مملکت پاکستان کے اندر جنگل کاقانون نافذ ہے،جس طرح جنگل میں کسی کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور طاقتور جانور کمزور جانور کو کھاجاتا ہے اسی طرح ہمارے ملک میں بھی طاقتور جوچاہتا ہے کرتا ہے قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جو کسی بدمست طاقتور کے بڑھتے ہوئے قدم روک سکے،پہلے بھی لوگ انصاف کے لئے دربدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے مگر اب تحریک انصاف کی حکومت میں تو بالکل جنگل کاقانون گویا مکمل طورپر رائج ہوچکاہے،جس کی تازہ مثال لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کودودرندوں نے اس کے بچوں کے سامنے درندگی کا نشانہ بناڈلا،فرانس کی شہری خاتون لاہور سیالکوٹ موٹروے پر سفر کررہی تھی کہ اس کی گاڑی میں فیول ختم ہوگیا اس نے موٹروے پولیس سے مددطلب کی مگر اسے جواب ملا کہ یہ علاقہ ان کی رینج میں نہیں آتا اس لئے وہ کسی قسم کی کوئی مددنہیں کرسکتے،اس کے بعد وہاں دو انسان نمادرندے پہنچے جنہوں نے گاڑی کاشیشہ توڑ کر خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ان درندوں نے اس درندگی پراکتفا نہیں کیا بلکہ نقدی اور زیورات بھی لے کر فرار ہوگئے،خاتون کیوں جارہی تھی،کہاں جارہی تھی،کیسے جارہی تھی یہ موضوع بحث نہیں موضوع بحث یہ ہے کہ شاہراہ عام پر جہاں عوام کے تحفظ کے لئے پولیس کی نفری متعین ہے جن کو ہزاروں روپے کی تنخواہ اسی لئے ملتی ہے کہ کسی مسافر کے جان ومال کے ساتھ کوئی لٹیرا کھیل نہ سکے،ان کے آفیسرز لاکھوں روپے کی تنخوا ہ سرکاری خزانے سے اس لئے وصول کرتے ہیں کہ کسی مجبور انسان کی مددکی جاسکے،ان کا دائرہ کار صرف اور صرف موٹروے ہے ان کی ڈیوٹی موٹروے کی جالی کے اندر عوام کے مال وجان کاتحفظ ہے مگر جب اس مجبور خاتون نے فون کیا تو اس وقت اگر ڈیوٹی پرموجود کسی شخص میں انسانی ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور جاکر اس مجبور خاتون کی دادرسی کرتا مگر جب ملک پر مسلط حکمرانوں میں ضمیرنام کی کوئی چیز نہ پائی جاتی ہو تو وہاں ایک پولیس کانسٹیبل میں ضمیر نام کا جوہر کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟قانون نافذکرنے والے اداروں اور حکمرانوں کو اس پر قوم سے معذرت کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کرنا چاہئے تھا مگر سی سی پی او لاہور نے تو زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ”یہ خاتون اس وقت رات کو گھرسے اکیلی کیوں نکلی تھی،اسے اگر سفرکرنا تھا تو جی ٹی روڈ سے کرلیتی،اسے معلوم ہوناچاہئے تھا کہ یہ فرانس نہیں پاکستان ہے“اس پرتماشہ یہ کہ حکومت کے وزراء اس درندہ صفت سی سی پی او کی طرفداری کرتے ہوئے اس کی صفائیاں پیش کرنے میں لگ گئے،اس خاتون نے پولیس کو فون کیا تھا کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ پیش آگیا ہے آپ میری مددکریں،یہاں یہ سوال تو بنتاہے کہ ڈاکووں کو کیسے پتہ چلا کہ یہاں خاتون کی گاڑی میں پٹرول ختم ہوا ہے اور گاڑی میں بچوں کے ساتھ اکیلی ہے؟اگراس سوال کاجواب صحیح معنوں میں تلاش کیا جائے توپولیس کے متعلق تمام مسائل چندلمحوں میں ختم جائیں گے، مجرموں تک پہنچنا جدید ٹیکنالوجی کے دورمیں کوئی مشکل کام نہیں،مجرم جو بھی ہیں جلد قانون کے شکنجے میں آجائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ انہیں سزابھی ہوگی یا نہیں؟آپ کو یاد ہو گاکہ 19جنوری 2019ء کو ساہیوال میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیاتھا جہاں خلیل نامی شخص کو اس کی بیوی مہرخلیل اور بیٹی اریبہ خلیل کو تین کم سن معصوم بچوں کے سامنے گولیوں سے چلنی کردیاگیا تھا،جس پر ہمارے ریاست مدینہ کے والی نے اعلان کیا تھا ”میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطرسے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزادی جائے گی بلکہ میں پنجاب میں پولیس کے پورے ڈھانچے کاجائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغازکروں گا“اس اعلان پر ملک کے کونے کونے سے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے گئے کہ اب خلیل کے معصوم بچوں کو نہ صرف انصاف ملے گا بلکہ پولیس کا ڈھانچہ ہی بدل