وہ بڑے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہنے لگی….
کیا آپ جانتے ہیں، لوگ شراب، چرس، نسوار، سگریٹ اور اس طرح کی دوسری منشیات کے زیادہ عادی نہیں ہوتے۔زیادہ عادی وہ پتا ہے ….کس بات کے ہوتے ہیں؟، اس نے نظریں اُٹھا کر میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
جی ….جی ! آپ ہی کہئے!!!!، میں نے ان نگاہوں کی تپش سے گھبرا کر بولا۔
لوگ زیادہ نشے سے کچھ زیادہ حد تک حقیقت سے فرار ہونے کے عادی ہوتے ہیں…… اس نے اپنی ہی بات کا جواب دیا اور استغراق کے سے عالم میں دُور اُفق پر نظریں جمائے بت بنی رہی۔ ۔
میں نے اس کے معصوم چہرے پر اس کی زلفوں کو اٹھکیلیاں کرتے دیکھا۔ ۔۔ مجھے اس کی سوچ کو سطحی ہی رہنے دینا چاہئے تھا۔
چند اِک دنوں کی رفاقت نے ہی اسے جانے موجودہ جہاں سے اُٹھا کر فکر انگیز جہاں میں لا پھینکا تھا۔ میں نے اس پر ظلم کیا تھا، مجھے اسے وہ کتب پڑھنے ہی نہیں دینی چاہئے تھیں۔
اسے ان تجربات کا حصہ نہیں بننے دینا تھا، جو اس کی معصومیت کو خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے گہنا دے۔
لیکن شاید یہ میری بے وقوفی تھی کہ میں چاہتا تھا کہ وہ اک مکمل مضبوط، خوددار و خود مختار اور ذمہ دار لڑکی بنے، جو کسی سے نہ ڈرے، کسی کے رعب و دبدبے میں نہ آئے، اپنے حقوق و فرائض اور اپنے مقام و منصب سے واقف ہو، میں اسے اپنی دور اندیشی مانتا ہوں۔ ۔۔ لیکن…..
آپ نے غور کیا؟؟ انسان کس قدر عقل کا اندھا ہے نا…..
اس کی آواز نے پھر میرے تخیل کے دھارے کو تحلیل کر دیا اور میں پھر سے اس کی آواز پر متوجہ ہوا۔
آپ اس موضوع پر کیا کہیں گے…..؟؟؟
اس نے اس سوال کا بار میرے کندھوں پر پھینکا۔
میرے ذہن میں پلوٹو کا فلسفہ ”غار سے منسوب کہانی“ گونجنے لگا…. ہاں آپ نے بالکل صحیح کہا۔ میرا ذہن ”اس“ کے تخیل کے الجھے تانے بانے بننے لگا۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے؟؟؟ جب ہم حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ میں ان کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ اور تو اور …. ہمیں کبھی برداشت، تحمل اور بردباری کا سبق دیا ہی نہیں جاتا، کیونکہ اس سبق کےلئے استاد میں یہ صلاحیت ہونا لازم ہے …. اور یہاں اساتذہ ہیں کہ …. الامان و الحفیظ ۔ ہمیں حقائق کو سمجھنے، قبول کرنے اور قسمت و تقدیر پر ایمان لانا سکھایا ہی نہیں جاتا، ہمارے دل و دماغ تو کہیں دور کی کوڑی ہے، ہمارا جسم تربیت جیسے اہم مرحلے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اور پتا ہے زیادہ اذیت ناک بات کیا ہوتی ہے؟؟؟، میں نے اس کی جانب متوجہ ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
اس کی آنکھوں میں استعجاب و حیرت کے ساتھ اُلجھن کی پرچھائیاں گہری ہوتی چلی گئیں۔
سب سے اذیت ناک اور کرب کے لمحات وہ ہوتے ہیں کہ جب میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے …. دھیمے لہجے میں کہا۔
ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ عادت نہیں یہ تو اثرات تھے جو ہمیں بچپن سے متاثر کر رہے تھے۔
ہمیں تو جذبات و احساسات سے عاری انسانیت کے وصف سے دور کر کے فقط سانسیں لیتی مادیت زدہ لاشیں بنا دیا گیا ہے۔
میں نے اپنی بات مکمل کی اور اس بے جان وجود کی زندگی کی چمک سے محروم بے نور آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں بند کر کے اٹھ کر زندگی کی سانسوں کی راہ پر مقرر وقت تک کے سفر کے لئے قدم بڑھانے لگا ۔ اِک مقتول کی آنکھوں میں جمے مانند خون سوالات کی بحث ۔