گستاخانِ رسولﷺ کا انجام (پہلی قسط)حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

جناب نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور سب سے برگزیدہ پیغمبر ہیں،آپ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خودلی تھی،آپ ﷺکو جن لوگوں نے ایذائیں پہنچائیں تکالیف دیں اور ستایا اللہ تعالیٰ نے ان گستاخوں کو دنیا میں ان کو ذلیل وخوارکرکے انسانیت کے لئے نشانِ عبرت بناکے چھوڑا،گستاخِ رسول جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہوں ذلیل ورسواہوجاتا ہے اسی اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کی نظروں میں بھی ذلیل وخوار کرکے رکھ دیتے ہیں،فرانس نے جس جرم کا ارتکاب کیا ہے اس جرم کی پاداش میں عنقریب اسے دنیائے انسانیت کے سامنے ذلت وخواری کاسامناکرنا پڑے گا،یہ فیصلہ کب دنیا کے سامنے آتا ہے یہ اللہ کی مرضی ہے کیونکہ وہ بے نیاز ہے لیکن فرانس کو اب نہ اسکی ایٹمی ذخائر اسے اس تباہی سے بچاسکیں گے اور نہ اس کی معیشت،صنعت وحرفت اور نی جدیدٹیکنالوجی اسے اللہ تعالیٰ کے قہروغضب سے بچاسکے گی،گستاخان رسول کے انجام پر ایک نظر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسے کیسے ذلیل ورسواکیا ہے،ابوجہل لَعَنَہُ اللہ امت محمدیہ کا فرعون تھا جس نے حضور ﷺکی دشمنی میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا تھا۔ابوجہل کا اصل نام ابوالحکم تھاحضور ؐ نے ابوجہل کا لقب عطافرمایا غزوہ بدر میں دوننھے مجاہد معوذ اور معاذ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا،غزوہئ بدر کے بعد حضور ؐ نے حکم دیا کہ کوئی ہے جو ابوجہل کی خبرلائے؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جاکر لاشوں میں تلاش کیا دیکھا تو زخمی پڑاہوادم توڑرہا تھا پوچھا، ابوجہل ہے؟کہا ہاں: ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کیا تو اس میں فخرکی کیا بات ہے؟ابوجہل نے ایک دفعہ حضرت ابن مسعود کو ایک تھپڑ مارا تھا اس کے انتقام میں اس کی گردن پر پاؤں رکھ کر کہا”اَخْزَاکَ اللّٰہ یَا عَدُواللّٰہ“اللہ نے تجھے ذلیل ورسواکیا اے اللہ کے دشمن!حضرت عبداللہ بن مسعوؓد ابوجہل کے سینہ پر چڑھ کر بیٹھ گئے ابوجہل نے آنکھیں کھولی اور کہا اے بکریوں کے چرانے والے!تو بہت اونچے مقام پر چڑھ بیٹھا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا”حمدہے اس ذات کی جس نے مجھے یہ قدرت دی“ابوجہل نے پوچھا کس کوفتح ہوئی؟انہوں نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کو۔پھر پوچھا تیرا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے فرمایا تیرا سر قلم کرنے کا۔کہا اچھا! یہ میری تلوار ہے اس سے میرا سر کاٹنا یہ بہت تیز ہے، تیری مدعااور مرادکو جلد پورا کرے گی اور دیکھو!میرا سر شانوں کے پاس سے کاٹنا تاکہ دیکھنے والوں کی نظروں میں ہیبت ناک معلوم ہو اور جب محمد(ﷺ) کی طرف واپس ہو تو میرا یہ پیغام پہنچادینا کہ میرے دل میں بہ نسبت گزشتہ کے آج کے دن تمہاری عداوت اور بغض کہیں زیادہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کا سر کاٹا اور رسول اللہ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا اور عرض کیا ھٰذا”رَأ سُ عَدُواللّٰہ ابی جہل“یہ اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر ہے۔ آپؐ نے فرمایا”قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ ابوجہل ہی کاسر ہے“؟ حضرت ابن مسعودؓ نے عرض کیا ”ہاں! اس اللہ کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں یہ ابوجہل ہی کا سر ہے“ آپؐ نے تین دفعہ یہ الفاظ فرمائے”حمدہے اس ذات پاک کی جس نے اسلام اور اسلام والوں کو عزت بخشی۔پھر آپؐ نے سجدہ شکر ادافرمایا۔
