گستاخانِ رسول کاانجام(قسط سوم)حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺکی موجودگی میں کئی گستاخوں کو جہنم رسید کیا ہے لیکن آپ ﷺنے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، بعض دفعہ خاموشی اختیار فرمائی ہے،بعض دفعہ تحسین فرمائی ہے اور بعض دفعہ گستاخوں کا قلع قمع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے،کیونکہ صحابہ کرام میں ایمان کامل درجے کا تھا اور جس قدر ایمان زیادہ ہوگا اسی قدر نبی کریم ﷺکی محبت زیادہ ہوگی،ان کا ایمان کامل تھا اس لئے نبی کریم ﷺکی محبت بھی کامل درجہ کی تھی،اس لئے وہ حضور نبی کریم ﷺ کے بارہ میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔اللہ تعالیٰ کو بھی نبی کریم ﷺکی گستاخی برداشت نہیں،ولید بن مغیرہ نبی کریم کو ایذادیتا تھا آپ کاتمسخر اُڑاتاتھا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ القلم کی یہ آیتیں نازل فرمائیں،ترجمہ:اور مت کہا مان ہرایک قسم کھانے والے ذلیل کا، عیب کرنے والا،لوگوں کوچلنے والا ساتھ چغلی کے،منع کرنے والا بھلائی سے،حدسے نکل جانے والا،گناہگار،گردن کش،جھگڑالو،نطفہ حرام (القلم)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس گستاخ کی 9 نشانیاں بیان فرمائی ہیں 1۔جھوٹا2۔کذاب اور ذلیل 3۔چرب زبان 4۔چغل خور5۔بھلائی سے روکنے والا6۔حدسے بڑھ جانے والا7۔ناپاک اور پلید8۔سخت جھگڑالو9۔نطفہ حرام۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شریف اور خاندانی شخص کبھی بھی نبی کریم ﷺکی گستاخی نہیں کرسکتا اور اس سے یہ بھی پتہ چلاکہ فرانس کا صدر میکرون کسی گلی کوچہ میں کسی بدکردار عورت کے پیٹ سے پیداہوا ہے،یورپ میں خاندانی آدمی کا ملناتو ویسے بھی مشکل ہے، اس کے باوجود بڑے خاندانوں میں کچھ لوگ شرافت کے بادے میں پائے جاتے ہیں لیکن یہ شخص انتہائی بدذات اور بے نسل ہے۔جو اپنی بے نسلی کا اظہار مسلسل کرتا رہتا ہے۔
ایک گستاخ عورت کا انجام:ایک عورت حضور نبی کریم ﷺکوگالیاں دیاکرتی تھی، نبی کریم ﷺنے فرمایا:”من یکفینی عدوی“میری دشمنی کی خبرکون لے گا؟حضرت خالدبن ولیدؓ اُٹھے اور جاکر اس عورت کی گردن اُڑادی۔
ایک مشرک گستاخ کا انجام:حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺکو گالی دی،تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا میرے اس دشمن کی خبرکون لے گا؟حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے:یارسول اللہ ﷺ میں حاضرہوں پھر حضرت زبیرؓ نے جاکر اسے قتل کردیا،رسول اللہ ﷺنے اس کاسامان حضرت زبیر ؓ کو دے دیا۔
گستاخ ام ولد باندی کا انجام:حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابیناشخص کی ام ولد (باندی) تھی جو نبی کریم ﷺکو گالیاں دیاکرتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی،وہ اس کو روکتا تھا مگر وہ نہ رکتی،وہ ڈانٹتا تھا مگروہ نہ مانتی تھی،ایک رات جب اس نے پھر نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کرنا شروع کی تو اس نابینانے ہتھیار (خنجر)لیا اور اس کے پیٹ پررکھا اور وزن ڈال کر دبا یا اور اس کو قتل کرڈالا،جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور ﷺکے ہاں ذکرکیا گیا،آپ ؐ نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا:اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جوکچھ کیا،میرا اُس پر حق ہے کہ وہ کھڑاہوجائے تو نابینا کھڑاہوگیا لوگوں کو پھلانگتا ہوا،اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہاتھا حتی کہ حضور ﷺکے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا یارسول اللہ!اس کو مارنے والا میں ہوں،وہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی،میں اسے روکتا تھا مگروہ رکتی نہ تھی،میں اسے دھمکاتاتھا وہ باز نہ آتی تھی اور اس سے میرے دوبچے ہیں جوموتیوں کی طرح (خوبصورت) ہیں وہ مجھ پر مہربان بھی تھی،لیکن آج رات جب اس نے آپ کے بارہ میں گالیاں دینی اور برابھلاکہناشروع کردیا تو میں نے خنجرلیا اس کے پیٹ پر رکھا اور زور دے کر اسے مارڈالا،نبی کریم ﷺنے فرمایا:لوگو! گواہ رہو،اس کا خون بے بدلا ہے،یعنی اس کی کوئی سزانہیں ہے،غیرت ایمانی اور محبت رسول کا ایسا جذبہ تھا کہ نہ اپنی معذوری کی پرواہ کی اور نہ اپنے بچوں کا خیال کیا باوجود اس کے کہ وہ ان صاحب پر مہربان بھی تھی اس کی خدمت بھی کرتی تھی،آپس میں محبت کا رشتہ بھی تھا مگر نبی کریم ﷺکی گستاخی ناقابل برداشت ہوئی اور تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر اسے جہنم رسید کردیا۔
گستاخ یہودیہ کا انجام:حضرت علی الرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی کریم ﷺکو گالیا دیتی اور برابھلا کہتی تھی،جس پر ایک مسلمان نے اس کا گلہ گھونٹ دیا،یہاں تک کہ وہ مرگئی،رسول اللہ ﷺنے اس کا خون ناقابل سزا قراردے دیا۔
