گستاخِ رسول ؐراجپال کا انجام.(پہلی قسط) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

1923 کی بات ہے کہ سوامی دیانند کے ایک چیلے مہاشہ کرشن (ایڈیٹر”پرتاب“لاہور)نے ایک نہایت ہی دل آزار اور بدنام زمانہ کتاب ”رنگیلارسول“کے نام سے لکھی،جس میں اس ننگ انسانیت نے آقائے دوجہاں،فخردوعالم ﷺ کے متعلق انتہائی دل آزار باتیں لکھیں،اس کے علاوہ اس کتاب میں قرآن کریم کی آیات اور احادیث قدسیہ کی غلط تاویلات کی گئیں،وہ مسلمانوں کے ایمان غیرت سے بھی واقف تھا اس لئے اس نے مسلمانوں کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے اپنے اصلی نام کے بجائے پروفیسر پنڈت چمپوپتی لال ایم اے کے فرضی نام سے یہ غلاظت بھری کتاب تصنیف کی،تاکہ اس کے خلاف کوئی اخلاقی یا قانونی کاروائی نہ کی جاسکے تاہم اس کتاب پر ”راج پال“ ناشر، ہسپتال روڈ لاہور کانام وپتہ درست لکھا ہواتھا،مسلمانوں نے ازراہ اخلاق اس سے ایسی دل آزار کتاب کے تلف کرنے کی درخواست کی مگر اس نے ہندووں کی پشت پناہی کے باعث مسلمانوں کے اس جائز مطالبے پر غور کرنے سے قطعی انکار کردیا،اس پر مسلمانوں نے 153الف کے تحت اس پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے راج پال کودوسال قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزاسنائی مگر اس نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی،جہاں دشمن اسلام اور حددرجہ متعصب چیف جسٹس سرشادی لال کی ذاتی سفارش پر جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے ملزم کو رہاکردیا،اس کامطلب یہ تھا کہ کسی پیغمبر بالخصوص آقائے دوجہاں ہادی برحق خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفی ﷺکی توہین ]نعوذباللہ[کوئی جرم نہیں اس پر مسلمانوں کی غیرت جاگ اُٹھی،اس کے خلاف متعدد جلسے جلوس ہوئے، لوگوں کے دلوں کے اندر آگ بھڑک اٹھی تھی، ادھر باہر بھی آگ بھڑک رہی تھی، مسلمانوں کے لیڈر، رہنما، سیاسی اورمذہبی خطیب پوری قوت سے کہہ رہے تھے کہ زبان دراز”راج پال“ کو عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ ایسا فتنہ پھر کبھی سر نہ اٹھائے، دفعہ 144 کا نفاذ تھا جس کی رُو سے کسی نوع کا جلسہ، اجتماع نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کے باوجودرئیس الاحرا چودھری افضل حق کی زیرصدارت مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگارہ شاہ محمد غوثؒ کے احاطہ میں منعقد ہوا،یہ جلسہ دہلی دروازہ کے باغ میں ہوناقرارپایاتھامگر ڈپٹی کمشنر کے دفعہ ۴۴۱کے نفاذاور پابندی کے باعث یہاں منعقد ہوا،،جب جلسہ شروع ہوا تو ڈپٹی کمشنرمسٹر اوگلوی نے خود آکر اعلان کیا کہ ”دفعہ ۴۴۱ کے باعث یہ مجمع خلاف قانون ہے،آپ لوگ پانچ منٹ کے اندر یہاں سے چلے جائیں ورنہ مجھے گولی چلانے کا حکم دینا پڑے گا“اس اعلان پر خواجہ عبدالرحیم غازی نے انگریز ڈپٹی کمشنر سے کہا ”ہم اس قانون کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں،جوقانون ہمیں ناموس پیغمبر کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا،تم جو چاہو کرو،ہم یہ جلسہ کریں گے“انگریز کے تمام تر جبر استبداد کے باجود عاشقانِ رسول کایہ جلسہ منعقد ہوا جس میں عاشق ِ رسول ؐ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے ناموس رسالت پربڑی رقت انگیز تقریر کی، وہ تقریر اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہوگئی، کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مار کر روے لگے۔ شاہ جی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:”آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربی ﷺ کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرۂ میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کا ناموس معرض ِ خطر میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔“اس جلسہ میں مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ دہلوی صدرجمعیت علماء ہنداورسحبان الہندمولانا احمد سعید دہلوی ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہندبھی موجود تھے۔ شاہ جی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:”آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ اور اُمّ المومنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں۔ ہم تمہاری مائیں ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ ارے دیکھو! کہیں اُم المومنین عائشہ صدیقہ ؓ دروازہ پر تو کھڑی نہیں۔“یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ ابل پڑے کہ سامعین کی نظریں ایک دم دروازے کی طرف اٹھ گئیں اورہر طرف سے آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے شاہ جی فرمایا:”تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو لیکن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج گنبد ِ حضریٰ میں رسول اللہ ﷺ تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہ ؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتاؤ، تمہارے دلوں میں اُمہات المومنین کے لئے کوئی جگہ ہے؟ آج اُمّ المومنین عائشہؓ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہی عائشہ ؓ جنہیں رسول اللہ ﷺ ”حمیرا“ کہہ کر پکارا کرتے تھے، جنہوں نے سید عالم ﷺ کو وصال کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ یاد رکھو کہ اگر تم نے خدیجہ ؓ اور عائشہ ؓ کے لئے جانیں دے دیں تو یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں“شاہ جی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا:”جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت ؐ پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اورڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دئیے جائیں۔ میں دفعہ 144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔“
پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں
داغ کا یہ شعر شاہ جی نے کچھ اس انداز سے پڑھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے۔ اس تقریر نے سارے شہر میں آگ لگا دی۔ لاہورمیں بدنامِ زمانہ کتاب، اس کے مصنف اورناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے۔ انہی دنوں امام الاولیاء حضرت مولانااحمدعلی لاہوری سابق مرکزی امیر جمعیت علماء اسلام کے ادارے انجمن خدام الدین نے شیرانوالہ دروازہ میں راجپال کے قتل کا فتویٰ دے دیا،سارا ماحول شعلوں سے بھرپور ہو گیا۔ ملک کے طول و عرض میں احتجاجی جلسے ہونے اورجلوس نکلنے لگے تھے۔ آخر ایک مردِ غازی اٹھا اور اس نے ایک صبح راجپال کی دکان پر جا کر چاقو سے حملہ کیا۔ تیس برس کا یہ مجاہد اندرون یکی دروازے کا شیر فروش”خدا بخش اکو جہاں“ تھا، آپ کے والد کا اسمِ گرامی محمد اکرم تھا، معروف کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ رہائش اندرون یکی دروازۂ لاہور میں تھی، بڑے خوبصورت جوان تھے۔ آپ کا جسم فربہ، رنگ سرخ و سپید، قد لمبا اورمضبوط و توانا تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے شیر فروش تھے، جلد سازی کا بھی کام کر لیتے تھے،ایک دن آپ نے ناموس رسالتؐ پر تقریر سنی تو حالات سے آگاہی ہوئی،یہ سن کر تڑپ اٹھے کہ خبیث راجپال نے اس کے آقا و مولا ﷺ پر کتاب لکھ کر انتہائی درجہ کی توہین کی ہے،24ستمبر1927ء کی صبح جہنمی راجپال اپنی دکان پر بیٹھا کاروبار میں مصروف تھا کہ غازی خدا بخش اکو جہاں آئے اور اس پر تیز دھار چاقو سے حملہ کر کے اسے مضروب کر دیا۔ وہ بدبخت تیزی سے اٹھا اور جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا اورقتل ہونے سے بچ گیا۔ پولیس نے غازی خدا بخش اکو جہاں کو زیر ِ دفعہ 307الف تعزیرات ِ ہند گرفتار کر لیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور سی۔ ایم۔ بی اوگلوی کی عدالت میں مقدمہ سماعت شروع ہوئی۔ غازی خدا بخش اکو جہاں نے اپنی جانب سے وکیل صفائی مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔ راجپال مستغیث نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا، مجھ پر یہ حملہ کتاب کی اشاعت اور مسلمانوں کے ایجی ٹیشن کی وجہ سے کیا گیا ہے، مجھے خطرہ ہے کہ ملزم خدا بخش مجھے جان سے مار دے گااورکچھ کہنا چاہتے ہو۔ جج نے پوچھا،راجپال بولا، حملہ کے وقت ملزم نے چلا کر کہا تھا، کافر کے بچے! آج تو میرے ہاتھ آیا ہے، میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا،اس پر جج نے غازی خدا بخش اکو جہاں سے استفسار کیا تو آپ نے گرجدار آواز میں کہا:”میں مسلمان ہوں، ناموس ِ رسالت ؐ کا تحفظ میرا فرض ہے۔ میں اپنے آقا و مولا ﷺ کی توہین ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔“پھر لعین راجپال کی طرف اشارہ کر کے کہا:”اس نے میرے رسول ِ مکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس لئے میں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن یہ کم بخت اس وقت میرے ہاتھ سے بچ نکلا۔“اقرارِ جرم کے بعد غازی خدا بخش اکو جہاں کو سات سال قید بامشقت، جس میں تین ماہ قید ِ تنہائی بھی شامل تھی، کی سزا دی اورمیعاد ِ قید کے اختتام پر پانچ پانچ ہزار روپے کی تین ضمانتیں حفظ امن کے لئے داخل کرنے کا حکم دیا۔
ڈراتا ہے ہمیں دار و رسن سے کیوں ارے ناداں
نبیؐ کے عشق میں سولی پہ چڑھنا عین ایمان ہے
اب بات ہند کی حدود سے باہر جا چکی تھی چنانچہ افغانستان کے عبدالعزیز نامی غیور تاجر 19/ اکتوبر1927ء کوہاٹ سے لاہور آیا اور لوگو ں سے دریافت کرتے کرتے اس بدذات ناشر کی دکان پر پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس وقت راج پال دکان میں موجود نہیں تھا۔ اس کی جگہ اس کے دوست جتندر داس اور سوامی ستیانند بیٹھے تھے۔ غازی موصوف نے سوامی ستیانند کو راج پال سمجھااورمیان سے تلوار نکال کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے بعد خود ہی چلاکرکہہ دیا کہ میں نے موذی کا خاتمہ کردیاہے۔ میرے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ غازی عبدالعزیز نے عدالت میں یہ بیان کیا:”میرا نام عبدالعزیز ہے۔ میں غزنی کا رہنے والا ہوں۔ میرے وطن کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے سلطان محمود غزنویؒ جیسامجاہد‘ مبلغ اور بت شکن پیدا کیا تھاجس نے اس بر صغیر پر کم وبیش سترہ حملے کر کے کفر والحاد کا خاتمہ کیا تھااور اس بت کدہ کو اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔ یہی وہ بت شکن ہے جس کے سامنے سومنات کے پجاریوں نے دولت کے انبار لگادیئے تھے اور کہا تھا کہ مہاراج یہ ساری دولت لے لیں مگر ہمارے بتوں کو کوئی گزندنہ پہنچائیں۔ لیکن اسلام کے اس فدائی نے بلا جھجک کہا تھا کہ مسلمان بت شکن ہے‘ بت فروش نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے سومنات کے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا،یہی وہ غازی تھاجس نے سناتھاکہ ملتان میں ایک قرامطہ فرقہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتاہے‘ لیکن دراصل کافر اور بت پرست ہے۔ ان کی ریاکاری کی انتہایہ ہے کہ وہ فرقہ نماز تو باقاعدگی سے اور باجماعت پڑھتا ہے لیکن سامنے نعوذ باللہ حضرت رسول کریم ﷺ کی ایک فرضی شبیہہ بنا کر رکھتا ہے۔ محمود غزنوی یہ اندوہناک رپورٹ ملتے ہی بگولے کی طرح یہاں پہنچا تھا اور اس نے قرامطی داؤد حاکم ملتان کا خاتمہ کر کے وہاں اسلام کا پرچم لہرایا تھا۔ مجھے خواب میں سلطان محمود غزنویؒ نے حکم دیا تھا کہ جاؤ اور اس ملعون کے پرخچے اڑا کر ثواب ِ دارین حاصل کرو۔ مجھے افسوس ہے کہ اصل خبیث کو جہنم واصل نہ کر سکا۔“غازی کا پرمغز اور عالمانہ خطبہ سن کر ہر مسلمان عش عش کر اٹھا۔ فرنگی حکومت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ایم۔ بی۔ اوگلوی نے قانونی تقاضوں اورکچھ مصالحتوں کی بنا پر عبدالعزیز خان کو شہادت کا اعزاز بخشنے کی بجائے صرف چودہ سال قید کی سزا دی۔ غازی کے خلاف انتہائی عجلت میں فیصلہ کیا گیا، عبدالعزیز وکیل کے بغیر پیش ہوئے۔ عدالت اتنی جلدی میں تھی کہ وکیل بنانے کے لئے وقت ہی نہ ملتا۔ 9/اکتوبر 1927ء کو حملہ ہوا، 11/اکتوبر کو عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، 12/اکتوبر کو عدالت نے سات سال قید ِ سخت کی سزا دی۔ تین ماہ قید ِ تنہائی، رہائی کے بعد پانچ پانچ ہزار روپے کی تین ضمانتیں دینا قرار دیا۔ شاید ہی کبھی عدالت میں قتل کے مقدمات اس عجلت سے پیش ہوئے اور وکیل کے بغیر نمٹا دئیے گئے ہوں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.