جہلم میں گونگی بہری بہن کے سامنے تین افرادنے لڑکی، حافظ آباد میں 6افرادنے خاتون کو اجتماعی زیادتی کانشانہ بنا ڈالاتھانہ جلالپور کے علاقہ کی رہائشی گونگی بہری سمیت دو بہنوں کو تین افراد نے اغواء کر کے بے آبرو کر دیا گیا۔سانگلہ ہل،8سالہ بچے سے زیادتی کی کوشش، تاندلیانوالہ میں ملزم سلمان کی 4 سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کی تاندلیانوالہ میں 15 سالہ لڑکی پر ظلم دکان سے چیز خریدنے آئے 9 سالہ بچے پر دکاندار کا تشدد۔ایسی دلسوز خبریں ہمیں روزانہ پڑھنے کو ملتی ہیں اور دل دہل جاتا ہے کہ اسلام اور کلمے کے نام پر قائم ہونے والی مملکت میں یہ اندھیر نگری کس نے مچا رکھی ہے؟۔کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی، جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟۔گزشتہ دنوں لاہور موٹر وے پر ایک خاتون سے اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کے واقعے نے ہمارے سست رفتار انصاف کو ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔واضح رہے کہ درندہ صفت 2 افراد نے موٹر وے پر کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون اور اس کے بچوں کو نکالا، موٹر وے کے گرد لگی جالی کاٹ کر قریبی جھاڑیوں میں لے گئے اور خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا۔گزشتہ حکومت میں صرف قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم ہوا۔ بااثر ہونے کی وجہ سے اصل مجرم ابھی تک آزاد پھرتے ہیں۔سانحہ چونیاں، جس میں چار بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس ملک کی کئی دوسری بڑی خرابیوں کے ساتھ بڑی خرابی سست رفتار انصاف بھی ہے۔سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے خاتون کے ساتھ موٹر وے پر جنسی زیادتی کے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ اشتعال انگیز بیان دینے پر سی سی پی او کو بھی طلب کر لیا۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مہذب معاشروں میں زیادتی جیسے واقعات شرمناک ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرمان کی گرفتاری کا ٹاسک دے دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ خاتون سے زیادتی کا کیس جلد حل ہوگا، متاثرہ خاندان کو یقین دلاتا ہوں انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ گھناؤنے واقعے میں ملوث ملزمان رعایت کے مستحق نہیں، خاتون کو انصاف کی فراہمی کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ ہماری عوام کب تک اس خوف کا سامنا کرے گی اب تو ہمارے بچے، خواتین اور یہاں تک کہ جانور بھی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔ جب تک ملزمان کو سرعام پھانسی نہ دی جائے گی تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اوروزیر اعظم اس مرتبہ سرِ عام پھانسی دے کر ایک مثال قائم کریں۔ یہی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جن شعبوں کی تنظیم نو یا ان میں اصلاحات کی ضرورت تھی ان میں عدلیہ بھی شامل ہے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکنے سے آج عدلیہ میں ہر سطح پر ایسے گھمبیر مسائل موجودہیں جنہیں چھیڑنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ے اور سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اس واقعہ پر سی سی پی او نے جوابدہی اور ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مظلومہ پر ہی سوالات اٹھا دئیے۔ آخر ایک عورت رات کو ساڑھے بارہ بجے دو بچوں کو ساتھ لے کر گھر سے کیوں کر نکلی۔ اسے اپنی گاڑی کے پٹرول کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنے کا مطلب شاید یہ تھا کہ اصل جرم خاتون کا تھا۔ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کا کیا کام ہے۔ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ ایک بڑی سڑک پر وحشی درندے خاتون کی گاڑی کا شیشہ توڑتے ہیں اور اسے کھینچتے ہوئے لے جاتے ہیں اور ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر قانون اور اس کے محافظ کہیں نظر نہیں آتے۔ اگر پاکستان میں واقعی قانون اور آئین کی حاکمیت ہوتی تو کسی کو اس طرح خاتون کی تذلیل کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کوئی خود کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔ پولیس کی ترجیحات اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی بجائے حکومتی ترجیحات سے منسلک ہیں۔ جب پولیس میں تقرریوں کا عمل اصلیت اور قابلیت کی بجائے پسند و نا پسند اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے خاص چناؤ پر ہو گا تو پھر کام بھی وہی ہو گا جس کے لیے اسے تعینات کیا گیا ہو، پھر اسے اپنے اور اپنے حقیقی ادارے کے مقاصد سے کوئی غرض نہ ہو گی۔ لاہور میں سی سی پی او کی تعیناتی اس کی واضح مثال ہے۔ قابل فکر بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم و ستم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔۔عورتوں کے خلاف ان جرائم میں جبر و تشدد، زیادتی،قتل،اغوا،تیزاب گردی اور دیگر نوعیت کے کئی جرائم شامل ہیں۔ ہم ایک مسلمان معاشرے کے افراد ہیں لیکن آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کے خلاف جرائم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔صرف ہمارے معاشرے ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں کم و بیش یہی حالات ہیں۔ مغربی ممالک جن کو ہم مثالی معاشرہ سمجھے بیٹھے ہیں وہاں بھی عورتوں پر ظلم و تشدد کے بھیانک واقعات رونما ہوتے ہیں۔وہاں پر بھی عورتیں اغوائکی جاتی ہیں،انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان پر تشدد کے علاوہ قتل کرنے، تیزاب پھینکنے اور ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ان مغربی ممالک کی تاریح پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب میں سرے سے ہی کبھی عورت کو عزت و احترام اور حقوق دینے کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا۔اس لیے آج بھی ان پرانے فرسودہ خیالات کی بنا پر عورتوں کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔البتہ نہایت چالاکی کے ساتھ جدید دور میں ان مغربی ممالک نے حقوق کے نام پر عورتوں کو کولہوں کا بیل بنا دیا ہے۔کام مرد کے برابر لے کر عورت کو گھرکی راجدھانی سے بھی محروم کردیا۔تاہم ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ مسلم معاشرہ کہلاتا تو ہے مگر ہم لوگ عموماً زبانی کلامی مسلمان ہیں جسکی صاف وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ہمارا مذہب اسلام ہے مگر اسلامی شعائر ہمارے معاشرے سے مفقود ہیں۔آج بھی ہمارے معاشرے میں وہی ہندوانہ سوچ اور رسم و رواج جاری ہیں جن کے تحت لوگ آج بھی عورت کو پاوں کی جوتی سمجھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو پاوں کی جوتی نہیں بلکہ انتہائی قابل احترام بنایا ہے۔