محرم الحرام کا مہینہ مقدس مہینہ ہے اور کائنات کے تخلیق سے اس کی عظمت چلی آرہی ہے۔ اس مقدس ماہ میں گزشتہ روزچند شرپسند عناصر نے اسلام آباد، کراچی اور دوسرے شہر وں میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں اعلانیہ گستاخی کی ہے۔ اس گستاخی کے پے درپے واقعات اسلامیان پاکستان کی دل آزادی ہی نہیں بلکہ امن وامان اور قومی سلامتی پر خود کش حملوں کے مترداف ہیں۔ قومی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف نوٹس لیں اور گستاخانہ مائنڈ سیٹ کو روکیں ورنہ ایسے واقعات سے مُلک میں انتشار جنم لے گا اور فرقہ واریت کو ہوا ملے گی۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں نے واضح پیغام دیا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہم نے بہت محنت کی ہیں، بہت قربانیاں دیں ہیں، اب مٹھی بھر عناصر کو دوبارہ فرقہ واریت کی آگ میں بھڑکانے کی اجازت نہیں دینگے۔ اس کے ساتھ وفاق المدارس پاکستان کے رہنماؤں نے معتدل اور محب وطن شیعہ رہنماؤں کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ بیرونی، اشاروں پر شر انگیز ی کرنے والے عناصر کو اپنی صفوں سے نکال کر باہر کریں۔
علماء ومشائخ اہل سنت نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو نکیل نہ ڈالی گئی تو ملک میں انتشار پیدا ہوگا۔ بار بار صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کرنے والے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو انتشار کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ صحابہ کرام ہمارے ایمان کاحصہ ہیں۔ ان کی توہین پر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے دل اور جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اگر اسلام آباد میں گستاخی کرنے والے کو فی الفور گرفتار کیا جاتا تو کراچی کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ مقررین نے وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں صحابہ کرام ؓ کے خلاف ہونے والی گستاخیوں پر فوراً ایکشن لیتے ہوئے تمام گستاخوں کو فی الفور گرفتار کریں۔
جمعیت علماء اسلام کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے بعد کراچی میں صحابہ کرام ؓ کی توہین کے واقعات فرقہ واریت کی آگ بھڑ کانے کی سازش ہے۔ مسلمان صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت کی ناک کے نیچے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خلاف بد زبانی کی گئی اور اس کے بعد کراچی میں حضرت امیر معاویہ ؓ اور ابو سفیان ؓ کی شان میں توہین کی گئی جو اُمت مسلمہ کے جذبات مجروح کرنے کا باعث بنی۔ اتنے اشتعال کے باوجود اہل سنت نے صبر اور امن کا دامن تھامے رکھا۔ ایسی منفی اور زہر آلودہ گفتگو کا نوٹس لینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹویٹر پر پیغام جاری کیا ہے۔ کہ ”یوم عاشورکے موقع پر ملک میں امن واحترام ملحوظ خاطر رکھنے پر میں اپنی پوری قوم کا مشکور ہوں۔تاہم بدقسمتی سے اس دوران ایسے فتنہ گرعناصر کی شرانگیزیاں میرے علم میں لائی گئیں جنہوں نے اس موقع پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ شرپسندوں کے اس گروہ سے اب میں نہایت سختی سے نمٹوں گا۔“
بہر حال علماء کرام کی ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے کہ امن وسلامتی کی فضاء بر قرار رہے اور ایسے شرپسند عناصر کو بدامنی پھیلانے سے روکا جائے مگر افسوس ایکشن لینے کی باتیں تو بہت ہوتی ہے مگر بعض بااثر یا باہر سے سازشی عناصر کے اشاروں پر چلنے والوں کے خلاف مناسب کا زوائی ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی قانون سازی عمل میں لائی جاتی ہے جس سے ایسے شرپسندوں اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکے۔
حکومت سے ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ مقدس ہستیوں کے شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف آئین میں ایسی قانون سازی کی جائے جس سے ایسے واقعات کا سد باب ہوسکے۔
مفکر اسلام مولانا زاہد الرشدی صاحب نے ٹویٹر پیغام میں فرمایا ہے کہ ”یہ بات بہر حال متعلقہ لوگوں اور ریاستی اداروں کو سمجھنا ہوگی کہ حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی ایک بزرگ کی توہین وتحقیر بھی کسی سُنی کے لیے قابل برداشت نہیں ہے اور ایسی کوئی بات سر عام ہوتو فساد کا باعث بنتی ہے، امن وامان کے لئے اسے کنٹرول کرنا ہی ہوگا۔“
گستاخانہ مائنڈ سیٹ کو روکیں. ( مولانا مجاہد خان ترنگزئی)
You might also like