گزشتہ مکمل ہفتہ سفرکی نذرہوا،بھتیجی کی شادی تھی اس کو رخصت کرنے راولپنڈی جاناہوا،وہاں سے فراغت کے بعد چاکرہ روڈ پر اپنے زمانہ طالب علمی کے دوست مولاناسیداکبر عثمانی کے ہاں حاضرہوا،موصوف ترنگڑی مانسہرہ کے رہنے والے ہیں زمانہ طالب علمی سے اسی علاقہ کے مختلف مقامات میں پڑھاتے رہے،فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اسی علاقہ کے مکین ہوچکے ہیں،بہت بڑے عامل ہیں ملک بھر میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں،پچیس چھبیس سال بعد ان سے ملاقات ہوئی کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا ارادہ تھا لیکن جمعیت علماء اسلام آزادجموں وکشمیر کے جنرل سیکرٹری مولاناامتیازاحمدعباسی کا فون آیا کہ میں قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کی رہائش گاہ اسلام آباد پہنچ چکاہوں آپ بھی آجائیں،وہاں سے میٹروکے ذریعے اسلام آباد پہنچا،قائدجمعیت کی رہائش گاہ جا کر دیکھا تو جے یو آئی گلگت بلتستان کے امیر مولاناعطاء اللہ شہاب،جنرل سیکرٹری مولاناعبدالکریم کے علاوہ دیگر علماء کرام موجود تھے،جو گلگت کے الیکشن کے لئے جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کے ٹکٹ کنفرم کرنے کے لئے قائدجمعیت مولانافضل الرحمن صاحب کے پاس حاضرہوئے تھے،ان سے ملاقات اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد عصر کا وقت ہوا،مولاناصاحب جب باہر نکلے تو ان کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ کاایک وفد بھی موجود تھا جو ان کے ساتھ کسی خاص معاملے میں مشورہ کرنے کے لئے آیاتھا،اس وفد میں مولانامفتی غلام الرحمن مہتمم جامعہ عثمانیہ پشاور،مولاناحسین احمد صوبائی ناظم وفاق المدارس العربیہ،مولاناامداداللہ جامعہ بنوری ٹاون کراچی،شہید ناموس صحابہ رئیس المحدثین حضرت مولاناشیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے فرزندوجانشین ”حضرت مولانا محمدعادل خان“رحمۃ اللہ رئیس جامعہ فاروقیہ کراچی کے علاوہ دیگر حضرات شامل تھے،قائدجمعیت کے ساتھ ان کی میٹنگ ہوچکی تھی اب وہ آپس میں میٹنگ کے لئے اندر چلے گئے،مولاناڈاکٹر عادل خان شہید معتدل مزاج،انتہائی زیرک،معاملہ فہم،مسلکی جھگڑوں سے دورحق گو اور صلح جو شخصیت تھے،گزشتہ رات کوان کی شہادت کاسن کر دل لرز گیا کہ کونسے بدبخت وبدباطن ملعوم نے اس عظیم باپ کے عظیم بیٹے کو گولیاں کا نشانہ بناکر ملک کو ایک مدبر ومعاملہ فہم عالم اور اتحاد واتفاق کے علمبردار شخصیت سے محروم کردیا؟الغرض قائدجمعیت مولانافضل الرحمن صاحب اپنے سبزہ زار صحن میں گلگت بلتستان کے ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر امور کونمٹانے کے لئے تشریف فرمارہے،راقم الحروف،مولاناامتیاز احمدعباسی،مولاناندیم آزاداور ان کے ساتھ دیگر آنے والے علماء بھی قائدجمعیت کے پاس حاضرہوئے،قائدجمعیت نے حسب روایت اُٹھ کرسب سے معانقہ ومصافحہ کرتے ہوئے حال واحوال پوچھے،اسی اثنامیں مشہور صحافی سلیم صافی تشریف لائے،ان کے ساتھ چند جملوں کا تبادلہ ہوا ان کے علاوہ کئی اور صحافی تجزیہ نگار،علماء اور کارکنان بھی جمع ہوئے،نماز مغرب پڑھ کر میں اور مولاناامتیازعباسی وہاں سے نکل گئے میں گوجرانوالہ کے لئے روانہ ہوا جبکہ مولاناامتیاز عباسی اور ان کے ساتھی راولپنڈی میں مولانافضل الرحمن خلیل کی طرف ان کے اعزازمیں دئے گئے استقبالیہ میں شرکت کے لئے چلے گئے،گوجرانوالہ میں جامعہ نصرت العلوم کے استاذ اور مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ کے امام ومدرس مولانافضل ہادی صاحب سے روابطہ تھا رات کاپروگرام بھی انہی کے ہاں طے شدہ تھا،گوجرانوالہ پہنچ کر عجیب وغریب ڈرامہ ہوگیا جوپھرکسی وقت قارئین کے سامنے پیش کیاجائے گا،ہوٹل میں رات گزار کر نماز فجرکے بعد مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ پہنچا، ناشتے کے بعد مولانافضل ہادی کے اصرار پر دورہ حدیث کے طلباء سے علم کی اہمیت وضروت پر کچھ دیر گفتگوکی،مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ ایک تاریخی جامع مسجد ہے،محدث کبیر مولاناعبدالعزیز ؒ اور بطل حریت مولانامفتی عبدالواحد کے بعد اس کے خطیب معروف مذہبی سکالر،مقبول