انس بن زنیم دیلمی کا انجام:انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ ﷺکی شان میں گستاخی کی،اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا،اس نے انس پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا، انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آکردکھایا،عمر بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سوراوں کو لے کر رسول اللہ ﷺکے پاس مددطلب کرنے کے لئے گیا،انہوں نے آکر اس واقعہ کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیاتھا جب قافلہ والے گفتگو سے فارغ ہوئے تو تو انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ!انس بن زنیم الدیلمی نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے،تو رسول اللہ ﷺنے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا۔
عصما بنت مروان کا انجام:عصما بنت مروان بنی عمیر بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن یزید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی،یہ عورت رسول اللہ ﷺکو ایذا تکلیف دیا کرتی تھی،اسلام میں عیب نکالتی اور نبی کریم ﷺکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی،عمیر بن عدی الخطمیؓ،جن کی آنکھیں اس قدر کمزور تھیں کہ جہاد میں نہیں جاسکتے تھے،ان کو جب اس عوت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا پتہ چلاتو کہنے لگے اے اللہ! میں تیری بار گاہ میں نذرمانتا ہوں اگر تونے رسول اللہ ﷺکو بخیر وعافیت مدینہ منورہ لوٹادیا تو میں اسے ضرور قتل کروں گا رسول اللہ ﷺاس وقت بدرمیں تھے،جب نبی کریم ﷺغزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی ؓآدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے،اس کے ارد گرد اس کے بچے سوئے تھے،ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلارہی تھی،حضرت عمیر ؓ نے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلارہی ہے،حضرت عمیر ؓ نے بچے کو اس سے الگ کردیا پھر اپنی تلوار اس کے سینے پررکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی،پھر انہوں نے نماز فجر رسول اللہ ﷺکے ساتھ مسجد نبوی میں اداکی،جب رسول اللہ ﷺنماز سے فارغ ہوئے تو عمیر ؓ کی طرف دیکھ کرفرمایا:کیا تم نے بنت مروان کو قتل کردیا ہے؟کہنے لگے جی ہاں!میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں اے اللہ کے رسول!حضرت عمیر ؓ کو اس بات سے ذرا ڈر سالگا کہ کہیں میں نے حضور ﷺکی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا،کہنے لگے اے اللہ کے رسول!کیا اس معاملہ کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے؟آپ نے فرمایا:دوبکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں (یعنی اس معاملہ میں تم پر کچھ بھی نہیں،اس کا خون جائز تھا)پس یہ کلمہ رسول اللہ ﷺسے پہلی مرتبہ سنایاگیا،حضرت عمیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے اردگرد دیکھا توفرمایا:تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غیبی مددکی ہے،تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو،حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا:یہ نابینا تو ہم سے بازی لے گیا،اس نے ساری رات عبادت میں گزاردی،نبی کریم ﷺنے فرمایا: اسے نابینامت کہو،یہ بینا ہے۔
گستاخ بہن کا انجام:حضرت عمیر بن امیہ ؓکی ایک مشرکہ بہن تھی،حضرت عمیر ؓ جب نبی کریم ﷺکی طرف نکلتے تو وہ انہیں رسول اللہ ﷺکے بارہ میں اذیت دیتی اورنبی کریم ﷺکو گالیا بکتی،انہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی اور جاکر بہن کو اس تلوار سے قتل کر ڈالا،اس کے بیٹے تھے انہوں چیخ وپکار شروع کی اور کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ کس نے اسے قتل کیا ہے،کیا ہمیں امن ومان دے کر قتل کیا گیا ہے،جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریم ﷺکے پاس گئے اور آپ کو خبردی،نبی کریم ﷺنے فرمایا:”اقتلت اختک“کیا تم نے اپنی بہن کو قتل کیا ہے؟انہوں نے کہا،ہاں،آپ نے فرمایا ”ولم“تم اسے کیوں قتل کیا ہے؟تو انہوں نے کہا ”انہا کانت توذینی فیک“وہ مجھے آپ کے بارہ میں تکلیف دیتی تھی،نبی کریم ﷺنے اس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کسی اور کو قاتل بتایا،نبی کریم ﷺنے ان کو خبردی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو انہوں نے کہا ہم سنا اور مان لیا۔یہ تمام روایات ابوداؤد،کنزالعمال،المعجم الکبیر اور الصارم المسلول جیسی معتبر کتب حدیث سے لی گئی ہیں،جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام سمیت تمام اہل اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ”گستاخ رسول کی سزا سرتن سے جدا“اور یہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی منشا بھی ہے۔(جاری ہے)

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.