زکوۃ میں تین اسراز (مفتی شاکراللہ)

0

چونکہ حاضرجو مہینہ ہے۔ ہمارے عرف میں  یہ ہی اکثرلوگ زکوٰۃ کے لیے خاص کرتے ہیں۔ اور چونکہ زکوٰۃ مسلم زندگی میں  ایک بہت بڑے اہمیت کا حامل رکن ہے اس لیے اس کے بارے میں  کچھ منقوشات دیکھیں گے۔ اسلام کے تمام احکام اور ہدایات کا خلاصہ دوباتیں ہیں ۔خدا کی بندگی اور بندگانِ خداکی مدد۔نمازخدا کے سامنے غلامانہ احترام بجالاتاہے، روزہ نفس کی خواہش پر خدا کے حکم کو غالب رکھنے سےعبارت ہے۔ صبح خدا کی شانِ محبوبیت کا اظہار اوربندوں کے اپنے آقاﷺ سے وارفتگی کانشان ہے تو دوسری طرف صدقات اللہ کے بندوں کی مدد اور خلقِ خدا کی امانتیں اوردین کے اس شعبہ کا سب سے جلی اور اہم عنوان زکوٰۃ ہے یہ اپنے مال میں  خدااوراس کے بندوں کے حق کا اعتراف ہے اورنماز کے بعدسب سے اہم رکن زکوٰۃ ہے کہ قرآن میں  اکثر مواقع پر نماز کے سابقہ ہی زکوٰۃ کا ذکر ہے زکوٰۃ کی اس اہمیت کی وجہ سے اسلام سے پہلے جو مذاہب گزرے ہیں ان میں  بھی زکوٰۃ واجب قرار دی گئی ہے۔تورات میں  دس فیصد خداوند کے لیے دینے کا حکم وارد ہے۔ اسی طرح ایک اورموقع پر آدھا مثقال دینے کا حکم دیاگیاہے۔

                اسلام میں  زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ قرآن مجید میں  32 مقامات پر صبرو زکوٰۃ کا،15مقامات پرصدقہ کا ذکر آیاہے جو زکوٰۃ کی فرضیت مکی زندگی ہی میں  ہوچکی تھی۔چنانچہ مکی زندگی کی صورتوں میں  زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے البتہ حکم زکوٰۃ کی تکمیل مدینہ منورہ میں  ہجرت کے بعدہوئی۔اور۹ھ میں  آپﷺ نے عمال کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے روانہ فرمایا۔گویا زکوٰۃ مکہ میں  فرض ہوئی، مدینہ میں  اس کا نفاذ ہواوہاں نصاب مقرر ہواقواعد وضوابط مرتب ہوئے۔ اور زکوٰۃ میں  جمع وتقسیم کا پورا نظام روبرو عمل آیا۔ الغرض زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکانوںمیں  سے ایک رکن ہے۔

صاحبِ نصاب لوگوں کے لیے سالانہ ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ نکالنا فرض ہے زکوٰۃ نکالنے سے باقی ساڑھے ستانوے فیصد مال پاک ہوجاتاہے اور اللہ کی طرف سے اس مال کی حفاظت ہوتی ہے اور غریبوں کا گھر آبادرہتاہے اور ان کے دلوں سے دعائیں نکلتی ہیں اور فرشتے بھی ایسے لوگوں کے مالوں میں  اضافہ ہونے کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور زکوٰۃ نہ دینے والامال ہلاک ہوجاتاہے کبھی آگ لگ جاتی ہے کبھی ڈاکہ ہوتاہے کبھی چوری ہوجاتی کبھی زلزلہ میں  تباہ وبرباد ہوجاتاہےکبھی ایسے لوگوں کے مال تباہ وبرباد ہونے کے لیے ملائک آسمان سے بددعاکرتے ہیں اورآسمان سے بارش بند ہوجاتی ہے قحط پڑتاہے جانور کیاانسان تک ہلاک ہوجاتے ہیں اکثر ایسے لوگ خودیا ان کی اولاد ایک نہ ایک دن غریب وفقیر بن کر دردر کی ٹھوکریں کھاتے سے بچ نہیں جاتی کیونکہ مال زکوٰۃ غریب کا حق ہے اوردوسروں کا حق کبھی بندہ ہضم نہیں کرسکتے بالآخر انسان سے اللہ نکالتاہے صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ بندہ اس سے ذمہ دار بن کر رہ جاتاہے اور آخرت کے عذاب کا مستحق بن جاتاہے حدیث میں  ہے کسی کا مال سانپ بن کر اس کو کاٹے گااورکہے گا میں  آپ کا مال اورآپ کا خزانہ ہوں کسی کا مال جہنم میں  گرم کیاجائے گااوراس کے جسم کو داغا جائے گا زکوٰۃ میں  سستی اور کاہلی دنیااورآخرت دونوں میں  تباہی اوربربادی کا سبب ہے بعض لوگوں کو قیامت میں  ان کے مال سے ان کو اس طرح داغا جائے گاکہ جب سینہ پر داغا جائے تو وہ پیٹھ سے پار ہوجائے گااور جس شخص کے ساتھ چارپائے ہوں اور وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے تو ان کو قیامت کے دن اس پر مسلط کردیاجائے گا تاکہ سینگوں سے اپنے مالک کو ماریں اورپاؤں سے روندیں۔جب تمام چارپائے گزر جائیں گے توپھر آگے والے پلٹ کر اسے اوندنا شروع کردیں گے اور جب تک سب کا حساب نہ ہوجائے گا یہ عمل جاری رہے گا۔ حدیث میں  یہ بھی منقول ہے کہ اہل ثروت اور دولت پر زکوٰۃ کا علم سیکھنا فرض ہے۔ تاکہ اس کے مال میں  کسی غیر کا حق نہ رہ جائے اور وہ پوری پوری زکوٰۃ اپنے مستحقین کو پہنچائیں۔زکوٰۃ اسلامی ارکان سے ہونے کے ناطے ان سے منکر کافر ہے اور نہ دینے والابڑافاسق اورفاجر ہے بلکہ علماء لکھتے ہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے والااس قابل ہے کہ اسے قتل کیاجائے۔

