردیا۔ وزیراعظم نے اس پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کی انکوائری رپورٹ میں چینی سکینڈل میں بعض حکومتی ذمہ دار عہدیداران کے نام بھی سامنے آگئے جنہوں نے چینی کی درآمد کیلئے حکومت سے سبسڈی بھی لی اور چینی کے نرخ بھی بڑھائے جو وزیراعظم کے احکام کے باوجود اب تک نیچے نہیں آسکے۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے پر مافیاز نے پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کر دی اور حکومت کو نرخوں میں کمی کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے دو سال کے دوران عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے مسلسل جھٹکے لگتے رہے ہیں۔ قومی معیشت کی خرابی کی رہی سہی کسر کرونا کی وبا نے نکال دی جس سے بے روزگاری کا تناسب مزید بڑھ گیا۔دو سالہ دور حکومت میں وزیر اعظم نے طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی جانب اہم قدم اٹھاتے ہوئے یکساں نصاب کی تیاری کی جانب قابلِ ذکر پیشرفت کے ذریعے دینی مدارس کے طلبہ پر سائنس و عصری علوم کے دروازے کھول دیے۔۔ عوام کو اُمیدیں تھیں کہ آپ اقتدار میں آکر وطن عزیز کو جو ماضی کے حکمرانوں نے ملک و قوم کو جو کرپشن اور لوٹ مار کے جو زخم دیے تھے انکو بھریں گے ۔ کیونکہ عوام چاہتی تھی کہ ملک میں مثبت تبدیلی آئے اور حکومت ایسا تعلیمی جامعہ نظام وضع کرے گی جو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جیسا کہ آپ اقتدار میں آنے سے قبل بار بار اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دو سال مکمل ہو چکے ہیں عوام ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر چلے آرہے ہیں کہ آپ کا نظام ِتعلیمی پالیسی کیا ہے؟ اُن لائن تعلیمی نظام کے نام پر فیسوں کی بھر مار اور اسا تذہ تنخواؤں سے محروم چلے آرہے ہیں جسکی وجہ سے تعلیمی نظام سست روی کا شکار چلا آرہا ہے جسکی بنا پر والدین اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے ذہنی جسمانی اور بھاری فیسوں اور معیاری تعلیم کے نہ ہونے کے با عث ذہنی ٹنشن سے دو چار ہو رہے ہیں حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل پر عمل درآمد کر تے ہو ئے سرکا ری اسکولوں کو اس قابل بنا دیں کہ عوامی نجی سکولوں کی فیسوں سے والدین پر بوجھ کم ہو جائے جبکہ سرکا ری اسکولوں کی حالت زار ایسی ہے مزدور پیشہ اور کم آمدنی والے پرائیوٹ اور سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانے سے گریزیں چلے آرہے ہیں معیاری تعلیم نہ ہو نے کے باعث غیر معیاری اور فیسوں میں کمی ہونے اور مجبوری کی بنا پر تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں جبکہ عوام نے آپکوریاست مدینہ کی طرز حکمرانی کے نام پر ووٹ دیا اور بلندو با نگ دعوے کیے اور سنہری خواب دکھائے کیا ریاست مدینہ میں نظام زندگی لوٹ مار اور سودی نظام رائج تھا جبکہ آپنے عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کر کے مظلوم عوام کے جذبات سے کھیل کھیلا ہے اور ملک وقوم کو معاشی بدحالی میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ آپ نے ناجائز تجاوزات کے نام پر لوگوں کو چھت دینے کی بجائے انہیں کچھ بھی نہیں دیا چھت چھین لی اور غریب عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے بے روزگار کردیا۔ہے محترم وزیراعظم صاحب آپ سے التماس ہے کہ غریب عوام کے جائز مسائل حل کر کے روز گار دیکر معیاری اور سستی تعلیم فراہم کر کے اور صحت عامہ کی سہو لیات اور بنیادی حقوق اور مہنگائی پر کنٹرول کرتے ہوئے عوام پر احسان ِعظیم کریں۔آپکے دورے حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک بحران، آئے روز آزادی صحافت پر قدغن اغوا دہشت گردی اور قید و بند جیسے واقعات آخر بتایا جائے کہ عوام جائیں تو جا ئیں کہاں۔