گزشتہ دنوں مختلف اخبارات کے شہ سرخیوں میں یہ خبر نمایاں تھی کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بڑا قدم اُٹھاتے ہوئے سودی نظام کے خاتمے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔ جس کے سر براہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم ہوں گے۔ اراکین نے اظہار خیال کرتے کہا ہے کہ سودی نظام اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اعلان جنگ ہے۔ کمیٹی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک حکام سے قانون سازی کے حوالے سے مشاورت کرے گی۔ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر ارشد محمودکا کہنا تھا کہ دو سال انتظار نہیں کیا جاسکتا، گورنمنٹ ڈیپازٹس اسلامی بینکنگ کے تحت کیئے جائیں۔ انھوں کے مزید کہا کہ شریعہ کمپلائینس کے ذریعے علماء کے فتوؤں سے اسلامک بینکنگ نظام چل رہاہے اور اب تک 10سے 12فیصد کامیابی ملی ہے۔ اس خبر کے حوالے سے میں نے خود شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کے آفس سے رابطہ کیا تو اس کے سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ اس حوالے سے ابھی تک حکومت نے حضرت صاحب سے رابطہ نہیں کیا، اس لئے اس خبر کی نہ تصدیق اور نہ تردید کی جا سکتی ہے۔
بہر حال دیر آید درست آید۔ اللہ کریں کہ ایسا ہی ہو جائے۔خبر پڑھ کر دلی خوشی ہوئی کہ وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں اسلامی بینکاری کا رجحان روز بروزبڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف نئے اسلامی بینک قائم ہورہے ہیں بلکہ پہلے سے موجود کنویشنل بینک بھی اپنے ہاں اسلامی بینکاری کے شعبے (Departments)قائم کررہے ہیں۔ اس تبدیلی سے نہ صرف اس بات کی حقانیت ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام وہ واحد دینِ حق ہے جو چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی پیش آنے والے نت نئے مسائل کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ حوصلہ افزاپہلوبھی سامنے آتا ہے کہ اب مسلمان نے اپنی عملی زندگی کو صرف مسجد ومحراب تک محددو رکھنے کے بجائے زندگی کے دیگر شعبوں خصوصاً مالی معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
علماء کرام کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اس سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور اس کے لئے جدوجہد بھی جاری رکھی۔ الحمداللہ جدید اسلامی بینکاری نظام کے مؤجد شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے پاکستان میں سودی بینکاری نظام کے متبادل اسلامی بینکاری نظام کو متعارف کرواکر علماء کرام کے محنت کو عملی جا مہ پہنایا۔ دنیائے عالم جس بینکنگ نظام کا قیدی ہے اس نظام کی عمارت سود جیسے لعنت اور اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ پر کھڑی ہے۔ بحثیت مسلمان ہم کو اللہ اور رسول ﷺ سے سود سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسکی قباحت قرآن وحدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ عظیم فریضہ اور کارنامہ سر انجام دیا کہ دنیا ئے عالم کو بتایا کہ اسلام ایک مکمل نظام اور ضابطہ حیات ہے، اسمیں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ اور ماشاء اللہ ایسا متبادل اسلامی بینکاری نظام پیش کیا کہ کافر ممالک بھی اب اسلامی بینکنگ کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ بعض ممالک نے اسلامی بینکاری نظام کے فوائد کو دیکھتے ہوئے اپنے ممالک میں رائج بھی کیئے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ ”گھر کی مرغی دال برابر“ ہمارے ملک پاکستان میں مکمل طور پر اسلامی بینکاری نظام ابھی تک قائم نہیں کیا گیا۔ اور بعض ناسمجھ لوگوں نے تو ما ضی میں یہ اسٹیٹمنٹس بھی دیئے تھے کہ اسلامی بینکاری نظام اچھا ہے مگر ہمارا ملک سودی نظام کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہ ایسی بات ہے کہ گڑ میٹھا ہے اور ابھی تک چکھا نہیں ہے، کہ گڑ کی مٹھاس کیسی ہے۔ یہ تو چکھ کر پتہ چلے گا،نہ صرف منہ کے باتوں پر اندازہ ہوتا ہے؟ ماشاء اللہ علماء کرام نے ایسا سیٹ اپ اسلامی بینکاری کا بنایا ہے کہ نہ صرف سودی نظام کا متبادل ہے بلکہ اس سے کئی گنا ذیادہ فائدہ منہ بھی ہے۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے تصانیف اور تقاریر میں یہ بات فرما ئی ہے کہ جب سودی کی حرمت کی بات چلتی ہے تو ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کاروباری زندگی کا سارا نظام بینکوں کے ذریعے چل رہا ہے اور بینکوں کا سارا کاروبار سود پر مشتمل ہے، لہذا اگر سود کے خلاف قانون قرار دیا جائے تو بینک کس طرح چل سکیں گے؟ تو اس سوال کے جواب کے لیئے آپ مفصل کتب بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں مگر یہاں مختصر اً یہ بتانا مقصود ہے کہ بلا سود بینکاری کا ڈھانچہ کن بنیادوں پر استوار ہے اور اس کے اساسی اُصول کیا ہیں؟۔ عصر حاضر میں بینکوں کے کاروبار کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں سے رقمیں جمع کرکے تاجروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو سود پر قرض دیتے ہیں۔ اسلام بینکاری نظام میں بینکوں کا یہ کاروبار سود کی بجائے ‘شرکت’ اور’مضاربت'(Profit-sharing) کے اُصول پر چلتا ہے۔ اس کی مختصر اً تفصیل یوں ہے کہ عوام کی طرف سے جو رقمیں بنک میں جمع ہوتی ہے وہ دو قسموں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ایک عندالطلب کھاتے (Current Account) کی رقوم دوسرے مدّمضاربت (Fixed Deposit)کی سیونگ اکا ؤنٹ غیر سودی بینکاری میں عندالطلب کے اندر شامل ہوتے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں تمام رقوم بینک کے پاس فقہی نقطہ ٗ نظر سے قرض ہوں گی، کھاتہ دار ہر وقت بذریعہ چیک ان کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے، لیکن اس کھاتے پر کوئی منافع کھاتہ دار کو نہیں ملتا۔ موجودہ کنونشنل نظام بینکاری میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ پر عام طور پرکھاتہ دار کو کوئی نفع نہیں دیا جاتا۔ البتہ مضاربت کے اکاؤنٹ ہولڈرز ایک معین مدت کے لیئے جو تین ماہ سے ایک سال تک ہوسکتی ہے، یقینا رقم رکھوالیتے ہیں اور پھر اس رقم سے بنک جو منافع حاصل کر تا ہے۔ اس میں مناسب (proportionate)طور پر شریک ہوتاہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ اور مضاربت اکاؤنٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقوم میں سے ایک حصہ بینک تو مدّ محفوظ (Reserve)کے طور پر رکھ کر باقی سرمایہ کارورباری افراد کو شرکت یا مضاربت کے اُصول پر دیتے ہے، یعنی ان سے یہ طے کرتا ہے کہ وہ بینک کی دی ہوئی رقم سے جو نفع حاصل کریں گے اس کا کچھ مخصوص حصہ بینک کو دیں گے۔ چنانچہ یہ کاروباری افراد اس سرمائے کو صنعت یا تجارت میں لگا کر جو نفع حاصل کرتے ہیں، بینک اس نفع میں شریک ہوتا ہے اور نفع کا جو مناسب بھی باہمی رضامندی سے طے پائے، مثلا ً دس فیصد یا پندرہ فیصد، نفع کا اتنا حصہ بینک کو اصل رقم کے ساتھ واپس کرلیتے ہیں، اور بینک یہ منافع اپنے حصہ داروں (Shareholders)اور کھاتہ داروں (Depasitors)کے درمیان طے شدہ فیصد حصوں کی صورت میں تقسیم کرتے ہیں۔
