حجاب ایک رومانی تصور – ڈاکٹر بشری تسنیم

0

انسان کو الله رب العزت نے دریافت، جستجو، تلاش کی فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے… اور اس فطرت کے مطابق ہی دنیا بناکر اس کے سامنے رکھ دی ہے. کائنات کے راز تلاش کرنے کے سارے وسائل اسے مہیا کر دئیے… عقل و فہم کے ساتھ دل کی دولت، بصارت کے ساتھ بصیرت عطا کی اور ان کی بدولت تسخیرِ کائنات کی کھلی اجازت دے دی. اختیار و انتخاب بھی ودیعت کردیا. اس میں جو پر کشش چیز ہے، وہ کسی چھپے راز کو دریافت کرنا ہے اور اس اصل تک پہنچنا ہے جو پوشیدہ رکھی گئی ہے. اس کومسخر کرنے کے لیے اختیار و وسائل کی حد بندی بھی کردی کہ "لاتنفذون الا بسلطان” سخر السموات والارض کی مہم ایسی ہے کہ جب تک کوئی پوشیدہ راز منظرِ عام پر نہ آجائے، لگن، کوشش، محنت کا عنصر نمایاں رہتا ہے اور جب تک حجاب رہتا ہے کشش قائم رہتی ہے.

مؤمن کی زندگی تو حجاب در حجاب کی کشش سے نکل ہی نہیں سکتی. ” کل یومِ هو فی شأن” ہر صبح ہر شام، ہر پہر، ہر موسم ہر آن اس کو یکے بعد دیگرے پس حجاب نیا جلوہ دیکھنا ہوتا ہے… ہر لمحہ اس کے سامنے نئی سوچ لے کر آتا ہے کہ اس کے رب نے حکمت کے پردے میں اس کے لیے کیا چھپا رکھا ہے. کچھ نہ کچھ حکمت ہوگی، ضرور ہوگی، وہ حکمت کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے یہ حجاب ہی دراصل زندگی میں ایک کشش اور thrill کا باعث ہے… انسان جب حجابوں سے نکل آتا ہے تو پژمردہ ہو جاتا ہے. جب حجاب اٹھ جاتا ہے تو جستجو کی ترنگ ختم ہوجاتی ہے… جب کوئی قائل ہوجاتا ہے تو دلائل دینے والا بھی خاموش ہوجاتا ہے کہ اس کا مطلب پورا ہوگیا. کائنات کا ہر باسی اسی لیے زندہ ہے کہ زندگی کے لیے کچھ دریافت کرنا باقی ہے. وہ رزق جو حجاب میں ہے، اسے تلاش کرنا ہے. جب رزق وافر میسر ہوجائے تو بھی ” هل من مزید” کا حجاب شوق و جستجو باقی رکھتا ہے.

بیمار کو اپنی کھوئی ہوئی صحت کی تلاش معالج کے پاس لے جانے پہ مجبور کرتی ہے. ٹیسٹ پہ ٹیسٹ کراتا انسان اپنی بیماری اور صحتِ کاملہ کے درمیان آئے حجاب کو ہٹانے کا ذریعہ تلاش کرتا ہے. دلہن کے رخ کا پہلا رنگین حجاب اٹھانا ہو یا کسی عزیز از جاں کی میت کے آخری دیدار کی خاطر چہرے سے بے رنگ کفن کا حجاب ہٹانا ہو، خوشی اور غم دونوں کی بے کلی کو قرار آجانا ہے. ملن اور جدائی کی منزل کا یقین، مزاج میں ٹھہراؤ لے آتا ہے.

حجاب ایک فلسفہ زندگی ہے. یہ آسمان سے پرے اور تحت الثری تک زندگی کو پر کشش بنائے ہوئے ہے اور زمین کے اوپر آسمان کے نیچے بھی انسانوں کی زندگی اسی جستجو سے عبارت ہے. زندہ ہے تو تقدیر کا حجاب ہے، کسی کو موت ائی تو اس کے بارے میں زندوں کے لیے حجاب ہی حجاب ہے اور مردے کے لیے زندوں کی دنیا پس حجاب ہے.

