اولاد دنیا کا سب سے محبوب سرمایہ ہے،جن کے لئے آدمی ہرقسم کادکھ دردبرداشت کرتا ہے،اولاد کی محبت ایک فطری عمل ہے،ہرمخلوق کو اپنی اولاد سے بے پناہ محبت ہوتی ہے بلکہ دنیا کی سب سے عظیم ہستیاں انبیاء علیہم السلام ہیں وہ بھی اپنے تمام تر تقدس ومعصومیت کے باوجود اپنی اولاد سے حدرجہ محبت کرتے تھے،ہمارے آقا ومولیٰ سرکاردوعالم ﷺ کوبھی اپنی لاد سے محبت تھی،غزوہ بدر کے قیدیوں کی آزادی کے لئے جب فدیہ بھیجاگیا توآپ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینب ؓ نے اپنے شوہرابوالعاصؓ کی آزادی کے لئے اپنے گلے کا وہ ہاربھیجاجو ان کواپنی امی ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کی طرف سے جہیزمیں ملاتھا جب نبی کریم ﷺنے وہ دیکھا تو صاحبزادی کی بیچارگی پر بے ساختہ آنسو چھلک پڑے اور صحابہ سے فرمایا اگر سب کی رائے ہو تو اس ہار واپس کرکے ابوالعاص کو بغیر کسی معاوضہ کے آزادکیا جائے،سب نے بخوشی قبول کیا،ایک موقع پر انہی صاحبزادی کا ایک شیرخوار بچہ آپ ﷺکے دست مبارک میں واصل بحق ہوا تو آپ ؐ کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہوئے،حضرت سعد بن عبادہ نے پوچھا یارسول اللہ!یہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا ”یہ وہ محبت وشفقت ہے جو اللہ نے اپنے بندودں کے دلوں میں اپنی اولاد کے متعلق ڈالی ہے،آپﷺ کے صاحبزادے ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تو آپ نے فرمایا ”اے ابراہیم ہم تیری جدائی کے صدمے میں غمگین وپریشان ہیں،حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں چالیس سال تک اس طرح روتے رہے کہ آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی،حضرت نوح علیہ السلام کا کافربیٹاکنعان جب اپنے کفر کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے پانی میں غرق ہوگیا تو شفقت پدری نے جوش مارا اور فرمانے لگے اے پرودرگار!یہ میرابیٹامیرے اہل میں سے تھا اور تیرا وعدہ تھا کہ تیرے اہل وعیال کو غرق نہیں کروں گا،اللہ تعالیٰ نے جواب دیا اے نوح!یہ اپنی بدعملی کی وجہ سے تیرے اہل میں سے نہیں تھا،انبیاء کرام کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترتعلق ہوتا ہے مگر اولاد کی محبت سے ان کے دل بھی خالی نہیں ہوتے،اولاد کا معمولی سادکھ درد بھی آدمی کے ناقابل برداشت ہوتا ہے،چہ جائے کہ ماں باپ کے سامنے اولاد کی موت واقع ہوجائے،یہ صدمہ آدمی کو ہمیشہ کے لئے دکھی کردیتا ہے،اس کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے خود یہ صدمہ برداشت کیا ہو،17اکتوبر کو اسی قسم کاایک افسوسناک واقعہ پیش آیا،فیروزبانڈہ تحصیل اوگی کے رہائشی محمدخالد سواتی کا بیٹا بلال خان سواتی ہفتہ کی صبح اپنے کالج کے لئے گھر سے روانہ ہوا،لیکن بجائے کالج کے وہ اپنے دودوستوں کے ساتھ طے شدہ پروگرام کے مطابق سیر وتفریح کے لئے دربند جھیل چلاگیا،دربندپہنچ کرتینوں دوست جھیل کے اندر جانے کے لئے کشتی پر سوار ہوئے،کشتی میں اپنی بچگانہ شوخیاں اور شرارتے کرتے ہوئے جھیل کی موجوں اور پانی کی لطافت سے لطف اندوزہورہے تھے،پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے بلال خان سواتی دربندجھیل کی بے رحم موجوں کی نذرہوگیا،دوستوں نے جوکچھ ان سے ہوسکتا تھا کیا ہوگا مگر دربند جھیل کوئی معمولی پانی نہیں کہ کسی انسان کا اس پر بس چلے،میں اپنے جے یوآئی اوگی کے آفس میں بیٹھ کر 18 اکتوبر کی ختم نبوت ومدح صحابہ کانفرنس کی آخری تیاریوں میں مصروف تھا میرے ساتھ اوگی صحافت کے سب سے متحرک کرداراور آصف نیوزکے ایڈمن جناب زاہد خان صاحب بھی موجود تھے،ان کے فون پر باربار دوسری طرف سے کالیں آرہی تھیں،کہ دربند جھیل میں کوئی لڑکا ڈوب گیا ہے،اس وقت تو یہ پتہ نہ چل سکا کہ کون ہے اورکیسے ڈوب گیا ہے؟