یہ طریق کا ر منصفانہ تقسیم دولت میں بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ موجودہ سودی نظام میں کھاتہ داروں کو سود کی جو رقم ملتی ہے وہ اس منافع کے مقابلے میں بہت معمولی ہوتی ہے جو سرمایہ دار نے ان کی رقموں سے حاصل کیا۔ اس کے برعکس اسلامی بینکاری نظام میں کھاتہ دار براہ راست کا روبار میں شریک ہونے کی بنا ء پر ذیادہ مقدار میں نفع کے مستحق ہوتے ہیں۔ اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹنے کے بجائے ذیادہ وسیع دائرے میں گردش کرتی رہتی ہیں۔
اسلامی بینکاری نظام کے بنیاد کا یہ انتہائی مختصر خاکہ تھا اور یہی اسلامی بینکنگ نظام کا بینادی مقصد ہے کہ معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہوں۔ پاکستان میں 90کی دہائی کے آخر میں باقاعدہ اسلامی بینکوں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔ روایتی بینکاری کے مضبوط نظام میں اسلامی بینکاری کو اگر چہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن غیر مسلم ممالک میں بھی اسلامی بینکاری نے مقبولیت حاصل کی۔ کچھ سال قبل برطانیہ کے وزیر اعظم نے بیان دیا تھا کہ لندن کو اسلامی بینکاری کا سب سے بڑا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے اپنے لوگوں کو ابھی تک اس بہترین کاوش کی قدر معلوم نہیں ہیں اور صرف سنی سنائی باتوں کے پیچھے روانہ ہیں۔ اور بڑا المیہ یہ ہے کہ حقائق کی تہہ میں جاکر اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے سر سری نظر سے اس کے مطالعے کو کافی سمجھتے ہیں اور اگر کسی واقعاتی نظر رکھنے والے انسا ن سے ہمارا نقطہ نظر مختلف ہوجائے تو اسے ہدف وتنقید بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے گویا ”نہ کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے“ کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتے ہیں اور صحیح چیز کو بھی غلط کہنا شروع کردیتے ہیں، جو لوگ اسلامی بینکاری نظام سے ناواقف ہے اور کنو ینشنل(سودی) واسلامی بینکوں کے تمویلی طریقوں کا گہرائی میں جاکرجائزہ لینے کے بجائے صرف دونوں کے انجام اور نتیجہ کو دیکھ کر حکم لگاتے ہیں، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کان کو اِدھر کی بجائے اُدھر سے پکڑنے والی بات ہے۔ یہ لوگ صرف تنقید کرنے کیلئے تگڑے ہیں اور جب کہوکہ آپ متبادل لاکر دو تو پھر منظرسے غائب ہوجاتے ہیں۔ ایک مشہور آرٹسٹ نے، جنہیں اپنے فن میں ماہر ہونے پر بہت اعتماد تھا، ایک خوبصورت تصویر بنا کر شہر کے چوک میں لگادی اور نیچے یہ اعلان بھی لکھ دیا کہ ”جو شخص اس میں کوئی خرابی پائے، وہ اس کی نشاندہی کردے“ شام کو جب تصویر کے پاس پہنچے تو اس پر سوائے نشانوں کے کچھ نہ ملا۔ حیرت انگشت بداں، لیکن جلد ہی انہیں ایک دوسری ترتیب سوجھی۔ اگلے روزپھر وہی تصویر بناکر اسی جگہ لگائی لیکن آج کا اعلان مختلف تھا۔ آج کے اعلان میں یہ دعوت دی تھی کہ جو شخص اس میں کوئی خرابی پائے، از راہ کرم وہ اس کی اصلاح کریں، شام کو تصویر صحیح سالم ملی!۔ الحمد للہ اسلامی بینکاری کانظام اب روز بروز ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مقبول ہوتا جا رہا ہیں۔ اب پاکستان میں مکمل(Full fledged) اسلامی بینکوں کی تعداد 5 ہے۔ اور باقی کنویشنل بینکوں نے بھی مجبور ہوکر اسلامک ونڈوز اور بعض نے مستقل اسلامک بینکس کھولیں ہیں تاکہ کسٹمرز کو اس کے ڈیمانڈ کے مطابق سروسز مہیا کی جا سکیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 15کروڑ سے زائد صارفین اسلامی بینکوں کے سروسز سے وابستہ ہیں۔