گستاخ رسول راجپال کا انجام (دوسری قسط) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

اب غازی علم الدین کی قسمت جاگ اُٹھی،غازی صاحب 4ستمبر 1908 ء کو محلہ چابک سواراں محلہ سر فروشاں لاہور میں پیداہوئے تھے،ان کے والدکانام طالع مند تھا جوکسب معاش کی خاطر نجار کاپیشہ اختیار کئے ہوئے تھے یعنی لکڑی کاکام کرتے تھے،غازی علم الدین جنوری 1928ء میں اپنے والد کے ساتھ کوہاٹ چلے گئے اور وہیں بازار میں فرنیچر کا کاروبار کرنے لگے،مارچ 1929ء کو ان کے بڑے بھائی محمدالدین کے ہاں ایک لڑکی پیداہوئی،غازی صاحب نومولود بھتیجی کو دیکھنے لاہور آئے،انہی دنوں ماموں کی بیٹی سے طے ہوئی،غازی صاحب کو اپنے گھر اور کام سے سروکارتھا،باہر جو طوفان برپا تھا وہ اس سے بالکل بے خبر تھا،اس وقت اسے یہ بھی علم نہ تھا کہ گندی ذہنیت کے شیطان صفت راجپال نامی بدبخت نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان کے خلاف ایک دل آزار کتاب (رنگیلا رسول) شائع کر کے کروڑوں مسلمانو ں کے جذبات کو مجرور کیاہے۔“وہ سیدھے سادھے مسلمان یعنی انسان تھے۔ باہر تو اور بھی کئی طوفان اٹھ رہے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد زندہ باد! انقلاب زندہ باد! فرنگی راج زندہ باد اور اسی نوع کی فلک شگاف نعرے رات دن گونج رہے تھے۔ ادھر ان کی سب کو تہس نہس کرنے کے لیے راجپال نے نفرتوں اور کراہتوں سے لدا پھندا طوفان برپاکر دیا ہے۔اس طوفان بد تمیزی سے ہند و آپس میں بٹ گئے۔ مسلم دشمن ایک طرف ہوگئے۔ عدل وانصاف کے پرستار اور ہندو مسلم اتحاد کے طلبگار دوسری طرف ہوگئے۔ ثانی الذکر کی تعداد کم تھی چنانچہ ان کی دال نہ گل رہی تھی۔اب تو علم الدین کے دل میں بھی طوفان برپاہواجس نے ایک دم ان کی سوچ ہی بدل دی۔شاید ان کی گھریلو تعلیم و تربیت کا یہی نتیجہ تھا۔ علم الدین کی سرفرازی اور ان کے گھرانے کی سربلندی کا وقت آ گیا تھا۔ قدرت کو اسی گھڑی کا انتظار تھا، وقت نے انہیں اسی کے لئے تیار کیا تھا۔ انہوں نے امن و سکون سے جو بیس سال گزارے، وہ اب زندگی کے نئے موڑ پر آ گئے، ہوا کا رُخ بدل گیا،راجپال کا معاملہ اتنی اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ دلی دروازے کے باغ میں اس کا ذکر لازم ہو گیا۔ علم الدین حالات سے بے خبر تھے۔ ایک روز حسب ِ معمول کام پر گئے ہوئے تھے، غروبِ آفتاب کے بعد گھر واپس جا رہے تھے تو دلی دروازے میں لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا۔ ایک جوان کو تقریر کرتے دیکھا تو رکے، کچھ دیر سنتے رہے لیکن ان کے پلے کوئی بات نہ پڑی۔ قریب کھڑے ایک صاحب سے انہوں نے دریافت کیا تو انہوں نے علم الدین کو بتایا کہ راجپال نے نبی کریم ﷺ کے خلاف کتابی چھاپی ہے، اس کے خلاف تقریریں ہو رہی ہیں۔ وہ دیر تک تقریریں سنتے رہے۔ پھر ایک مقرر آئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے، یہ علم الدین کی اپنی زبان تھی جس کی تربیت گھر سے ملی تھی، اردو کی تعلیم مدرسے سے ملتی تھی، مدرسے وہ گئے ہی نہیں۔ پنجابی تقریر اچھی طرح ان کی سمجھ میں آئی جس کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے کتاب چھاپی ہے جس میں ہمارے پیارے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے اور نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں،راجپال واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیز حرکت کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔علم الدین کی زندگی کے تیور ہی بدل گئے، پڑھے لکھے نہ تھے، سیدھے سادھے مسلمان تھے۔ اورکچھ نہ سہی کلمہ تو انہیں آتا تھا، یہی بہت بڑا سرمایہ حیات تھا ان کے لئے۔ کلمے میں اللہ تعالیٰ اور رسول ؐ کا نام ایک سانس میں لیتے تھے۔ یہی دو سہارے، دو محورتھے ان کی سوچ کے۔دلی دروازے کے باغ سے آتش نوا مقرروں کو تقریریں سن کر دیر سے گھر آئے تو طالع مند (والد) نے پوچھا، دیر سے کیوں آئے ہو؟ تو انہوں نے جلسے کی ساری کاروائی بیان کی۔ راجپال کی حرکت کا ذکر کیا اوریہ بھی بتایا کہ جلسے میں اسے واجب القتل قرار دیا گیا ہے۔ طالع مند بھی سیدھے سادھے کلمہ گو تھے۔ ہر مسلمان کی طرح انہیں بھی اپنے نبی ؐ کی شان میں گستاخی گوارا نہ تھی۔ انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ رسول ِ اکرم ﷺ کی ذات پر حملہ کرنے والے بداندیش کو واصل ِ جہنم کرنا چاہئے۔یوں علم الدین کو گویا گھر سے بھی اجازت مل گئی اور دشمن کا کام تمام کرنے کے خیال کو تقویت پہنچی۔ علم الدین کے دل میں جو بھانبڑ مچا تھا اس کی خبر کسی کو نہ تھی۔ وہ اپنے دوست شیدے سے ملتے، راجپال اور اس کی کتاب کا ذکر کرتے، ان دنوں کوچہ و بازار میں ہر جگہ یہی موضع زیر ِ بحث آتا۔ جہاں دو بندے اکھٹے ہوئے، راجپال کی حرکت پر تبادلہ خیال شروع ہو گیا۔ فرنگی کی جانبداری، مجرم کو کھلی چھٹی دینے اورمسلمانوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنانے کا تذکرہ ہوتا۔ مسلمانوں کی تاریخی رواداری اورغیر مسلم ہمسایوں سے حسن ِ سلوک کی باتیں ہوتیں۔ رات دن یہی ہوتا باقی تمام موضوع اس موضوع میں دب کر رہے گئے۔ ذکر ِ خدا اورذکر ِ محمدؐ کو اولیت حاصل نہ ہو تو اور کس موضوع کو ہو؟ شید اچھا لڑکا تھا لیکن ایک بھلے آدمی نے طالع مند کے دل میں شک بٹھا دیا کہ وہ آوارہ ہے، علم الدین کی اس سے دوستی ٹھیک نہیں۔ طالع مند نے بیٹے کو سمجھایا لیکن بات نہ بنی۔ علم الدین کا یہی ایک نوجوان مزاج آشنا تھا، اسی کے ساتھ علم الدین گھومتے پھرتے۔پتہ نہ چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے؟ کہاں ہے دکان اس کی؟ کیا حلیہ ہے اس کا؟انجام کار علم الدین کو شیدے کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ شاتم رسول ہسپتال روڈ پر دکان کرتا ہے۔ طالع مند کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ علم الدین کو کیا ہو گیا ہے، کام پر باقاعدہ نہیں جاتا، کھانے کا بھی ناغہ کر لیتا ہے۔ کیا عجب کہ علم الدین کے روز و شب کے معمولات میں جو بے قاعدگی آئی ہے اس کا سبب شیدا ہو، جس کے باپ کی نسبت خبر ملی کہ وہ جواری ہے اوراپنی دکان جوئے میں ہار چکا ہے۔طالع مند کی طبیعت غصیلی تھی۔ علم الدین جب دیر سے گھر آئے اور طالع مند کو پتہ چلا کہ شیدے لوفر کے ساتھ پھرتے رہے ہیں تو وہ غصے سے لال پیلے ہو گئے۔ باپ کے سامنے جوان بیٹا خاموش سر جھکائے کھڑا رہا۔ باپ کا ادب بھی تھا، ڈر بھی تھا۔ باپ نے انہیں پکڑ کر دھکیلا اورکہا، چلا جا اس لوفر کے پاس۔بڑے بھائی محمد دین کو اپنے چھوٹے بھائی سے بڑا پیار تھا۔ فوراً بیچ بچاؤ کے لئے آئے اور باپ کو منا لیا۔ بھائی اندر لے گیا اورناصحانہ درس دیا، اونچ نیچ سمجھائی، بری صحبت سے بچنے کو کہا۔علم الدین کو اپنی ذات پر یقین تھا اورجانتے تھے کہ وہ بری صحبت کے شکار نہیں، شیدے کے حوالے سے بری صحبت کا سن کر آبدیدہ بھی ہوئے اور برہم بھی۔ وہ پوری طرح واضح نہیں کر سکتے۔ ان کے دل میں جو بھانبڑ مچا تھا اس کا وہ کیسے ذکر کرتے؟ موت اورزندگی کا سوال تھا، انہوں نے سر پر کفن باندھ لیا تھا لیکن کسی کو نظر نہ آ رہا تھا۔ اپنے ارادے کا خفیف سا اشارہ بھی کسی کو نہ دے سکتے تھے۔ مبادا کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے اور وہ شک کی بھول بھلیوں میں جا پہنچیں۔ البتہ اب اتنا ضرور ہو گیا کہ گھر میں راجپال کے قتل کی بات عام انداز میں ہونے لگی، اس گفتگو میں طالع مند اور علم الدین شریک ہوتے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، گھر گھر اس کا چرچا تھا۔ اب غازی علم الدین حرکت میں آئے۔ ان کا رویہ والدین کے لئے تشویش ناک تھا، علم الدین کے کام میں بے قاعدگی اور طبیعت میں بے کلی آ گئی تھی، اکھڑ پن آ گیا تھا روئیے میں۔ طالع مند نے علم الدین کے بارے میں سوچا، اس اکھڑ پن کا ایک ہی علاج ہے کہ اس کا بیاہ کر دیا جائے۔ ماں باپ کو اولاد کی پریشانی کے سلسلہ میں یہی نسخہ یاد ہے، سب اسی کو آزماتے ہیں۔ طالع مند نے فیصلہ کر لیا کہ علم الدین کو جلد ہی سلسلہ ازدواج میں منسلک کر دیا جائے گا۔ ادھر علم الدین کی حالت ہی اور تھی۔(جاری ہے)

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.