بعد میں آس نیوز کے جناب ڈاکٹر عتیق چاندصاحب کی وساطت سے معلوم ہوا کہ ڈوبنے والے بچے کانام بلال سواتی ہے اورشمدہڑہ کے قریب بانڈہ فیروزخان نامی گاؤں کا رہائشی اور ATCOM COLLEGEمیں سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہے،بلال سواتی کے والدکانام خالد ہے جس کی مانسہرہ روڈ پر شوزکی دکان ہے،ہم اپنے کانفرنس میں مصروف رہے مگر سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ لیتے رہے کہ کیا ہوارہاہے،کس طرح بلال سواتی کے جسدخاکی کی تلاش شروع ہے،جناب ڈاکٹر عتیق چاند مسلسل لائیوتفصیلات بتارہے تھے،دربندکے لوگ بڑی تعدادمیں لاش نکالنے کی کوششوں میں مصروف تھے،اوگی سے بھی کافی تعدادمیں لوگ پہنچ چکے تھے،ریسکیو1122 کی ٹیم رات کو 9 بجے اس وقت پہنچی جب رات کی تاریکی نے سب کچھ آپنے آغوش میں لے لیا تھا،اندھیرے نے سب کے ہاتھ پاؤں جھکڑلئے تھے اور ریسکیوٹیم کا کہناتھا کہ ہمیں اندھیرے میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے،اس وقت لساں نواب کے ایک شخص نے ان سے کہا کہ اگر اپنی کٹ مجھے دے دیں تو میں پانی میں اتر کراپنی کوشش جاری رکھ سکتا ہوں لیکن ریسکیوٹیم نے کہا کہ ہم اپنی سرکاری کٹ کسی سول شخص کے حوالے نہیں کرسکتے،جب صبح ہوئی تو 8 بجے ریسکیو1122کی ٹیم نے اپنی کاروائی شروع کی دوگھنٹے تک وہ بے تکے ہاتھ پاؤں مارتے رہے،دوگھنٹے کے بعد ہتھیار ڈال کر باہر نکل آئے،جس پر وہاں موجود لوگوں نے کافی شور شرابہ کیا اور مجبوراًان کو دوبارہ پانی میں جاکر بلال کی تلاش شروع کرنی پڑی مگر صرف عوام کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے وہ صرف اپناوقت گزارتے رہے،دوگھنٹے کے بعد وہ مکمل طورپر ہتھیار ڈال کر باہر آئے کہ ہم سے نہیں ہوسکتا،پھر منگلاڈیم سے ایک پاک آرمی کی ٹیم منگوائی گئی مگر وہ یہاں آنے کی بجائے تھاکوٹ چلی گئی جہاں اسلام آباد کا ایک رہائشی اپنے دوبچوں کوبچانے کی کوشش میں ڈوب چکاتھا،جس کی لاش ابھی تک نہیں مل سکی،وہاں موجود لوگوں کے بقول ریسکیو1122میں مانسہرہ کاایک شخص تھا باقی کچھ خان پور،ہری پور اور پشاورکے لوگ تھے اور یہ مانسہرے والا صرف شخص ہی تھا شخصیت نام کی کوئی چیز اس کے اندرنہیں تھی،بلکہ یہ پوری ٹیم نالائقوں کا ٹولہ تھا،ماہراور پیشہ ور شخص ان میں ایک بھی نہیں تھا،رشوت اور سفارش کی بنیاد پر جب لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا تو پھر ایسے ہی نخرے اداروں میں آکر ان کی تباہی،بربادی اور بدنامی کا باعث بنیں گے،دربند کے لوگوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ اس سانحہ میں ساتھ دیا اور بلال سواتی کی لاش ڈھونڈنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا،لوگوں نے خود کونڈے بنائے اور ان کے ذریعے بلال کی لاش کو تلاش کرتے رہے،عمران نامی نوجوان بھی انہی تلاش کرنے والوں میں شامل تھا،تیسرے دن جب وہ پانی کی تیہ میں چلاگیا تو اس کا کونڈہ بلال مرحوم کے کپڑوں میں پھنس گیا اس نے کوشش کی مگر وہ لاش کو نہ نکال سکا،اس نے باہر آکر بتایا کہ لاش یہاں پرموجود ہے، جس پر منگلا ڈیم سے پاک آرمی کی آئی ہوئی ٹیم (جو ڈاکٹر عتیق چاند،اجمل سواتی اور جرگہ پاکستان کے چیئرمین کی کوششوں سے آئی تھی)کے حولدار کامران نے جاکر