اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

اپوزیشن کی طرف سے بلا ٓخر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس کامطالبہ جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانافضل الرحمن کئی عرصہ سے کرتے چلے آرہے تھے،اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں دوسال سے تذبذب کا شکار نظر آرہی ہیں،اجلاسات میں ان کا موقف عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہوانظرآتاہے مگر پارلیمنٹ میں وہ اپنے موقف پر ڈٹ کرکھڑے ہونے سے پھسل جاتے ہیں یاانہیں پھسلادیاجاتا ہے،ایک نہیں کئی مواقع پر یہ منظر نامہ پاکستانی عوام نے دیکھا،چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران عددی اکثریت کے باوجود ان کے ارکان کی پارٹی موقف کے خلاف استعمال ہونا اور پھر آج تک ان ارکان کی نشاندہی تک نہ کرنا ایک سوالیہ نشان ہے،اس سے پہلے صدارتی الیکشن میں پیپلزپارٹی نے جس طرح حکمران جماعت کے لئے سہولت کاری کا کردار اداکیا وہ بھی عوام سے پوشیدہ نہیں،حالیہ قانو ن سازی میں عددی برتری کے باوجود حکمران جماعت کے ہاتھوں پسپائی ان کے کردار پر ایک سیاہ دھبہ ہے،اس لئے مولانافضل الرحمن نے اے پی سی سے قبل دونوں جماعتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کئی اقدامات اُٹھائے اور بار بار کہا کہ اگر روایتی قسم کی اے پی سی ہو تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایک موقع پر اے پی سی میں عدم شرکت کا اعلان بھی ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے تھاجس پر میاں نوازشریف اور جناب آصف علی زرداری نے مولاناسے روبطہ کرکے یقین دلایا کہ اب وہ پہلے کی طرح کمزور اور بے جان موقف اختیار نہیں کریں گے بلکہ ٹھوس قدم اُٹھائیں گے جس پر مولانافضل الرحمن اے پی سی میں شرکت پر آمادہ ہوئے،پارلیمنٹ میں موجود دونوں بڑی پارٹیاں اگر اپوزیشن کے ساتھ مخلص ہوتیں تو گزشتہ سال کے آزادی مارچ کے نتیجے میں حکومت اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی مگر دنوں بڑی پارٹیوں نے پہلے تو ”مولاناصاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“کے زبردست نعرے لگائے مگرجب مولاناصاحب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تو دونوں پارٹیوں نے پشاور موڑ کے کنٹینرپر علامتی شرکت تو ضرور کی مگر نہ ان کے کارکن آئے اور نہ وہ خودآزادی مارچ کے تاریخی دھرنے میں فیصلہ کن کردار اداکرنے پرآمادہ ہوئے جس کے بعد مولانافضل الرحمن سمیت جمعیت کے کارکنوں میں ان کی طرف سے شدید بداعتمادی پیداہوئی،اس کے بعد مختلف مراحل میں قانون سازی کے مواقع پر دونوں بڑی پارٹیوں نے جس طرح حکومت کے لئے سہولت کاری کا کرداراداکیا اس سے مزید بداعتمادی جنم لیتی رہی،یہی وجہ تھی کہ مولانافضل الرحمن نے اے پی سی سے پہلے دونوں پارٹیوں کے قائدین کے سوئے ہوئے ضمیر کو بار بار جھنجھوڑااور انہیں آمادہ کیاکہ اب موجودہ حکومت کو مزیدمہلت دینے کا وقت نہیں ہے ملک کی حالت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے،معیشت تباہ،خارجہ پالیسی ناکام،داخلی معالات انتشار کا شکار،مہنگائی ناقابل برداشت حدتک پہنچ چکی،امن وامان کی حالت دگرگوں،سقوط کشمیر سے قومی غیرت کا جنازہ قبرستان کی طرف رواں دواں،عالمی قوتوں کے شہ پر قانون سازی سے غلامی کا طوق گلے کا ہار بنتاجارہاہے،نیب کے زریعے انتقامی کاروائیاں تیزی سے جاری ہیں،ملک میں فرقہ واریت کے بادل منڈلارہے ہیں،گڈ گورننس کانام ونشان تک دکھائی نہیں دیتا،کرپشن کا اژدھا پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتا جارہاہے،بلکہ اب تو ایٹمی آثاثوں کے خلاف بھی ان جعلی حکمرانوں سے قانون سازی کروائی جانے کے بھی انکشافات ہورہے ہیں،ان حالات میں اگر اپوزیشن نے اپنا کردار ادانہ کیا تو پھر اپوزیشن کس مرض کی دواہے؟مولانافضل الرحمن نے آل پارٹیزکانفرنس میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو کھری کھری سنائیں کہ آپ کے ڈھیلے ڈھالے کردار نے حالات یہاں تک پہنچادئیے اب بھی اگر آپ لوگ سخت قسم کے جانداراور ٹھوس فیصلے نہیں کریں گے تو روایتی فیصلوں سے ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی،مولانافضل الرحمن نے بڑے دھڑلے سے اپناموقف پیش کرتے ہوئے کہا ”جمہویت کو خطرہ ہو اور میں اس کے لئے اکیلا لڑسکتا ہوں تو اسلام کے لئے بھی فرنٹ لائن پر لڑوں گا،ایک مسلمان ملک میں اور مضبوط مذہبی طبقہ موجود ہونے کے باوجود جب ہم مذہبی لوگوں کی کاز کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں مولوی مذہبی کارڈ استعمال کرتا ہے اگر ایک قوم پرست قومیت کا کارڈ استعمال سکتا ہے تو پھر میں بھی مذہبی کارڈ استعمال کرسکتا ہوں،اس پر مجھے کوئی شرمندگی نہیں،یہ میرا حق ہے،میں اس پر فخرمحسوس کرتا ہوں اس پر مجھے عارنہ دلایاجائے،ہم شریعت چاہتے ہیں مگر بندوق کے ذریعے نہیں ہم آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں،آج پارلیمنٹ میں قانون سازی ریاستی بندوق کے زورسے ہورہی ہے ریاستی بندوق کی زور سے قانون سازی تو سربچشم قبول،لیکن اگرکوئی فرد اسلام کے لئے یہ کرے تو اسے ملک دشمن،غدار اور پتہ نہیں کیا کیا کہاجاتا ہے،مولاناکا مزید کہنا تھا کہ میں شروع سے دھاندلی کی تحقیقات کا مخالف ہوں،دھاندلی کے لئے تحقیق کرنا ایسا ہے کہ جیسے نصف النہار پر سورج کھڑاہو اور کوئی کہے ثابت کروکہ سورج موجود ہے یانہیں؟