شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

صحابہ کرام ؓ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کی تربیت براہِ راست سرکاردوعالم ﷺنے فرمائی ہے،ان کے قلوب دنیا کی تمام آلودگیوں سے پاک تھے،نبی کریم ﷺکی صحبت کی بدولت ان کے اندر سے بری خصلتیں ختم ہوکر نیست ونابود ہوچکی تھیں،وہ مجسمہ خیر وبرکت بن چکے تھے،خوف اورڈر بزدلی کی علامت ہے جبکہ صحابہ کرام ؓ بہادر پیغمبر کے بہادر شاگرد تھے،ان پر جرأت وبہادری کی انتہاہوچکی تھی،ان برگزیدہ ہستیوں کی طرف اگر کوئی شخص بری بات کی نسبت کرتا ہے تویہ اس کی جہالت کی واضح دلیل ہے، تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہی کوئی بدبخت انسان ان عظیم ہستیوں کی طرف غلط بات منسوب کرسکتا ہے،ورنہ ذی ہوش،عقلمند اورتھوڑی بہت سمجھ رکھنے والا شخص بھی سرکاردوعالم ﷺکے ان عظیم شاگردوں کی معمولی سی توہین گوارانہیں کرسکتا، ان کے ایمان وعمل،تقویٰ وطہارت،شجاعت وبہادری،اخلاص وللہیت کی گواہی قرآن کریم نے کئی مقامات پر دی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں حضرت محمدﷺکو پسندفرمایا اور انہیں اپنارسول بناکر بھیجا اور انہیں اپنا علم ِ خاص عطافرمایا پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو آپﷺکے لئے صحابہ کرام کوچنااور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کریم ﷺ کی ذمہ داری اُٹھانے والا بنایا لہذاجس چیزکو صحابہ کرام اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی اچھی ہوگی،اور جس چیز کو وہ براسمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی بری ہوگی۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں جو آدمی کسی طریقے کو اختیار کرناچاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان لوگوں کا طریقہ اختیار کرے جو دنیا سے جاچکے ہیں وہ لوگ نبی کریم ﷺکے صحابہ ہیں جو اس امت میں سب سے بہترین،سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے زیادہ کم تکلف برتنے والے تھے یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے اور اپنے دین کو پھیلانے کے لئے چن لیا ہے،لہذاان جیسے اخلاق اوران جیسی زندگی گزارنے کا طریقہ اپناؤ،ربّ کعبہ کی قسم!نبی کریم ﷺکے تمام صحابہ ہدایت مستقیم پر تھے،صحابہ کرام کی اخلاص وللہیت،خوف خدا واطاعت رسول،امانت ودیانت،صداقت وسچائی،عقائدواعمال، شجاعت وبہادری، جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ بوڑھے،بچے،جوان، خواتین حتیٰ کہ معذوروں تک جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار تھے،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن مجھے نبی کریم ﷺکے سامنے پیش کیاگیا لیکن آپ ﷺنے چھوٹاسمجھ کر مجھے واپس فرمادیا،اس جیسی سخت رات مجھ پر کبھی نہیں آئی تھی نبی کریم ﷺکے قبول نہ فرمانے کی وجہ سے مجھے بڑاغم تھا اور میں ساری رات جاگ کر روتا رہا،اگلے سال پھر مجھے نبی کریم ﷺکے سامنے پیش کیا گیا آپ ﷺنے مجھے قبول فرمالیا اس پر میں نے اللہ کا شکر اداکیا،اسی غزوہ بدر میں حضرت سعدبن خیثمہ ؓ اور ان کے والد حضرت خیثمہ ؓ نے نبی کریم ﷺکے ساتھ جانے کا ارادہ کیا جب آپ ﷺکے سامنے دونوں کا تذکرہ ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا دونوں میں سے ایک جائے،حضرت خیثمہ نے اپنے بیٹے سعد سے کہا تم گھر میں ٹھہرو اور مجھے جانے دو،اس پر بیٹے نے جواب دیا،اگر جنت کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتی تو میں آپ کواپنی جان پر مقدم رکھتا مگر میں اس سفر میں شہادت کی امید لگائے ہوئے ہوں چنانچہ دونوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت سعد کانام نکل گیا وہ غزوہ بدرمیں شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے۔حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکے چھوٹے بھائی ہیں،غزوہ بدر کے لئے جب لشکر روانہ ہوا تو وہ ساتھ ہولئے اور چھپتے پھررہے تھے حضرت سعد ؓ نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو کہا کہ کہیں نبی کریم ﷺمجھے دیکھ کر اوربچہ سمجھ کرواپس نہ فرمادیں،میری تمناہے کہ لڑائی میں شریک ہوجاؤں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمادیں،جب لشکر نبی کریم ﷺکے سامنے پیش ہوا تو آپؐ نے انہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس فرمادیا،مگر شوق کا ایسا غلبہ تھا کہ برداشت نہ کرسکے اور رونے لگ گئے،جب نبی کریم ﷺکو ان کا شوق اور رونے کا حال معلوم ہوا تو اجازت مرحمت فرمادی، وہ غزوہ میں شریک ہوکر لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوئے،اس جنگ میں لشکرکفارکے سپریم کمانڈر ابوجہل ملعون کو جہنم رسید کرنے والے بھی تو 8اور9سال کے کم سن بچے تھے،حضرت معوذ ؓاور معاذ ؓدوانصاری بچوں نے اس امت کے فرعون کوجس ہمت، شجاعت، بہادری اور دلیری سے تیہِ خاک کیا وہ تاریخ اسلام کا درخشندہ باب ہے۔غزوہئ اُحدمیں جب نبی کریم ﷺنے مدینہ سے باہر نکل کر لشکر کا معائنہ فرمایا توچند کم سن لڑکوں کو واپس فرمادیا،جن میں حضرت رافع ؓاور سمرہ بن جندبؓ بھی تھے،رافع کے والد نے سفارش کی کہ میرابیٹاتیرچلانے میں بڑاماہر ہے،ان کو اجازت مل گئی اس پر سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے سوتیلے والد سے کہا کہ نبی کریم ﷺنے رافع کو اجازت عطافرمادی اور مجھے اجازت نہیں ہوئی حالانکہ میں رافع سے زیادہ قوی ہوں،اگر میرا اور اس کا مقابلہ ہو تو میں اس کو پچھاڑ لوں،نبی کریم ﷺنے دونوں کامقابلہ کرایاچنانچہ سمرہ ؓ نے رافع کو پچھاڑدیا اور اس طرح ان کوبھی اجازت مل گئی،دیگر بچوں نے بھی کوشش کی ان میں بھی بعض کو اجازت مل گئی،جس قوم کے بچوں کی شجاعت وبہادری،شوق شہادت اور جذبہ جہاد کا یہ حال ہو اس کے جوان اور بڑی عمر والے کس درجہ کے بہادر اور دلیر ہوں گے اور ان میں جہاد کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھراہواہوگا؟ایسے بہادروں اور موت کے منہ میں چلانگیں لگانے والوں کے بارہ میں یہ کہناکہ وہ ایک دوسرے کوبرابھلاکہاکرتے تھے یاان میں بعض بعض سے ڈرکرخاموش رہتے تھے جیساکہ حضرت علی المرتضیٰ کے بارہ میں کہاجاتا ہے ان سے خلافت چھین لی گئی مگروہ خاموش رہے،حضرت فاطمہ ؓ کو ان کے حق وراثت سے محروم کیاگیا مگر وہ خاموش رہیں؟جہالت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟حضرت علی ؓ امت کے سب سے بہادرانسان ہیں یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ کسی ناجائز چیز پرخاموش رہیں؟حضرت خالدبن ولید ؓ فرماتے ہیں جس رات میرے گھرمیں نئی دلہن آئے جس سے مجھے محبت بھی ہو اور مجھے اس سے لڑکا پیداہونے کی خوش خبری بھی اس رات مل جائے،یہ رات مجھے اس سے زیادہ محبوب نہیں ہے جس رات میں پانی جمادینے والی کڑاکے کی سردی پڑرہی ہو اور میں مہاجرین کی ایک جماعت میں ہوں اور صبح کو دشمن پر حملہ کرنا ہو۔جب حضرت خالد ؓ کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا:میرے دل میں تمناتھی کہ میں اللہ کے راستے ہیں شہید ہوجاؤں لہذاجن جگہوں میں جانے سے شہادت مل سکتی تھی میں ان تمام جگہوں میں گیا لیکن میرے لئے بسترمیں مرنا ہی مقدر تھا، کلمہ طیبہ کے بعد میرے نذدیک سب سے زیادہ اُمیدوالا عمل یہ ہے کہ میں نے ایک رات اس حال میں گزاری تھی کہ ساری رات صبح تک بارش ہوتی رہی اور میں ساری رات سرپر ڈھال لئے کھڑارہا اور صبح ہم نے کافروں پر اچانک حملہ کردیا۔شام کے غزوات میں حضرت خالد بن ولید کا ساٹھ ہزار لشکر کے مقابلہ میں ساٹھ آدمیوں کے ساتھ نکلنااور انہیں شکست سے دوچار کرنا دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔یہ تو بطورنمونہ چند واقعات میں نے پیش کئے ورنہ تاریخ کے صفحات صحابہ کرام کی شجاعت ودلیری اورجرأت وبہادری سے بھرے پڑے ہیں،شام،فارس،افریقہ،ایران،خراسان،مغرب،سندھ اور ہندھ کی تمام لڑائیوں میں صحابہ کرام ہمیشہ تعددادکے لحاظ سے کم ہوتے تھے مگر بڑے بڑے لشکروں کوگاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔ بوڑھوں میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ،حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ،حضرت