عمران کے ساتھ تین دن سے پانی کے اندر پڑی ہوئی بلال شہیدکی لاش کو نکال کر باہر لے آئے،جوتین دن گزرجانے کے باوجود تروتازہ تھی،اس موقع پراوگی اور دربند کے لوگوں نے جو بات شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ غم وپریشانی کے ان تین دنوں میں جہاں بلال سواتی کے والدین،رشتہ دار،اٹکام کالج کی انتظامیہ،پن تحصیل اوگی کے ذمہ داران،دربند اور اوگی کے لوگ مارے مارے پھر رہے تھے،اداروں کو دہائیاں دے دے کر اپنی مددکے لئے پکار رہے تھے،ضلع کے کسی آفیسر کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ غم کی اس گھڑی میں دس منٹ کے لئے دربند جاکر ان پریشان دل لوگوں کوحوصلہ دیتا ان کے غم میں حصہ ڈالتا، ان کی اشک شوئی کرتا،کوئی جھوٹی تسلی ہی دے دیتا مگر ضلع مانسہرہ کے تمام سرکاری افسران شاید بھنگ کی فیکٹریاں لگانے چکر میں مدہوش تھے انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ علاقہ میں ہواکیا ہے؟نہ ڈی سی صاحب قدم رنجہ ہوئے نہ اے سی صاحبہ مداوائے الم کرسکیں،یہی وجہ ہے کہ جب ایک مقامی تنظیم نے بلال شہیدکی لاش نکالنے والے عمران کے اعزازمیں اے سی آفس میں ایک تقریب رکھی تو بلال کے رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کے دباؤپر اس تقریب کو منسوخ کرناپڑا،اگر یہ لوگ جوانہی عوام کے ٹیکسوں پرعوام کی خدمت کے لئے لاکھوں روپے کی تنخواہیں لیتے ہیں دس منٹ کے لئے وہاں حاضرہوجاتے تو لوگوں کے دل ان سے اتنے بھرے ہوئے نہ ہوتے،بہرحال انتظامیہ کی طرف انتہائی سردمہرہ کا مظاہرہ قابل صدافسوس ہے،البتہ تحصیلدار اوگی محمدسلیم صاحب اور ڈی ایس پی مراد خان صاحب کی وہاں حاضری سوگوار خاندان اور عوام کے لئے باعث حوصلہ افزائی رہی،دربند کے لوگ اور خصوصاعمران جس کی کوششوں سے بلال سواتی کی لاش ملی قابل مبارکباد ہیں،جنہوں دن رات محنت کرکے بلال سواتی کے لوحقین کو تنہا نہیں چھوڑا،دربند کے لوگوں نے اس سانحہ میں انصارمدینہ کا کرداراداکیااور بلال شہید کی لاش نکالنے اوراوگی سے گئے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے میں ہرممکن تعاون کرکے مثال قائم کردی،ڈاکٹر عتیق چاند نائب صدر پن تحصیل اوگی کی کاوشوں بھی قابل ستائش ہیں جنہوں مسلسل تین دن تک اس اندوہناک واقعہ سے عوام کو خبردار رکھا،ان کے علاوہ دیگر کئی سیاسی وسماجی رہنمااس موقع پر موجود رہے،بلال شہید کی نماز جنازہ دربند اور ان کے گاؤں دونوں جگہ اداہوئی جس میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں نے شرکت کرکے سواگواخاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کامظاہرہ کیا،اللہ تعالیٰ بلال کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے اور اس کے والدین اورتمام رشتہ داروں کو صبرجمیل عطافرمائے اور اس قسم کے سانحات سے اللہ تعالیٰ ہر شخص کی حفاظت فرمائے۔18اکتوبراتوار کے دن کولکہ میں سابق ناظم شادمحمدخان،برادرم مشتاق احمدخان کی بھتیجی اوروحیدخان کی 12سالہ صاحبزادی اچانک ایک سانحہ کی نذرہوکر ابدی نیند سوگئی،بچوں کی جدائی کاغم والدین کو نڈھال کردیتا ہے ان کی کمر توڑدیتا ہے،اللہ تعالیٰ انہیں بھی صبر کی دولت سے نوازے اور بچوں کے غم سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کومحفوظ رکھے…آمین،مانسہرہ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ریسکیو 1122میں نخروں کی بجائے قابل،ماہر،محنتی اور عمران کی طرح جفاکش اور پیشہ ورلوگوں کو رکھے تاکہ ایسے مواقع پر اس ادارے کو سبکی کاسامنا نہ کرناپڑے۔