فرقہ واریت ایک ایسی وبا ہے جو ملک وقوم کوبڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے کیونکہ فرقہ واریت میں ہرفرقہ دوسرے فرقہ کو ختم کرنے پر تلاہواہوتا ہے،فرقہ واریت میں ہر فرقہ یہ تصور کرلیتا ہے کہ اسے اپنے عقائد یاعزائم دوسروں پر بزور بازو اور بہ جبر مسلط کرنے کا حق ہے اور وہ اس میں پوری طاقت صرف کردیتا ہے۔ اپنے مقاصدکے حصول کے لئے تشدداور قتل وغارت گری سے بھی دریغ نہیں کرتا۔معمولی اور چھوٹی نوعیت کی باتو ں کو موضوع سخن بناکر نہایت اہمیت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اورانہی باتوں کو دوسروں سے منوانے کا اندازاپنایا جاتا ہے۔اگر ان احمقوں کو اچھی بات بتائی جاتی ہے تونہیں مانتے،ان کے دعوے کی کمزوری بیان کی جاتی ہے مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور حق کا جواب لایعنی گفتگوسے اور برابھلا کہہ کر دیتے ہیں۔ان پر قرآن کریم کا یہ ارشادصادق آتاہے۔ اگر تم ان کو راہِ راست کی طرف بلاؤ تو (تمہاری ایک) نہ سنیں اور (بظاہر)وہ تم کو ایسا دکھائی دیتے ہیں کہ (گویا) وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں (اے پیغمبر) درگزر (کاشیوہ) اختیار کرو اور (لوگوں سے)نیک کام (کرنے) کوکہواور جاہلوں سے کنارہ کش رہو۔ (الاعراف ۴۲)دوسری جگہ ارشاد ہے: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت کرو۔(آل عمران آیت ۳۰۱)اس آیت میں فرقہ واریت سے بچنے کاسب سے آسان اور سب سے عمدہ طریقہ بھی بتادیا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جب انسان اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرلے گا اور اس کے ہر امر ونہی کو دل وجان سے تسلیم کرلے گاتو اختلاف ہی باقی نہ رہے گا اور نہ بات بات پر مخالفت کی نوبت آئے گی۔ایک اور جگہ ارشاد ہے:اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے سواسی کی اتباع کرو۔اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس (خداکے)راستے سے بھٹکادیں گے۔(الانعام آیت ۳۵۱)اس آیت سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ تفرقہ بازی اس وقت پیداہوتی ہے جب اللہ کے راستے کو چھوڑدیاجاتا ہے۔ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور فرقے فرقے ہوگئے (اے پیغمبر) تجھے کسی بات میں ان سے لگاؤنہیں (الانعام آیت ۹۵۱)اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرستوں کا آنحضرت ﷺاور آپ کے دین سے دورکا بھی کوئی واسطہ نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو ”اے کافر“کہا تو کفر ان دونوں میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹے گا اگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا جیسا کہ اس نے کہا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا،حضرت ابوبکرصدیق ؓاور دیگر صحابہؓ واہل بیت ؓیقیناایمان کے اعلی مقام پر فائز ہیں انہیں برابھلا کہنے والے ایمان توکیا انسانیت سے بھی کوسوں دور گمراہی کے لے لق ودق صحراکے بھٹکے ہوئے راہی ہیں، فرقہ واریت کے پھیلانے میں حکومتوں کا بہت بڑ ادخل ہے،برصغیر پاک وہند میں فرقہ واریت پھیلانے میں انگریز حکمرانوں نے بنیادی کردار اداکیا۔