7ستمبر تاریخ پاکستان میں وہ یادگار دن ہے جس دن پاکستان کی قومی اسمبلی نے باغیانِ ختم نبوت کو غیر مسلم اقلیت قراردے کر امت مسلمہ کے 90 سالہ خلفشار کو ختم کیاتھا،مرزاغلام احمدقادیانی اور اس کے جانشینوں نے تسلسل کے ساتھ ختم نبوت سے بغاوت کاعلم بلندکئے رکھا جس پر امت مسلمہ کے تمام افراد انتہائی اضطراب کاشکار تھے اور اس اضطراب کو دورکرنے کے لئے کئی بارتحریک چلی مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا یہاں تک 7ستمبر 1974ء کو ان کی اپنی ایک غلطی نے انہیں اس انجام تک پہنچانے میں بنیادی کردار اداکیا،وہ چناب نگر ریلوئے اسٹیشن پر ان کی غنڈہ کردی تھی،7ستمبر 1974ء کو بائیس دن کے مسلسل بحث ومباحثہ کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر انہیں امت مسلمہ کے لئے ناسور قراردیتے ہوئے انہیں مسلم امہ کے وجود مسعود سے علیحدہ کیا،اب جب کہ ایک بار حکومتی سطح پر پھر قادیانیت نوازی ہورہی ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت انتہائی ضروری ہوچکی ہے کہ عوام کو اس فرقہ کی ریشہ دوانیوں سے آگا ہ کرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کی جدوجہدسے آنے والی نسلوں کو روشناس کیا جائے،اسی ضرورت کی پیش نظر اس دفعہ جمعیت علماء اسلام کی زیرک قیادت نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے7 ستمبر کو صوبہ کے مرکزی مقام پشاور میں ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا،بہت کم وقت اور شدید گرمی کے موسم میں یہ کانفرنس انعقادپذیرہوئی،صوبہ کے مختلف اضلاع سے جب قافلوں کی نقل وحرکت شروع ہوئی تو یہ اندازہ نہیں تھا کہ عوام کا سیلاب پشاور کا رخ کرے گا،جب ہم رشکئی انٹر چینج پہنچے تو مردان کے قافلے نے ہماری گاڑی کے پہیوں کوجام کردیا اور وہاں سے پشاور تک ہمیں دوگھنٹے سے زیادہ وقت لگا،رینگتے رینگتے ہم پشاور پہنچے تو موٹروے چوک کے آس پاس تمام علاقہ انسانوں سے بھرے ہوئے تھے،چاروں طرف سے قافلوں کی آمد شروع تھی،پارک،سڑکوں،گلیوں،چھتوں پر پرتل دھرنے کی جگہ نہیں تھی،جلسہ گاہ میں بھی ہر طرف انسانی سیلاب کے ریلے نظر آرہے تھے،ختم نبوت کے پروانے شمع رسالت پر نچھاور ہونے کے لئے ایسے اُمڈ آئے تھے جس طرح شہدکی مکھیاں شہد چمٹ پررہی ہوں،اس کی کئی وجوہات ہیں،ایک تو ختم نبوت کی وجہ سے لوگ دیوانہ وار چلے آرہے تھے،دوسری وجہ: موجودہ حکمرانوں کی طرف سے قادیانیوں کے لئے انتہائی نرم نرم گوشہ پایاجاتا ہے،جس کی کئی مثالیں زبان زدعام ہیں،دیندارطبقہ اس حکومت کے دین بیزار اقدامات سے انتہائی نالاں ہے،تیسری وجہ: ملک پر مسلط ٹولے کی ناہلی نے عوام کوناک میں دم کردیا ہے،مہنگائی اوربے روزگاری نے عوام کا جینامشکل کردیاہے جس کی وجہ سے عوام کسی مسیحاکی تلاش میں ہیں،چوتھی وجہ: تمام تردعوؤں میں حکومت کی ناکامی نے عوام کے اعتماد کو صفر کردیاہے،پانچویں وجہ: مغربی دباؤ پر حکمرانوں کے غلامانہ فیصلوں اور قانون سازی نے حکمرانوں کی قلعی کھول کررکھ دی ہے،چھٹی وجہ: تسلسل کے ساتھ مدعیانِ نبوت کے دعووں نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے،ساتویں وجہ: توہین رسالت کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں توہین صحابہ واہلبیت