جائے گا،قومی اسمبلی کے اندر کچھ وفاقی وزراء نے اس پر بڑی جذباتیں تقریریں کرکے عوام کو ایسی امیدیں دلائی تھیں کہ ہر شخص کی زبان پر ریاست مدینہ کے تصور کا بھوت سوار ہوگیا تھا،مگر پولیس کا ڈھانچہ کیا بدلتا ان سفاک مجرموں کو باعزت طورپر بری کردیاگیا اور خلیل مرحوم کے معصوم بچے انصاف کی راہ تکتے تکتے ترس کررہ گئے انصاف کیا ان بے چاروں کو ظلم کی چکی میں پستا ہوا چھوڑ دیاگیا،یہ بات بھی ہر شخص کے علم میں ہے کہ کوئٹہ میں مجید اچکزئی نامی ایک سرداراور رکن صوبائی اسمبلی نے تین سال قبل شراب کے نشے میں دھت ہوکربھرے چوک میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ٹریفک سارجنٹ کو بڑی بے دردی سے کچل ڈالا تھا جس کو میڈیا کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھا تھا،آج بھی وہ وڈیوسوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے چل رہی ہے مگر اس درندے سردار کو بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ نے باعزت طورپر بری کردیا ہے،اس کے یتیم بچے اور بچیاں روروکر انصاف کے لئے حکمرانوں کو دھائیاں دیتے ہوئے رل رہے ہیں مگر پاک دھرتی پر انہیں انصاف مہیا کرنے والاکوئی نظر نہیں آتا جو ان کی اشک شوئی کرسکے،ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹی معصوم بچیوں کے ساتھ تین چار دن سے تسلسل کے ساتھ درندگی کے لاتعداد واقعات رونما ہورہے ہیں،کراچی کی معصوم مروہ کو جس درندگی کے ساتھ ہوس کانشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا اور اس کی معصوم لاش کو جلاکرانسانیت کو سرِبازار نیلام کیاگیا،ڈیرہ غازی خان تونسہ شریف کی بستی لاشاری میں بھی دودرندوں نے گھرمیں گھس کر خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کانشانہ بناڈالا مگر نامزد ملزمان ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے،ریاست مدینہ کے دعویداروں نے ملک کو چوروں،ڈاکووں،لٹیروں اور بدمعاشوں کے حوالے کردیا ہے،لاہور اسلام آباد موٹروے اور اسلام شہر کے اندر ڈاکہ زنی کے واردات نے ثابت کردیا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے،ہر شخص کی اپنی بادشاہت قائم ہے،ہرڈاکواور لٹیرے نے اپنی ریاست قائم کی ہوئی ہے جو چاہتاہے کرتاہے،مدینہ کی ریاست میں تو نوجوان زیوارت سے لدی ہوئی خوبصورت لڑکی اکیلے یمن کا سفر کرتی تھی تو کسی لٹیرے کو آنکھ اُٹھاکر اس کی طرف بری نگاہ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،مگریہاں سربازار ماؤں کی عزتیں لٹ رہی ہیں،بچوں کو ریپ کا نشانہ بنایاجارہاہے،مگر حکمران بھنگ پی کر مدہوش ہیں انہیں اپنی ذمہ داری نبھانے کاکوئی احساس ہی نہیں بلکہ مظلوم کی دادرسی کے بجائے ان کا مذاق اُڑاتے ہوئے کوئی شرم ہی محسوس نہیں ہوتی۔عصمت دری جیسے سنگین اور دل ہلادینے والے واقعات میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویشناک ہے،چاہے وہ کراچی میں درندگی کاشکار بننے والی مروا ہو،یالاہور موٹروے پر پیش آنے والا دلخراش واقعہ ہو،یالاشاری تونسہ شریف کاشرمناک واقعہ ہو،یا سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں پیش آنے والے واقعات ہوں،تسلسل کے ساتھ رونماہونے والے درندگی کے ان واقعات کو روکنے کے لئے ضروری ہے اس قسم کے موذی انسان نما درندوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایاجائے،بلکہ ان کو اسلامی قانون کے مطابق سنگسار کیاجائے،اسلام نے اتنی سخت سزائیں اس لئے مقررکی ہیں تاکہ معاشرے کا امن برقراررہے،شرپسندوں کو عبرتناک سزاسے ہی جرم کوروکا جاسکتا ہے، اس کے لئے ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئی درندگی کوروکنے کے لئے سخت سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے ایک دودرندوں کو لٹکانے سے ہی ان واقعات کا خاتمہ ہوجائے گامگر حکمرانوں کو اپنے ذاتی مسائل سے فرصت ملے گی تو تب وہ کوئی قانون سازی کریں گے،جب مخصوص طبقات کے لئے قانون سازی کی ضرورت پڑتی ہے تو راتوں رات قانون بن جاتے ہیں مگر روزانہ معصوم بچیاں درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں لیکن ان کے لئے قانون سازی کوہِ قاف کی پریوں کو ڈھونڈنے سے بھی زیادہ مشکل لگتی ہے۔