حوصلہ افزائی مایوسی کا شکار کسی بھی فرد کو خوشی سے ہمکنار کرنے اور محنت وکامیابی کی ترغیب دینے کا نام ہے۔انسان کے اندر بہت ساری صلاحیتیں ہوتی ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہے جن کوسراہاجائے تو مزید بہتر ہوجاتی ہیں۔بظاہر حوصلہ افزائی ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے لیکن اس سے جو قوت وتوانائی کام کرنے والے کو ملتی ہے،اس کا اندازہ اس کے علاوہ باقی کوئی نہیں کرسکتا۔ حوصلہ افزائی ایک نیا جذبہ اور جوش پیدا کرتا ہے اور ایک ایسی توانائی کو جنم دیتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کام کو مزید اچھے طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔ آپ نے اکثر بچوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ بعض کام کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں،لیکن اگر ذرا اُن کادل بڑھا دیا جائے کہ ”ہمارا یمان خان تو پانی کی بھری ہوئی بالٹی اُٹھا سکتا ہے“ تو سچ مچ پوری بالٹی نہیں تو اپنی بساط اور آپ کی توقع سے زیادہ پانی بھر کر اُٹھالائے گا۔
بہترین لیڈر ز اور تجربہ کار لوگ اپنے کارکنوں اور ماتحتوں میں پیار ومحبت کی فضاء میں ایک ایسی اسپرٹ پیدا کردیتے ہیں کہ اُن کے معمولی طاقت سے بعض اوقات کئی گنا ذیادہ کام لے لیتے ہیں۔ بلب کے مؤجد ایڈیسن کے بچپن کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔ایک دن ایڈیسن کی ٹیچر نے اُسے ایک خط دیا کہ یہ اپنی والدہ کو دے دینا۔ ایڈیسن نے گھر پہنچتے ہی وہ خط اپنی والدہ کے حوالے کردیا۔ما ں نے خط کھول کر پڑھا تو اس کے ماتھے پر پریشانی کے آثار نمودار ہوئے،لیکن اگلے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اس خط کو بآوازِ بلند پڑھنا شروع کیا،”آپ کا بیٹا بہت ذہین ہے،اس کے ذہنی میعار کے مطابق ہمارے پاس اساتذہ نہیں ہیں،آپ اس کے لیے کسی اور اُستاد کا انتخاب کرکے اسے گھر ہی میں پڑھا ئیے۔ یہ سن کر ایڈیسن کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی،اس نے اپنے نئے ٹیچر کے ساتھ دل لگا کر پڑھنا شروع کیا۔
آنے والے حالات نے ایڈیسن کو سائنس دانوں کی صف میں نہ صرف لاکھڑا کیا، بلکہ ہر گھر میں روشنی دئیے یہ بلب ایڈیسن کی یاد الاتے رہیں گے۔ اس واقعے کے کئی سال بعد،جب ایڈیسن ایک سائنس دان بن چکا اور اس کی والدہ کے انتقال کو اِک زمانہ بیت چکا تھا، ایک دن الماری میں پرانے کاغذات میں کچھ تلاش کررہا تھا،اسے الماری میں موجودکا غذات میں وہی خط نظر آیا،جو کئی سال قبل اس کی ٹیچر نے لکھا تھا، ایڈیسن نے یاد ماضی دہراتے ہوئے اس خط کو کھول ا تو اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔”آپ کا بچہ انتہائی نالائق ہے، ہم اس بچے کو اپنے اسکول میں مزید نہیں پڑھا سکتے، آپ اس کے لیے گھر ہی پر ایک استادکا انتخاب کریں۔“یہ الفاظ پڑھ کر ایڈیسن حیرت کابت بنا رہ گیا کہ اس ماں نے تو کچھ اور ہی الفاظ کہے تھے، اب اسے سمجھ میں آیا کہ ماں نے میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے وہ باتیں کہیں تھیں۔ ذراتصواکیجئے کہ اگر ایڈیسن کی والدہ بعینہ وہی الفاظ دہرادیتیں تو شائد ایڈیسن آج کا ”ایڈیسن جو مشہور سائنس دان ہے،نہ ہوتا۔“ ایڈیسن کو سائنسی موجدین کی صف میں لا کھڑا کرنے والے اس ماں کے حوصلہ افزائی پر مشتمل الفاظ تھے۔