کے واقعات نے دینی طبقہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے،آٹھویں وجہ: کٹھ پتلی حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف اپوزیشن میں اگر کوئی صاحب کردار سیاست دان کسی کو نظر آتا ہے تو وہ قائد جمعیت مولانافضل الرحمن صاحب کی شخصیت ہے،نویں وجہ: عوام اب اس کھوکھلے نظام اور جھوٹے دعوؤں سے مایوس ہوچکے ہے،دسویں وجہ: عوام اب جان چکی ہے کہ اصل حکمران کو ن ہے اور وہ کس طرح حکمرانی پر قابض ہوکر کٹھ پتلیوں کو انگلیوں پرنچایاجارہارہے ہیں،گیارہوں وجہ: اپوزیشن کی بڑی پارٹیاں چھپ کاروزہ رکھ کر دیوار سے لگ چکی ہیں اور حقیقی اپوزیشن کا کردار قائدجمعیت اداکررہے ہیں،بارہویں وجہ: مولانافضل الرحمن نے الیکشن کے بعد پہلے دن سے جو موقف اختیار کیاتھا آج بھی جمعیت علماء اسلام اسمبلی کے اندر اور اسمبلی سے باہراسی موقف پرقائم ہے جبکہ اپوزیشن کی دوبڑی پارٹیاں اپنے موقف سے کئی دفعہ قلابازیاں کھاچکی ہیں اور اسمبلی کے نادر متعددبار حکومت کے لئے سہولت کاری کے فرائض انجام دے چکی ہیں جس کی وجہ سے ان کے کارکن اپنی قیادت کی پالیسیوں سے نالاں اور بیزار نظر آتے ہیں اور ان کی امیدیں بھی قائدجمعیت مولانافضل الرحمن سے وابستہ دکھائی دیتی ہیں،ان کے علاوہ کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جو اہل نظر سے مخفی نہیں،ان تمام وجوہات کی وجہ سے اب قوم کی نظریں قائدجمعیت مولانافضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام پر لگی ہوئی ہیں اور مولاناکی آوازپر لبیک کہتے ہوئے لوگوں کا سیلاب ان کے جلسوں میں اُمڈ آتاہے،موجودہ وقت میں ملکی سیاسی بساط پر مولاناصاحب مکمل چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں،حقیقت یہی ہے کہ اگر آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں اور ووٹر بکسوں کی چوری کو روکاجائے تو جمعیت علماء اسلام ہی برسراقتدار آئے گی مگر یہاں ہر الیکشن سلیکشن کی نذر ہوجاتا ہے اور یہ ڈرامہ ہرالیکشن میں دہرایاجاتاہے،پشاور ختم نبوت کانفرنس نے ثابت کردیا ہے کہ”گراس روٹ لیول“ پر اگر کوئی طاقت ہے تو وہ صرف جمعیت علماء اسلام ہی ہے،تمام ترحکومتی پروپیگنڈوں کے باوجودسٹریٹ پاور آج بھی مولانافضل الرحمن کے پاس ہے،جس کابین ثبوت گزشتہ دوسالوں سے جمعیت علماء اسلام کے لاکھوں افراد پرمشتمل اجتماعات ہیں، پشاور ختم نبوت کانفرنس میں عوام کا جوش وجذبہ دیدنی تھا شدت گرمی کے باوجود لوگوں نے بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ مقررین کی تقاریر کو سنا حالانکہ انسانی سمندر کی وجہ سے تمام انتظامات ناکافی ہوچکے تھے،کیونکہ انتظامات سے دس گناہ زیادہ لوگ آگئے تھے،قائد جمعیت مولانافضل الرحمن نے اپنے خطاب میں حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجرمانہ عمل پر جب قانون نافذکرنے والے ادارے ناکام ہوتے ہیں تو پھر اس کا ردعمل ظاہر ہوتا ہے، اس رد عمل کوتو جرم نہیں قراردیاجاتامگر ردعمل کو جرم قراردیاجاتا ہے،انہوں نے غازی فیصل خالد کے وکلاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس قانونی جنگ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،انہوں نے برطانیہ کی طرف سے قادیانیوں پر حکومت