حذیفہ ؓ کے والد حضرت یمان بن جابر ؓ حضرت ثابت بن وقش ؓ اور دیگر بے شمار صحابہ کرام کے واقعات اور خواتین میں حضرت ام زیادؓ،حضرت عائشہ صدیقہ،ؓ حضرت ام سلیم،ؓ حضرت ام حرام،ؓ حضرت خنساء،ؓ حضرت صفیہ،ؓ حضرت ام عمارہؓ،حضرت ام حکیم،ؓ حضرت حولہ بن ازورؓ کے واقعات بلکہ ایک ایک صحابی کا واقعہ ایمان کو جلابخشنے کے لئے شمس وقمر سے زیادہ موثرہے،جس جماعت کے معذور افراد گھرسے نکلتے ہوئے یہ دعا کرتے ہوں ”اے اللہ مجھے گھرکی طرف نہ لوٹائیے“یعنی شہادت سے سرفراز فرمادیجئے،جن کے بچے پنجوں پر کھڑے ہوکر اپنے آپ کو شہادت کے پیش کررہے ہوں،جن کی تیسری نسل کے معصوم بچے میدانِ کربلا میں جذبہ شہادت سے سرشار ہوکر موت کی وادی میں بلاجھجھک پروانوں کی طرح کود رہے ہوں ان کے بارہ میں ہرزہ سرائی کرنااور ان کے بارہ میں یہ کہناکہ وہ ایک دوسرے کوحقوق کوغصب کرتے تھے یاایک دوسرے کوبرابھلاکہاکرتے تھے یاایک دوسرے سے ڈرکر ناحق پر خاموش رہتے تھے،سراسر زیادتی اور جہالت ہے،صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں توایک ایک صحابی کا واقعہ ایمان کوجلابخشنے کے لئے کافی ہے،مگر ان واقعات سے وہی لوگ تأثر لیں گے جن کے دل میں ایمان کی روشنی ہو،جو صحابہ کرامؓ کی قربانیوں سے واقف ہوں،جنہوں نے صحابہ کرامؓ کی معمولات کا مطالعہ کیا ہو،جن کا ذہن خرافات اور واہیات سے پاک ہو،جنہوں نے صحابہ کرامؓ جیساعمل کرنے کی نیت کی ہو،جنہوں نے صحابہ کرامؓ کی پاکیزہ زندگی کو اپنے لئے دستورالعمل قراردیا ہواور جنہوں نے ساری زندگی لہوولعب میں گزاری ہو،جن کی گھٹی میں صحابہ کرام کی نفرت ڈالی گئی ہو اُنہیں کیا پتہ صحابہ کون ہیں؟ان کا مقام کیاہے؟ان کی عظمت اور شان کیاہے؟ ماہ محرم کے دوران اسی ریاست مدینہ کے دارالخلافہ اسلام آباد میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خلاف جو زبان استعما ل کی گئی وہ بازاری زبان کوئی انسان کسی عام آدمی کے بارہ میں استعمال نہیں کرسکتا،پھر دس محرم کے دن کراچی میں حضرت ابوسفیان ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے بارہ میں انتہائی بدبودار قسم کی بدزبانی کی گئی جس کوبعض ٹی وی چینلز نے لائیونشرکیا جس سے ملک کے تمام اہل سنت کے دل مجروح ہوئے مگر پیمرا نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا جس پر پورے ملک میں تمام اہل سنت کے ہاں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور ابھی تک ہورہاہے،یہ تمام تر بدزبانی حکومتی ناک کے نیچے اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی موجودگی میں ہوئی مگر ابھی تک ان مجرموں کے خلاف کوئی خاطرخوا کاروائی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسلمانانِ پاکستان کے دلوں کا اضطراب مزیدبڑھتا جارہاہے،حکومت اپنی ناکامیوں پر دہ ڈالنے کے لئے مذہبی منافرت پھیلاکر عوام کی توجہ دوسری طرف موڑناچاہتی ہے اور اس کا مقصد مسلکی خانہ جنگی پیداکرنا ہے مگر ہمارے علماء نے اس سازش کو ناکام کرکے حکومتی اقدامات کے منہ پر ایک طمانچہ رسیدکردیا ہے،ان مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لئے تمام مذہبی جماعتیں تحریک چلارہی ہیں تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ صحابہ کرام ؓ کے بارے اس طرح کی ہرزہ سرائی کرسکے۔ملک کے مقتدر علماء کرام مفتی اعظم پاکستان مولانامحمدرفیع عثمانی،شیخ الاسلام مولانامفتی محمدتقی عثمانی،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن،مفتی منیب الرحمن سمیت تمام علماء نے بیک زبان اس کی مذمت کرتے ہوئے اس قسم کی ہرزہ سرائیوں کو فی الفور بندکرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے مجرموں کوگرفتارکیاجائے اور انہیں ایسی عبرتناک سزادی جائے تاکہ آئندہ کسی کواس قسم بدزبانی کرنے کی جرات نہ ہو،ملک کے تمام مسلمانوں کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ناموس رسالت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام ؓ کی گستاخی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.