لڑاؤاور حکومت کرو، ان کی پالیسی تھی،اسی پالیسی کے تحت انہوں نے مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کو تقسیم کیا۔بدقسمتی سے بہت سے مقررین،واعظین اورذاکرین ان کو ایسے مل گئے جن کی بدولت ان کا کام بڑے وسیع پیمانے پر پھیل گیا۔حالانکہ مسائل میں اختلاف تو شروع سے ہے صحابہ کرامؓ کے دورسے بہت سارے مسائل میں اختلاف چلاآرہا ہے لیکن فرقہ واریت کا نام ونشان تک کہیں نہیں ملتا۔ان کے بعد ائمہ مجتہدین کا دورآتاہے جنھوں نے بے شمار مسائل کااستنباط کیا لیکن اس کے باجود ان ائمہ مجتہدین میں ایسااختلاف کہیں بھی نظر نہیں آتا۔مسائل میں اختلاف الگ چیز ہے جس کو حدیث کی روسے رحمت قراردیاگیا ہے،مگر فرقہ واریت کا ناسور علیحدہ روگ ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا بہت سے مسائل میں اختلاف ہے،لیکن باوجود اس کے جب امام شافعیؒ بغدادتشریف لاتے ہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒکے مزار کے پاس ان کی مسجدمیں نماز اداکرتے ہیں تو دوران نماز اپنامشہور مسلک ”رفع یدین“ ترک کرتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اس قبر والے سے مجھے حیاء آئی کہ ان کی مسجد میں ان کے مسلک کی خلاف ورزی کروں۔مسلک دیوبند کے عظیم مرشد،جمعیت علماء اسلام کے امیر اول، امام الاولیاء حضرت مولانا احمدعلی لاہوری ؒکا واقعہ مشہور ہے کہ اہل حدیث مسلک کے عالم دین حضرت مولانا سید محمدداؤد غزنویؒ نے ایک دفعہ اطلاع بھجوائی کہ فلاں روز وہ اپنے رفقاء کے ساتھ ملاقات کے لئے شیرانوالہ گیٹ لاہور تشریف لائیں گے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ نے اپنے مریدین تلامذہ اور عقیدت مندوں کو حکم فرمایا کہ مولانا سید داؤد غزنویؒ صاحب اور ان کے ساتھی جس نماز میں ہمارے ساتھ شامل ہوں تو آپ سب لوگ ان کے مسلک کے احترام میں رفع یدین کریں اور آمین بالجھر کہیں تاکہ ہمارے مہمانوں کو یہاں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہو۔جبکہ مولانا سید داؤد غزنویؒ پہلے ہی اپنے ساتھیوں کو تاکید فرما چکے تھے کہ شیرانوالہ میں میرے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے آپ لوگ نہ رفع یدین کریں اور نہ اونچی آواز سے آمین کہیں کیونکہ مولانا احمد علی حنفی المسلک ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس رواداری اور احترام مسلک کا یہ عجیب منظر چشم فلک نے پاکستان کی سرزمین پر پہلی دفعہ دیکھا کہ حنفی مسلک کے نمازی رفع یدین کر رہے ہیں اور آمین بلند آواز سے پڑھ رہے ہیں جبکہ اہل حدیث مہمانوں نے اپنے میزبانوں کے اکرام میں نہ رفع یدین کیا نہ آمین بالجھر پڑھی۔مولانااحمدعلی لاہوریؒ مسلک دیوبند میں ایک عظیم مقتداوپیشواکی حیثیت رکھتے ہیں،حضرت شیخ الہندنے جب آزادی وطن کے لئے پہلاقاعدہ منصوبہ بنایا اور مولاناعبیداللہ سندھی کی ذمے تنظیمی کام لگایاتو مولاناسندھی کے ساتھ جمعیت الانصارکے ابتدائی ارکان میں ایک مولانا احمدعلی لاہوری بھی تھے، قیام پاکستان کے بعد جب جمعیت علماء اسلام کاوجود عمل میں لایاگیا تو حضرت لاہوری اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔مولانااحمدعلی لاہوری اور مولانا سید محمدداؤدغزنوی کے اس عمل سے نہ دیوبندی مسلک میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک کی توہین ہوئی۔دونوں بزرگوں نے اکرام واحترام کی بہت بڑی مثال قائم کی لیکن افسوس کہ آج نہ مولاناغزنوی ؒ کے پیرکاروں میں وہ جذبہ موجود ہے،نہ حضرت لاہوری ؒ کے نام لیوا اس کو مشعل راہ بناسکے۔