ابولہب کاانجام:ابولہب کنیت تھی نام عبدالعزیٰ بن عبدالطلب تھا رشتہ میں حضور ﷺ کا حقیقی چچاتھا سب سے پہلے جب رسول اللہ ؐ نے قریش کوجمع کرکے اللہ کا پیام پہنچایا تو سب سے پہلے ابولہب نے ہی تکذیب کی اور کہا”اللہ تجھے ہلاک کرے کیا ہمیں اسی لئے جمع کیاتھا“اس پر سورۃ ”لہب“نازل ہوئی ابولہب بڑامالدار تھا اس لئے جب اس کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو کہتاتھا میرے بھتیجے کی بات تو قیامت کے دن مال اور اولاد کا فدیہ دے کر عذاب سے چھوٹ جاؤں گاسورہ لہب ”میں مال وکسب“اسی طرف اشارہ ہے، اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب کو بھی حضور ؐ سے خاص ضداور دشمنی تھی رات کے وقت آپؐ کے راستے میں کانٹے ڈال دیا کرتی تھی واقعہ بدر کے سات دن بعد ابولہب کے جسم پر ایک زہریلا پھوڑانمودار ہوا اور اسی میں ہلاک ہوا۔گھر والوں نے اس خوف سے کہ اس کی بیماری ہمیں نہ لگ جائے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا اسی طرح رسوائی کے ساتھ اس کی لاش تین دن تک پڑی پڑی گل سڑکرمتعفن ہوگئی،تین دن کے بعد اس کے بیٹوں نے عار اور بدنامی کے خیال سے چند حبشی مزدوروں کو بلا کر لاشہ اٹھوایا، مزدورں نے ایک گھڑا کھودا اور لکڑیوں سے دھکیل کربدبودار اور متعفن لاش کو اس گھڑے میں ڈال کر مٹی اور پتھروں سے اس کو بھردیا یہ تو دنیا کی ذلت ورسوائی اور آخرچھناہی کیاہے۔
امیہ بن خلف جحمی کا انجام:امیہ بن خلف آپؐ کو علی الاعلان گالیاں دیتا تھا اور جب آپ کے پاس سے گزرتا تو آنکھیں مٹکاتا جس پر سورۃ”ہمزہ“نازل ہوئی۔غزوہ بدر میں حضرت خبیب ؓ یا حضرت بلال ؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔
ابی بن خلف کا انجام:ابی بن خلف بھی اپنے بھائی امیہ کی طرح حضور ؐ کی دشمنی میں سرگرم تھا ایک دفعہ ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آپؐ کے پاس آیا اس کو ہاتھ میں مل کر اس کی خاک کو ہوامیں اڑاکر کہنے لگا اللہ اس کو پھر دوبارہ زندہ کرے گا؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں اس کو اور تیری ہڈیوں کو ایساہی ہوجانے کے بعد اللہ پھر زندہ کرے گا اور تجھے آگ میں ڈالے گا۔اس پرسورہ یاسین کی یہ آیت نازل ہوئی ”اور ہمارے لئے ایک مثال پیش کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول گیا“ابی بن خلف غزوہ بدر میں حضور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ سے مارا گیا،آپ ﷺ کے دست مبارک سے ایک برچھا اس کو لگااور ایک معمولی سی خراش سے چیختا چلاتا رہا۔
عقبہ بن ابی معیط کا انجام:عقبہ ابی بن خلف کا گہرا دوست تھا ایک دن عقبہ حضور ؐ کے پاس آکر کچھ دیر بیٹھ گیا اور آپ کا کلام سنا ابی بن خلف کو جب خبر ہوئی تو فوراً عقبہ کے پاس آیا اور کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تو محمد کے پاس جاکر بیٹھاہے اور ان کا کلام سنا ہے خداکی قسم جب تک محمدکے منہ پر جاکر نہ تھوک آئے اس وقت تک تجھ سے بات کرنا اور تیری صورت دیکھنا مجھ پر حرام ہے چنانچہ بدنصیب عقبہ اٹھا اور چہرہ انور پر تھوک آیا اس پر سورہ فرقان کی یہ آیت نازل ہوئی۔ترجمہ:اور اس دن کو یاد کرو جس دن حسرت اور ندامت سے اپنے ہاتھ منہ کو کاٹے گا اور یہ کہے گا کہ کاش میں رسول کے ساتھ اپنی راہ بناتا اور کاش فلانے کو اپنا دوست نہ بناتا۔آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی تو عقبہ نے آپؐ سے لڑنے کاشوق اور اپنے طنزکا اظہار ان الفاظ میں کیا،تر جمہ: اے ہمیں چھوڑنے والے قصویٰ اونٹنی کے سوار! کچھ مدت کے بعد تم مجھے گھوڑے پر سوار دیکھوگے میں اپنے نیزے کوبار بار تمہارے خون سے سیراب کروں گا اور میری تلوار تمہارے جوڑجوڑ کو مارے گی۔ یہ بدبخت غزوہ بدر میں قید ہوا،اور حضور ﷺکے ساتھ اس بدبخت کی اس طرح گفتگوہوئی۔عقبہ بن ابی معیط: ہائے افسوس! مجھے کس جرم میں قتل کیا جارہاہے۔حضور اکرم ﷺ: اس جرم میں کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہو۔عقبہ بن ابی معیط: اے محمد(ﷺ) مجھ پر احسان کرو اور عام قیدیوں کی طرح مجھے بھی رکھو یہ آپ کے لئے بہتر ہوگا۔حضور اکرم ﷺ:تیری عداوت اس درجہ کی ہے کہ تو ناقابل معافی مجرم ہے۔عقبہ بن ابی معیط: اے محمد!(ﷺ) میری بچیوں کا کیا بنے گا؟ حضور اکرم ﷺ: تیری بچیوں کے لئے جہنم کی آگ ہے اے عاصم! اس کو آگے کرو اور اس کی گردن اُڑادو۔حضرت عاصم ؓ نے آگے بڑ ھ کر اس کی گردن اُڑادی