اگر ہم نے فیصلے کرنے ہیں تو مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے یا تو آج اسمبلی سے استعفے دینے ہوں گے یا سول سپریمیسی کے ذریعے عوام کے پاس جاکر متفقہ طورپر لڑناہوگا،ہم زبانی گفتگوپر اکتفانہیں کرسکتے آپ ہمیں کہیں کہ ہم لڑیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے،آپ دوسالوں میں پیچھے بہت ہٹ چکے ہیں،اس حکومت کی بقاکا سبب آپ ہیں،اب باقاعدہ ہمیں لکھ کر طے کرنا ہوگا تاکہ پبلک ریکارڈ کا حصہ بن جائیں کہ یہ کمنٹمنٹ ہے جو اس سے پیچھے ہٹے گا وہ قومی مجرم قراردیاجائے،اب ہمیں بحرحال عملی اقدامات کی طرف جاناہوگا کمپرومائز کاراستہ بندہے،آپ ہماری تحریک کو ایک سیاسی مہمیزتولگادیتے ہیں لیکن جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو پھر آپ کی مصلحتیں سامنے آجاتی ہیں،یہ روئیے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جب سامنے آتے ہیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرسکتے یاآگے بڑھ سکتے ہیں؟ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لئے بھی موثر اقدامات کرنے ہوں گے،ہمیں تجدید عہد کرنا ہوگا،ہمیں یہاں سے حلف لے کر نکلناہوگا،ہمیں ایک تحریری میثاق لکھنی ہوگی،ہمارا ایک باقاعدہ تنظیمی ٖھانچہ ہوناچاہئے،تمام سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا،چاہے جتنے بڑے ملک کا وفد،سپر پاورکا وفد کیوں نہ آجائے ہم شرکت نہیں کریں گے اور یہ پیغام دیں گے کہ یہ حکومت جعلی ہے۔ پارلمینٹ میں قانون سازی سے سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا،،غیرمنتخب اور غیر آئینی حکومت کے بین الاقوامی معاہدات سے لاتعلقی کا علان اور بائیکاٹ کرناہوگا،آئندہ کوئی حکومت ان معاہدات کی پابندنہیں ہوگی،،کالادھن یا غیرقانونی ترسیلات جوریاستی ادارے استعمال کرتے ہیں بھی ریاستی دہشت گردی کا سبب ہے،اگر آپ ایک مضبوط فیصلہ کرتے ہیں،اسمبلیوں سے استعفا دیتے ہیں،سندھ اسمبلی تحلیل کرنے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں تو بسم اللہ!ورنہ بڑی بڑی باتیں بہت ہوگئیں،ہاتھ کھڑے کر کے بتائیں کہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔آج ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر قانون سازی ہورہی ہے اور یہ سلسلہ یہاں رکھے گا نہیں،آپ کے ایٹمی صلاحیت کے خلاف بھی قراردادلائی جائے گی،ان حالات سے نکلنے کے لئے مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے،میڈیا کو اتنامقید کردیاگیا ہے کہ ہمارے لاکھوں کے اجتماعات اور ہماری تقاریر نہیں دکھا رہا اس کو روکاجاتا ہے،اے پی سی میں مولانافضل الرحمن کی یہ جرات مندانہ موقف اور بیباکانہ گفتگو زندہ ضمیر قوم کے ایک ایک فردکے دل کی آوازہے اوراپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کوجھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں اگر وہ ذاتی مفادات اور وقتی مصلحتوں سے باہر نگل گئیں تو ملک وقوم اس مسلط شدہ عذاب سے نجات پالے گی ورنہ مولانافضل الرحمن کی یہ گفتگوتاریخ کاایک زندہ باب بن کر آئندہ نسلوں کی آگاہی کے لئے کافی ہو گی کہ کس کے مجرمانہ غفلت اور خودغرضانہ سیاست سے ملک وقوم کا اتنابڑانقصان ہوا ہے؟ اے پی سی میں مسلم کے لیگ قائد میاں نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری کی وڈیولنک کے ذریعے شرکت اور خطاب نے اس اے پی سی کو بہت حدتک مضبوط کیا ہے اگر ان کی پارٹیاں کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے کامیاب ہوگئیں تو جعلی حکمرانوں سے نجات کی اُمید پیداہوجائے گی وگرنہ عوام مہنگائی پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جائیں گے آئی ایم ایف کے بعد ایف اے ٹی ایف اور اس کے بعد نہ جانے کس کس کی غلامی کا طوق عوام کی گردنوں کاہار بن کر ملک ایک بارپھر غلامی می کی زنجیروں میں جھکڑدیاجاتا ہے،داخلی انتشار کے بعدجغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدات کا کیا حشر ہوتا ہے؟الامان والحفیظ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.