؎ نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ آیاز میں…… فرقہ واریت کا تعلق مدارس سے نہیں بلکہ اس کا بنیادی محرک پیشہ ورخطباء،مقررین اور جاہل واعظین وذاکرین ہیں جنھوں نے اس پیشے کو ذریعہ معاش بنارکھا ہے۔اور جن کے پاس چند رٹی رٹائی تقریروں اورزہریلے جملوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں،یہ پیشہ ور واعظین وذاکرین نذرانوں اور بھاری رقوم کے عوض امت مسلمہ کو انہی چند جملہ بازیوں میں الجھاکر ان کے دل ودماغ کو مخالفین کے خلاف بھڑکادیتے ہیں اورکچھ لوگ فتوی فروشی کا لنڈابازار لگاکر نفرت پھیلا تے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سیکولر حکمرانوں نے اس فرقہ واریت کو مزید پھیلا کر امت مسلمہ کو بے شمار ٹکڑوں میں بانٹ دیا،اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی لوگ کئی جماعتوں میں منقسم ہوگئے اور سیکولر لوگوں کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق حکمرانی کرنے میں سہولت مل گئی،دوسرافائدہ یہ ہوا کہ مذہبی لوگوں اور جماعتوں کو بدنام کرنے میں آسانی ہوگئی کہ یہ لوگ تنگ نظر ہیں یہ اپنے سواکسی اور کو برداشت نہیں کرتے۔تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ ان کو اپنے بیرونی آقاؤں کے سامنے مذہبی طبقات کی کمزوریوں کو پیش کرنا آسان ہوگیا کہ یہ لوگ بات بات پر لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں،اور جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو غیروں کو کیسے برداشت کرسکیں گے؟ لہذاہمیں سپوٹ کرو تاکہ ہم ان کو طاقت ورہونے سے بچا سکیں۔ا ن کے علاوہ اور بہت سارے فوائد ہیں جوہمارے سیکولر حکمرانوں نے بڑی عیاری سے سمیٹے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمرانہ ادوار میں جہاں ملک میں اور بہت سے جرائم سر اُٹھاتے ہیں وہیں فرقہ پرست تنظیمیں بھی آمریت کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔جنرل ضیاء الحق نے لسانی اور علاقائی بنیادوں پر کئی پارٹیوں کو پیداکیا تو مذہبی جماعتوں میں فرقہ پرست تنظیموں پر بھی موصوف نے بھرپور توجہ دی اور انہیں پھلنے پھولنے کا خوب موقع فراہم کیا۔:ضیاء الحق کے دورمیں فرقہ وارانہ خطوط پر کام کے متعلق مولانا امیرحسین گیلانی ؒکی گواہی کافی ہے،تب مولانا امیر حسین گیلانی جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر اورایم آرڈی پنجاب کے روح رواں تھے،سیاسی سمجھ بوجھ،معاملہ فہمی،سیاسی کام کے پیچ وخم کا خوب ادراک رکھتے تھے۔انہیں اوکاڑہ کے انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے ملاقات کے لئے بلایا اور دوران گفتگوبات اس طرف نکلی تو اس افسرنے کہا مولانا!میں سنی العقیدہ مسلمان ہوں لیکن اہل تشیع کے عقائد اوران کے پروگرام جان کر میراخون کھولتا ہے۔آپ علماء خوامخواہ ایم آرڈی میں اپنی توانیاں صرف کررہے ہیں،یہ توانیاں اس عظیم فتنے کی سرکوبی کے لئے لگائیے۔