ولیدبن مغیرہ کا انجام:ولید بن مغیرہ کہا کرتاتھا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ محمد پرتو وحی نازل ہو میں اور ابومسعودثقفی چھوڑدئیے جائیں حالانکہ ہم دونوں اپنے اپنے شہر کے بڑے معززہیں میں قریش کا سردار ہوں اور ابومسعودثقفی قبیلہ ثقیف کا سردارہے اس پر سورہ زخرف کی یہ آیت نازل ہوئی،ترجمہ:یہ کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیاگیا۔ولید ایک دفعہ قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص پرگزرا جو تیر بنارہا تھا اتفاق سے اس کے کسی تیر پر ولید کا پاؤں پڑ گیا جس سے معمولی سا زخم ہوگیا اور اسی زخم میں مرگیا۔
ابوقیس بن الفاکہ کاانجام:یہ بھی حضور نبی کریم ﷺ کو شدید تکلیف پہنچاتاتھا ابوجہل کا خاص معین ومددگار تھا غزوہ بدر میں حضرت حمزہ ؓ کے ہاتھ سے جہنم رسید ہوا۔
نضر بن حارث کا انجام:نضربن حارث سرداران قریش میں سے تھا تجارت کے لئے فارس جاتا اور وہاں شاہانِ عجم کے قصے اور تاریخی مواد حاصل کرکے لاتا اور قریش کو سناتا اور کہتا کہ محمد(ﷺ) تمہیں عادوثمود کے قصے سناتے ہیں اور میں تمہیں رستم واسفندیاراور شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں لوگوں کو یہ افسانے دلچسپ معلوم ہوتے تھے (جیسے آج کل قرآن کے مقابلہ میں ناول ہیں) لوگ ان قصوں کو سنتے ایک گانے والی لونڈی بھی خرید رکھی تھی لوگوں کو ان سے گانے سنواتا جس کسی کے متعلق یہ معلوم ہوتا کہ یہ اسلام کی طرف راغب ہے تو اس کے پاس اس لونڈی کو لے جاتا اور کہتا اس کو کھلا اور پلا اور گانے سن۔ پھر اس سے کہتا کہ بتلا یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے جس کی طرف محمد بلاتے ہیں کہ نماز پڑھو،روزہ رکھو اور دشمنوں سے جہاد کرو اس پر سورہ لقمان کی یہ آیت نازل ہوئی،ترجمہ:بعض آدمی اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کو خریدتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کرے اور اللہ کی آیتوں کی ہنسی اُڑائے ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔نضر بن حارث غزوہ بدر میں گرفتار ہوا۔بدر سے واپسی پر مقام اثیل پر حضور ﷺ کے سامنے قیدیوں کو پیش کیاگیا آپ نےؐ ٹکٹکی باندھ کر نضر بن حارث کی طرف دیکھا نضربن حارث نے اپنے قریب ایک ساتھی سے کہا خداکی قسم!محمدمجھے قتل کرنے ولاہے ان کی نگاہ میں مجھے موت آرہی ہے اس شخص نے کہا تجھے ویسے ہی ڈر لگ رہاہے،مرعوب ہوگئے ہو،اس دوران نضربن حارث اور حضرت مصعب بن عمیرکے درمیان درج ذیل مکالمہ ہوا۔نضربن حارث: اے مصعب!آپ میرے سب سے قریبی رشتہ دارہیں آپ محمدﷺسے بات کریں کہ مجھے قیدمیں رکھیں،قتل نہ کریں۔حضرت مصعب بن عمیرؓ:تم تووہی ہو جو کتاب اللہ کے بارہ میں مذاق اُڑایا کرتے تھے اور نبی کریم ﷺکے بارہ میں طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے،نضربن حارث:اے عمیر! آپ سفارش کریں کہ میرے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو جو دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہو۔حضرت مصعب بن عمیر: تم وہی شخص ہو نا جس نے محمد ﷺکے صحابہ کو ہرقسم کی اذیتیں پہنچائیں،نضربن حارث:اے مصعب!اگرتجھے قریش گرفتار کرلیتے تو خداکی قسم!میں تجھے کبھی قتل نہ ہونے دیتا۔مصعب بن عمیرؓ:یہ بات آپ کی بالکل صحیح ہے،لیکن میں تجھ جیسا نہیں،کیونکہ اسلام نے کفر سے رشتے توڑدئیے ہیں اس کے بعد حضور ﷺ کے حکم پر حضرت علیؓ نے اس کی گردن اُڑادی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.