کالم نگار، شیخ الحدیث حضرت مولانازاہدالراشدی مدظلہ ہیں،جبکہ امامت کے فرائض مولانافضل ہادی سرانجام دے رہے ہیں ی اسی مسجد مدرسہ انوارالعلوم کے نام سے شہر کا سب سے بڑامدرسہ تھا جہاں ملک بھر سے تشنگانِ علوم دینیہ اپنا علمی پیاس بجھانے کے لئے آیاکرتھے،امام اہل سنت شیخ الحدیث القرآن حضرت مولاناسرفرازخان صفدراور ان کے چھوٹے بھائی مفسرقرآن محدث جلیل حضرت مولاناصوفی عبدالحمید خان سواتی بھی اسی مسجدومدرسہ کے فیض یافتگان میں سے ہیں، اب اردگرد بڑے بڑے مدارس کی وجہ سے وہ سلسلہ منقطع ہوچکاہے، مگر دورہ حدیث کی کلاس اب بھی یہاں موجود ہے،یہاں سے مولاناعبدالہادی اورطالب علم نیاز محمد کی معیت میں مادرعلمی جامعہ نصرت العلوم جاناہوا،مہتمم جامعہ مخدوم مکرم حضرت مولانامحمدفیاض خان سواتی سے ملاقات کرکے ان سے ان کی والدہ ماجدہ کی وفات پر تعززیت کی،مہمان خانہ میں جاکر چائے نوشی کے بعد ناظم اعلیٰ جامعہ اور اپنے ہم درس مولانامحمدریاض خان سواتی سے ملاقات کی کچھ دیر ان کے پاس گزارنے کے بعد مہتمم صاحب کے نوجوان صاحبزادے مولانامحمدحذیفہ سواتی سے ملاقات ہوئی انہوں نے اپنے ناناشیخ الحدیث حضرت مولانازاہدالراشدی صاحب کے خطابات کی تیسری جلد عنایت کی،پھرہم حضرت الاستاذصاحبزادہ حضرت مولاناعبدالقدوس قارن صاحب مدظلہ سے ملاقات کرکے شیرانوالہ باغ چلے گئے،کچھ دیر آرام اور کھانے کے بعد میں لاہور کے لئے روانہ ہوگیا،راستہ میں میرے میزبان مکتبہ الحسن کے ایم ڈی جناب عبدالقدیر صاحب کا فون آیا کہ آپ شاہدرہ موڑ اتر کررحمان گارڈن آجائیں،مغرب کے وقت وہاں پہنچا محافظ ختم نبوت شاہین جمعیت حافظ حمداللہ صاحب انتظارمیں تھے،حافظ صاحب ملک کی جانی پہچانی شخصیت ہیں،سینٹ آف پاکستان کے ممبرکی حیثیت سے وہ ملک گھیر شہرت حاصل کرچکے ہیں،مختلف ٹی وی چینلزپر جمعیت علماء اسلام کی طرف سے بے لاگ تجزیہ نگار کے طورپر انہیں قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے،ان کی مدلل گفتگوکے سامنے بڑے بڑے سخن ور گنگے نظر آتے ہیں،ان کے دلیرانہ اور جرات مندانہ طرزبیان کے آگے بڑے بڑوں کو بولتی بند ہونے کے مناظر الیکٹرانک میڈیا پر اکثر وبیشترخلق خدا دیکھ کر محظوظ ہوتی ہے،حافظ حمداللہ صاحب کی سینٹ کی تقاریر کو راقم الحروف نے مرتب کرکے ”معرکہ حق“کے نام سے کتابی شکل دی ہے جسے مکتبہ الحسن لاہورنے بڑے خوبصورت اندازمیں چھاپاہے، موصوف ایک ہفتہ سے لاہور گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے دورے پرتھے جہاں انہوں نے بہت سے اجتماعات سے خطاب کیا اس دورے کے اختتام پر مکتبہ الحسن لاہور کے ایم ڈی جناب عبدالقدیر نے انہیں اپنے ہاں عشائیہ پر بلایا تھا جہاں اس کتاب کے متعلق بھی ضروری مشاورت کرنی تھی،مغرب کے بعد اس سلسلہ میں ان کے رہائش گاہ پر مجلس ہوئی اور پر خلوص عشائیہ کے بعد حافظ حمداللہ صاحب کامونکی چلے گئے اور اگلی صبح اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے،میں عبدالقدیر کے ساتھ اردوبازار چلاگیا،بدقسمتی سے داتا علی ہجویری کے عرس کی وجہ سے راستوں کے ساتھ ساتھ موبائل نیٹ ورک بھی بندتھی جس کی وجہ سے کسی سے رابطہ بھی نہیں ہوسکا،ظہر کے بعد ایک طویل چکر کاٹ کر ہم جامعہ مدنیہ کریم پارک پہنچے جہاں قائدجمعیت مولانافضل الرحمن جے یو آئی پنجاب کی جنرل کونسل سے خطاب کررہے تھے تھوڑی دیر کے بعد مولاناصاحب باہر آئے اور ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرکے مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملاقات کے لئے رائے ونڈ چلے گئے،مغرب کے بعد میں واپس روانہ ہوا اور صبح چار بجے مانسہرہ پہنچا موٹروے نے سفر کو آسان کردیا ہے،لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ دیکھا جہاں دوسال پہلے میاں شہبازشریف چھوڑ کر گئے تھے انصافی حکومت اس کو دوسال میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچاسکی،جنہوں نے ملک کو ترقی کی طرف گامزن کیا تھا وہ تو چوراور ڈاکو ٹھہرے اور صداقت وامانت پر مبنی حکومت کاکوئی کارنامہ مجھے اس طویل سفرمیں کہیں بھی نظر نہیں آیا اسی سے ان کی سنجیدگی،صداقت وامانت کا صحیح اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