کسی پھل کے ایک بیج میں ذائقےاور رنگ کے کتنی کثرت کے حجاب ہیں. ان کی دریافت کی طلب سے ہی باغبان کی زندگی عبارت ہے. ایک مخلوط پانی کے ناپاک قطرے کے حجاب میں نیکی و بدی لیے ایک مکمل شخصیت موجود ہے. اس کی دریافت ہی سے والدین کی پوری زندگی جڑی ہوئی ہے.

ایک مربوط نظام زندگی کی ساری کڑیاں کسی نہ کسی دریافت کے ساتھ مربوط ہیں. ایک پہچان کے بعد اگلی دریافت کی تلاش منتظر رہتی ہے.گویا پیدائش سے موت تک کا ہر مرحلہ اک نئی دریافت کا تقاضا لیے کھڑا ہوتا ہے.

کچھ دریافتیں حجاب اٹھنے پہ بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں. منافقت کا پردہ چاک ہوجائے تو دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے مر جاتے ہیں. جب آنکھوں پہ موت کا پردہ پڑ جائے گا تو اصل میں آنکھوں سے بہت سے پردے اٹھ جائیں گے. ثواب و عذاب کی نئی دنیا سامنے ہوگی. زندگی میں ہی عذاب و ثواب کے جنت و دوزخ کے حسین و ہولناک منظر سے حجاب اٹھ جائیں تو ایمان کا راستہ نصیب ہوجاتا ہے…

حجاب کی ایک قسم زندگی کو آسانی عطا کرتی ہے.

وہ حجاب جو انسانوں کے درمیان ہو تو زندگی پر کشش اور خوب صورت رہتی ہے. یہ حجابٰ رشتوں میں لحاظ ہے. عمر، مرتبے، رشتوں یا درجے کا لحاظ ہی ہوتاہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے سے روکتا ہے. ایک حجاب قائم رہتا ہے. درمیان میں جو اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا، آنکھوں کا پانی مرنے نہیں دیتا. زبان کو بے قابو ہونے سے روکتا ہے.

انسانوں کے درمیان نیتوں اور دل کے ارادوں کا حجاب میں رہنا ایک نعمت ہے. گھر اور گھر کے کمروں کے درودیوار کا حجاب بهی نعمت عظمیٰ ہے،اور وہ حجاب جو اللہ نے اپنے بندوں کے عیبوں پہ ڈال رکھا ہے، وہ حجاب کتنی بڑی نعمت ہے. نیتوں کی حقیقت اور دل کا حال ایک دوسرے سے مخفی رہنے کی وجہ سے باہمی تعلقات کی بحالی قائم ہے. پرائیویسی کا تصور حقیقت میں دوسروں سے پس پردہ رہنا ہے. کسی بھی عمل کو راز میں رکھنے کی تمنا حجاب ہی ہے. محبوب کے حسن کا کمال دراصل اس کا حجاب میں رہنا ہے. جب حسن و جمال بے نقاب ہوا تو وہ جستجوئے جلوہ جاناں ختم ہوگئی. معلوم یہ ہوا کہ جستجوئے رخ جاناں ہی رومانی احساس ہے. گویا کہ زندگی کے حسن کا کمال دراصل حجاب کا جمال ہے ۔

حجاب ایک رویہ ہے، ایک تہذیب ہے. پورا فلسفہ زندگی ہے جو سوچ سے لے کر عمل تک اور جسم سے روح تک کلام کرتا ہے.

جسم پہ کپڑے کا حجاب ہے تو روح پہ جسم کا حجاب ہے. مہم جوئی یہ ہے کہ دریافت روح کی کرنا ہے جو انسان کی اصل ہے. جو روح کے اسرار تک پہنچ گیا، وہ اپنے مطلوب حقیقی تک پہنچ جائے گا. (من عرف نفسه عرف ربه) اس اسرار کی کامیاب دریافت کا تعجب خیز معاملہ یہ ہے کہ جسم بے حجاب نہ ہو. اگر جسم بے حجاب ہوا تو روح کا عقدہ نہیں کھلے گا اور انسان اپنی مہم جوئی کو غلط سنگ میل کے حوالے کر دے گا. ستر و حجاب کے اسی لیے اللہ رب الخالق نے اصول وضع کردیے ہیں. ان کی پابندی ہی انسان کو انسان کا روپ دیتی ہے.