کی سرپرستی میں ظلم کی رپورٹ کو ایک مجرمانہ فعل قرادیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قادیانیوں پر کوئی ظلم نہیں ہورہاہے،قادیانی اگر آئین ودستور کو قبول کرلیں تو ان کے ساتھ بھی ہمارا کوئی جھگڑانہیں ہے،جس طرح دیگر اقلیتیں اس ملک میں رہتی ہیں وہ آئین ودستور کو تسلیم کرکے اس ملک میں بلاخوف وجھجھک رہ سکتے ہیں،انہوں نے کہا اگربیرونی دباؤ پر ختم نبوت اور ناموس رسالت قانون میں ترمیم کی کوشش کی گئی تو ہم کٹ مرجائیں گے مگر ترمیم نہیں ہونے دیں گے،ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کا تحفظ ہرقیمت پر کریں گے،انہوں نے کہا کہ کچھ قوتیں فرقہ واریت پھیلاکر ملک میں خانہ جنگی کراناچاہتی ہیں مگر یہ ملک فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے،صحابہ کرام کی گستاخی پر قانون کیوں خاموش رہا،قانون نے حرکت کرکے ان مجرموں کو کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچایا؟دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلمانوں کی نہیں امریکہ اور مغرب کی ضرورت ہے جو دنیا کی معیشت اور وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی کاروائیوں میں مصروف ہیں مگر پروپیگنڈامسلمانوں کے خلاف کیا جارہاہے،ملک میں کئی لابیاں متحرک ہیں کچھ لوگ اسرائیل کوتسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی اے پی سی میں بھی مضبوط موقف دیں گے اور ان جعلی حکمرانوں کا بوریابستر گول کرکے دم لیں گے۔اس موقع پر قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے اپنے کارکنوں کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے آج اتناعظیم الشان اور فقیدالمثال اجتماع منعقدکرکے اپناریکارڈ خود ہی توڑ دیا،ختم نبوت کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولاناعبدالغفور حیدری،ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولاناامجدخان،علامہ شاہ احمدنورانی کے صاحب زادے مولانااویس احمدنورانی،صاحبزادہ مولانامفتی اسعدمحمودپارلیمانی لیڈر جمعیت علماء اسلام،امیر بلوچستان مولاناعبدالواسع ایم این اے،جے یوآئی سند ھ کے جنرل سیکرٹری مولاناراشدمحمودسومرو،پنجاب کے امیر ڈاکٹر عتیق الرحمن،آزادکشمیر کے امیر مولاناسعید یوسف،جمعیت اہل حدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر،شاہینِ ختم نبوت مولانااللہ وسایہ،مفتی شہاب الدین پوپلزئی،جے یوآئی خیبرپختونخواہ کے امیر سینیٹر مولاناعطاء الرحمن،جنرل سیکرٹری مولاناعطاء الحق درویش اور دیگر مقررین نے خطاب کیا،شاعر جمعیت سید سلمان گیلانی،رفیق دانش اورمولانافضل امین نے منظوم کلام سے شرکاء جلسہ کا خون گرمایا،جبکہ مرکزی سالار حاجی عبدالرزاق عابدلاکھونے انصارالاسلام کی قیادت کرتے ہوئے سیکیورٹی کے فرائض انجام دئے،اگرچہ ڈی سی پشاور نے باوردی رضاکاروں کی شرکت پر پابندی کااعلان کیا تھا مگر انصار الاسلام کے سربراہ عبدالرزاق عابدلاکھونے اس حکومتی فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے صوبائی سالار مولاناعزیز اشرفی کی معیت میں باوردی رضاکاروں سے اس عظیم الشان اجتماع کا کنڑول سنبھالے رکھا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونے دیا۔