دورحاضرمیں یہی دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔مولانا گیلانی ایک لمحہ گزرنے سے پہلے ہی راز پاگئے کہ تاریں کہاں سے ہل رہی ہیں اور یہ کس مربوط پالیسی کے نتیجے میں کیاجارہاہے وگرنہ یہ ذہنیت رکھنے والے افسران کبھی ان عہدوں پر فائزنہیں کئے جاتے۔مولاناگیلانی مرحوم اپنی سیاسی سوج بوجھ کی وجہ سے اس بھیدکو سمجھ گئے مگر بے شمار علماء اس دلدل میں ایسے الجھ گئے اور انہوں نے اِن آمرانہ عزائم کی ایسی آبیاری کی جس سے ملک میں قتل وغارت کی مستقل بنیاد پڑگئی۔ نیشنل ایکشن پلان میں تمام فرقہ پرست تنظیموں کو جڑوں سے ختم کرنے کا فیصلہ کیاگیا تھامگر شاید ارباب اقتدار کو ان کی ابھی اور ضرورت ہے،اپنی ناکامیوں پرپردہ ڈالنا ان کی مجبوری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد کچھ عرصہ کے لئے فرقہ پرست خائف اور دبے ہوئے تھے، مگر رفتہ رفتہ فرقہ پرست تنظیمیں پہلے سے زیادہ منظم ہورہی ہیں بلکہ غیر اعلانیہ ڈکٹیٹر شپ کے کٹھ پتلی حکمران فرقہ پرستوں کی مکمل سرپرستی کرہے ہیں، حکمران بذات خو دان فرقہ پرستوں کوشہ دے کران کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،انہیں سہولیات فراہم کرتے ہیں،ان کی پشت پناہی کرتے ہیں،ان کو تپکیاں دیتے ہیں ان کو اسٹیجوں پرلاکر ان سے دل آزارتقریریں کرواتے ہیں۔کرپشن کے خلاف واویلاکرنے والے خود اس بدترین قسم کے کرپشن میں ملوث ہیں۔اپنے ذاتی یاپارٹی مفادات کے لئے زہریلے سانپوں کو پالنا کونسی عقلمندی ہے مگریہاں ہمیشہ اس قسم کے غلط فیصلے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے آج پورا معاشرہ پریشان ہے،ربیع الاو ل اور محرم کے مہینوں میں کئی دنوں تک پوراملک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلارہتاہے۔ لمحوں کی خطاؤں کی سزاپھر صدیوں پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے، ملک میں چند دن قبل تک تمام مسالک میں ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضاپائی جاتی تھی۔مگر اس فضاکوسبوتاژکرنے کے لئے خفیہ اشاروں پر چندفرقہ پرست سرگرم ہوگئے جن کا مقصدملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا تھا، اسلام آباد اور کراچی کے واقعات نے نفرت وتعصب،اختلاف وافتراق اور گستاخیوں کی انتہا کردی، لیکن مٹھی بھر چند شرپسند پوری قوم کو دھوکہ نہیں دے سکیں گے،اب قوم ان کی اصلیت جان چکی ہے کہ یہ کس کے مہرے ہیں اور کس کے اشاروں پر ناچ کر امت مسلمہ کی وحدت واجتماعیت کو پارہ پارہ کرناچاہتے ہیں، ہمارے علماء نے انتہائی دانشمندی اور بالغ نظری کا ثبوت پیش کیا تین دن مسلسل کراچی میں دیوبندی،بریلوی اور اہلحدیث علماء کی طرف سے لاکھوں افراد پرمشتمل عظمت صحابہ ؓ ریلیاں منعقد ہوئیں،ملک کے دیگرحصوں میں بڑے بڑے اجتماعات ہوئے جہاں لاکھوں افراد نے صحابہ کرامؓ کے خلاف ہرزہ سرائی پر پرامن طریقے سے اپنااحتجاج ریکارڈ کرواکر حکومت کومتنبہ کیا کہ صحابہ کرام ؓ کی گستاخی کرنے والوں، ملک میں انتشار کی آگ بھڑکانے والوں اور قانون کوہاتھ میں لینے والوں کوروکنا اور انہیں قانون کے شکنجے میں لاناعوام کی نہیں بلکہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
فرقہ واریت معاشرے کا ایک ناسورہے (حافظ مومن خان عثمانی )
You might also like