ضروری یہ ہے کہ جستجو درست چیز کی ہو اور حاصل کرنے کا طریقہ بھی غلط نہ ہو. جو انسان یہ ہی طے نہ کر پائے کہ اسے کس کی تلاش کرنی ہے اس کو ظاہری چیزوں کی جستجو ظاہری پردے اٹھانے پہ مجبور کرتی ہے ، اور روح کی گہرائیوں اور مطلوب تک پہنچنے کے لیے جس احساسِ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ نامکمل ہو تو جسم کی بے حجابی پہ ہی نگاہ ٹھہر جاتی ہے.

روح کی اصل یا خودی کو دریافت کرنے کا پہلا مرحلہ ہی ناکام ہوگیا تو اگلے مرحلے میں پہنچنے کی باری کا موقع بھی ختم ہو جاتا ہے. خودی کے اسرار، علم کے سمندر کی گہرائیوں میں جاکر کھوجنے پڑتے ہیں.

محبت ایک غیر مادی جذبہ ہے. مادی جسم کی دریافت اس کا عنوان نہیں ہے. روح تک پہنچنے کے لیے مادی جسم کے پردے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی. روحانیت جیسی مہم سر کرنے کے مرحلے نٹ کھت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی. جس مالک کائنات نے حجابوں کی یہ دنیا انسان کے حوالے کی ہے، اس نے اس مہم کو سر کرنے کا جو انعام رکھا ہے وہ بھی حجابوں میں ہے. منعم حقیقی خود بھی حجاب میں ہے.

اور اس کا حجاب میں رہنا ہی ایک کشش کا باعث ہے. اس تک پہنچنے کے لیے محبت کے ساتھ جستجو، کوشش، محنت ہی مومن کے دل کا رومانس ہے… انسان کے دل میں جس چیز کے حصول کی تمنا خوشی کا ارتعاش پیدا کرے اور تمنا بےتاب و بے قرار رکھے، کسی پل چین نہ آئے. ہر طرف اسی کا جلوہ نظر آئے یہی تو رومانی احساس ہے… پردے اور حجاب نے ہی تو روح کی بے کلی بڑها رکھی ہے. یہ حجاب ہی تو لہو کو گرمائے رکھتا ہے کہ کب جلوہ جاناں نظر افروز ہوگا. پردوں میں چھپی جنتوں سے رومانی احساس وابستہ کرنے والے اپنی زندگی میں حجاب کلچر سے وابستہ رہتے ہیں. وہ رشتوں میں ہو تو مٹھاس ہے. معاملات میں ہو تو سکون و عافیت ہے. جسم کا حجاب ہو تو عزت و اکرام ہے.

اور جو اپنے محبوب حقیقی کے” وجه کریم” اور اپنی آنکھوں کے درمیان حجاب اٹھنے کے انتظار میں ہے، اس کو تو اس حسین لمحے کی قیمت اپنی زندگی، جان، مال کی شکل میں چکانا ہی ہوگی، کہ محبوب کے جمال سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے پہلے خود کہیں حجابوں کی پابندی کرنا ہوگی اور کہیں بہت سے أسرار کے حجاب اٹھانے ہوں گے. حجاب کب کہاں قائم رکھنا ہے، کب کہاں حجاب کے أسرار کی کھوج لگانی ہے؟ نیکی اور بدی کو اختیار و انتخاب کی آزادی کے ساتھ یہی زندگی کا امتحان ہے اور اسی امتحان میں کامیابی کا انعام دیدار الہی ہے، بندہء مومن کے ہر سانس کی تگ و دو، شوق و جستجو، عشق و محبت کی ابتدا و انتہا رب الواحد الاحد کے دیدار ہی سے وابستہ ہے.

یا رب العزت مالک یوم الدین! ہمارے عیبوں پہ حجاب قائم رکھیے گا. ہماری نظروں اور اپنےوجه کریم کے درمیان سے حجاب اٹھا دیجیے گا، بے شک آپ رؤوف بالعباد ہیں.

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.