حوصلہ افزائی نے ہی ایک عام لڑکے کو فقہ حنفی کا امام بنا دیا۔ جس کو فقہ واُصول فقہ کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے،اور وہ ہے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد رشید امام ابو یوسف ؒ۔ابو یوسف ؒ کے والد محترم جب فوت ہوئے تو آپ کی والدہ آپ کو مزدوری کے لئے بھیجتی۔راستے میں امام ابو حنیفہ ؒ کا درس لگا کرتا،ابو یوسف اس درس میں بیٹھ جاتے،چنددن تک جب ابویوسف ؒخالی ہاتھ گھر لوٹے تو والد ہ کو تشویش ہوئی،اگلے دن ان کی والدہ چپکے سے ان کے پیچھے ہوئی، دیکھا کہ ابو یوسف ؒ امام ابوحنیفہ ؒ کے درس میں بیٹھ گئے،آپ کی والدہ نے جب یہ منظر دیکھا تو امام ابو حنیفہ ؒ سے کہنے لگیں کہ ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں اور آپ اسے سبق پڑھا رہے ہیں،امام ابوحنیفہ ؒ کو جب ان کے گھر کے حالات کا پتا چلا تو آپ نے ان کے گھر کے لیے وظیفے کا بندوبست فرمایا اور ابو یوسف ؒ کی والدہ کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اسے پڑھنے دیں۔آنے والے وقت نے ابو یوسف ؒ کو فقہ حنفی کا امام بنادیا۔اگر امام ابوحنیفہؒ،ابو یوسف کی حوصلہ افزائی نہ فرماتے تو شائد ابو یوسف کو وہ مقام نہ ملتا۔
کسی کی حوصلہ افزائی کرنا نہ صرف دنیا وی طور پر قابل تعریف عمل ہے بلکہ شریعت مطہرہ میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
قرآن کریم سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تعریف فرمائی، آپ ﷺ نے قوم کے چند افراد کو بلا کر پوچھا کہ تمہارا وہ کون سا عمل ہے کس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم طہارت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ نے جب تمام مال دین اسلام کی خاطر آپ کے قدموں میں لاکر رکھ دیا اور خود ٹاٹ کا لباس پہن لیا تو اللہ نے حضرت ابوبکر ؓ کی اس قربانی کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انہیں عرش سے سلام بھیجے۔
احادیث میں بھی نبی کریم ﷺ سے روایات منقول ہیں کہ آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ آپﷺ لوگوں سے مل رہے تھے کہ ایک شخص کے ہاتھوں میں آپ نے سختی محسوس کی۔ پوچھا کہ تمہارے ہاتھ اس قدر سخت کیوں ہیں؟ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ مزدوری کرتا ہوں، آپ ﷺ نے اس کے ہاتھوں کو بوسے دے کر فرمایا کہ لوگو! مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا کرو۔ نبی کریم ﷺ کا ایک مزدور کی ہتھیلیوں کا بوسہ دینا حوصلہ افزائی ہی تو تھا۔
الغرض حوصلہ افزائی ایک ایسا عمل ہے جو کسی کی زندگی مکمل تبدیل کرسکتی ہے۔ دنیا میں نظر دوڑائے تو آپ کو ہر کا میاب شخص کے کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی کی حوصلہ افزائی ضرور ملے گی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں حوصلہ افزائی کرنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حوصلہ شکنی ہمارے معاشرے کا شیوہ بن چکا ہے۔
تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر تک، کسی بھی شعبہ زندگی کو دیکھ لیجئے،خود سے ذیادہ تعلیمی قابلیت یا ذیادہ صلاحیت کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہے انہیں برداشت تک نہیں کیا جاتا۔ باصلاحیت افراد کی رہنمائی کی بجائے ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں،نئے جذبات، نئے عزم اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد اپنے ارادوں کو ٹوٹتا دیکھتے ہیں تو ان کی اُمیدوں پر اوس پڑ جاتی ہیں۔
ان ہی حاسد ین اور عنا دین کی وجہ سے باصلاحیت افراد میں صلاحیت دب کر رہ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد ضرورت بن کررہ جاتا ہے۔
مشہور ہے کسی پروفیسر نے ایک وائٹ بورڈ پر گول دائرہ بنا کر اس میں ایک نقطہ لگا دیا،اور سامعین سے پوچھا کہ آپ کو اس گول دائرے میں کیا نظر آرہا ہے؟ سب نے بیک آواز جواب دیا کہ ایک نقطہ۔ پروفیسر صاحب مسکر اکر کہنے لگے کہ حیرت ہے کہ گول دائرہ میں موجود اس قدر بڑا سفید حصہ کسی کو نظر نہیں آتا، لیکن ایک نقطہ سب کو نظر آگیا۔ یقین جانیئے! آج ہماری کیفیت یہی ہے کہ کسی انسان میں موجود سینکڑوں صلاحیتیں ہونے کے باوجودہمیں اس کی ایک غلطی ضرور نظر آتی ہے۔ خدارا باصلاحیت افراد کی قدر کریں اور بجائے حوصلہ شکنی کے حوصلہ افزائی کو ترجیح دیں تو آپ خود مثبت پہلو کے اثرات دیکھے گے۔