زکوٰۃ کے تین بڑے اسرار ہیں جس طرح نمازکی ایک صورت اورایک حقیقت ہے اوروہ حقیقت صورت کی روح ہوتی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی بھی ایک صورت اور ایک روح ہے جو کوئی اس کی روح کو نہ پہچانے گا اس کی زکوٰۃ بھی بے روح ہوگی تو زکوٰۃ کے تین راز ہیں:

پہلاراز:۔  بندوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا حکم ہے اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کے ساتھ محبت کا دعویٰ نہ رکھتاہو بلکہ مسلمان اس بات کے مامور ہیں کہ کسی چیز کو اللہ سے زیادہ دوست اورعزیز نہ رکھیں تو ہر مسلمان کا اللہ کی محبت کا دعویٰ ہے اور ہر دعویٰ کے لیے دلیل ضروری ہوتی ہے۔ واضح بات ہے کہ مال میں  بھی آدمی کی زیادہ محبت ہوتی ہے سچا ہے تو اپنی اس محبوب چیز کو مجھ پر فداکردے تاکہ میری دوستی میں  تجھے اپنے درجہ اور صداقت کا علم ہوجائے پس اس میں  لوگ تین گروہ ہوئے۔

صدیقین:۔انہوں نے تمام مال خرچ کیا۔

صالحین:۔   انہوں نے بعض مال کو اپنے سابقہ رکھاکہ ضرورت کے وقت خرچ کروں گا۔

مؤمنین:۔جو صرف زکوٰۃ کا حصہ پوراادا کرتے ہیں۔

دوسراراز:۔ بخل کی نجس صفت سے اپنے دل کو پاک کرناہے۔ انسان قلوب کے لیے بخل نجاست کی مانندہے جس طرح ظاہری نجاست کے ساتھ نماز صحیح نہیں ۔اسی طرح باطنی نجاست (بخل)کے ساتھ اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوتی اورمال خرچ کیے بغیربندہ بخل سے نجات حاصل نہیں کرسکتے اورزکوٰۃ کا مال اس پانی کی مانند ہے جو ظاہری نجاست کو دورکرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ کا مال جناب رسول اللہﷺ اورآپﷺ کے اہل وعیال پر حرام ہے اس لیے ان کے پاکیزہ منصب کو لوگوں کے میل سے بچاناضروری ہے۔

تیسرا راز:۔شکر ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس لیے کہ مال اورآخرت میں  مسلمان کی راحت کا سبب ہے تو جس طرح نماز ،روزہ،حج بدن کی نعمت کے شکر کے طورپر ادا کیے جاتے ہیں۔اسی طرح زکوٰۃ مال کی نعمت کا شکر یہ ہے تاکہ آدمی اپنے ’پ کو بے پرواظاہر کرسکے اور دوسرے مسلمان بھائی کو جو اس کی مانند انسان ہے اور رماندہ وعاجز دیکھ کر یہ کہے کہ یہ بھی میری طرح انسان اور خداوند کا بندہ ہے اللہ کا شکر ہے کہ اس ناطے مجھے اس سے مستغنی اوربے پرواہ کیااوراسے میرا محتاج بنایا تومجھے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرناچاہیے ایسا نہ ہو کہ یہ آزمائش ہو اور اگر خاطر مدارت میں  کوتاہی ہوتی تو ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس جیسا اور اسے مجھ جیسا بنادے اس سے ایک عبرت ناک واقعہ یادآیا لیکن بات لمبی ہوتی ہے اس لیے ذکر کرنے سے گریز کرتاہوں۔

                اس مقام پر پس ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ زکوٰۃ کے یہ اسرار سمجھے تاکہ اس کی زکوٰۃ بے روح نہ ہوجائے اول میں  بتایاگیا کہ قرآن نے کبھی زکوٰۃ سے صدقہ کے ساتھ تعبیر کیاہے اور صدقات کے بہت زیادہ فضائل ہیں۔ ان میں  سے یہ کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایاکہ کسی کے دروازے سے جب ایک سائل محروم واپس ہوجائے اُس گھر  سات دن تک رحمت کے ملائک نہیں آتے۔

                دوسرا یہ کہ نبی کریمﷺ نے بہرصورت یہ دوکام خود کیے اپنے ہاتھ سے کرتے۔ایک صدقہ دینا اور دوسراتہجد کے لیے پانی کا بندوبست کرنا۔ تو صدقہ ایک بہتر عمل تھا اس لیے نبی کریمﷺ نے اس کا اداکرنا اپنے ہاتھ مبارک سے فرمایا۔اللہ کرے کہ ہمارامال حلال ہو اور اس میں  فقراء کا حق کبھی بھی نہ رہ جاتیں اورزکوٰہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.