میں نے جس عہد کا ذکر کیا، اس میں آج پچاس کروڑ مسلمان جکڑے ہوئے ہیں جو کسی قانوی دفعہ، پھانسی کے پھندے یا تلوار کے گھاؤ سے ڈر کے اس عہد سے رُوگردانی نہیں کر سکتے لہٰذا جہاں تک ”ناموس ِ محمدؐ “ کا سوال ہے، مسلمان کا رونگٹا رونگٹا عبدالقیوم ہے۔پس میری عرض ہے کہ ایک ایسے معصوم انسان کو جو ذہنی اورتربیتی طورپر بلائنڈ فیتھ کی رسی میں جکڑا ہوا ہے، جو ایک اَن پڑھ دیہاتی نوجوان ہے اور اپنی افتادِ طبع کے مطابق فوری اشتعال کے تحت اس فعل کا مرتکب ہوا ہے، جس کو آج بھی وہ اپنا فرض عین سمجھ رہا ہے۔ اسے کسی سزا کا مستوجب نہیں ہونا چاہئے اور اگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ہے تو اسے تھوڑی بہت قید بامشقت سے زیادہ کوئی سزا نہیں دی جانی چاہئے۔ آپ کی عدالت جنسی رقابت کے معاملے میں رقیب کو دن دیہاڑے قتل کرنے والے اقبالی مجرم کو بری کر سکتی ہے اور اراضی کے قبضے اور بے دخلی کے سلسلہ میں مالک کو ہلاک کرنے والے مزارع کے لئے صرف چار چھ سال کی سزا کافی سمجھتی ہے تو عبدالقیوم کے معاملے میں کیوں نرمی سے کام نہیں لے سکتی؟ عدالت نے بحث سننے کے بعد اسی دن فیصلے کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ مقررہ تاریخ پر دفتری اوقات شروع ہونے سے پہلے ہی ہندو اورمسلمانوں کے ہجوم عدالت کے باہر جمع ہو گئے۔ کراچی کے علاوہ حیدر آباد، ٹھٹھہ، نواب شاہ، بہاولپور اورپنجاب تک سے لوگ کشاں کشاں آئے تھے۔ نظم و نسق کے لئے پولیس کی بھاری تعداد موجود تھی۔ مشہورہندو لیڈر، وکیل اورصحافی آئے ہوئے تھے۔ مسلم اکابرین میں سے متعدد اصحاب تشریف لائے تھے۔ ہندو…… مسلمان سب امید و بیم میں تھے۔ البتہ جن مسلم اصحاب کو خفیہ ذرائع سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ جیوری کی اکثریت سزائے موت کی بجائے حبس دوام کے حق میں ہے، وہ اسی کو غنیمت جان کر قدرے مطمئن تھے۔ میں وکیلوں کی صف میں ایک کرسی پر بیٹھا یہ سب نقشہ دیکھ رہا تھا، اضطراب اوربے چینی کی کیفیت طاری تھی۔ اچانک ڈائس پر جج نمودار ہوا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں نے قبل ازیں قتل کے کئی مقدمات کی پیروی کی تھی جن میں سے بعض کو پھانسی ہوئی، بعض رہا ہوئے مگر دل کی یہ کیفیت پہلے کبھی نہ تھی۔ تقریباً دو منٹ موت کی سی خاموشی طاری رہی۔ پھر جج کے اشارے پر پیش کار نے چپڑاسی سے کہا کہ ملزم حاضر کیا جائے۔ غازی بیڑیاں پہنے سر اٹھائے سنگین بردار محافظوں کے حلقے میں عدالت کے کٹہرے میں آ کھڑا ہوا۔ پھر ایک مہیب سناٹا چھا گیا۔ جج نے ایک فائل الٹ پلٹ کر دیکھی اور ریڈر سے کچھ سرگوشی کی۔ اس نے ایک کاغذ کی طرف اشارہ کیا۔ جج نے وہی کاغذ اٹھایا اوردھیمی آواز میں پڑھ کر سنایا:”عبدالقیوم خان تمہیں موت کی سزا دی جاتی ہے۔“غازی عبدالقیوم کے منہ سے ذرا تھرتھرائی ہوئی آواز میں بے ساختہ نکلا ……الحمدللہ……پھر کچھ سنبھلا اور تن کر کھڑا ہو گیا۔ دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا قد ایک فٹ اونچا ہو گیا ہو۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ابھر آئی جس میں بے پایاں مسرت ملی ہوئی تھی۔ اس کے لب ہلے، حاضرین نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:”جج صاحب میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس سزا کا مستحق سمجھا۔ یہ ایک جان کیا چیز ہے میرے پاس لاکھ جانیں ہوتیں تو وہ بھی ایک ایک کر کے اسی طرح نبی ﷺ کے نام پر قربان کر دینا…………اللہ اکبر…………۔“یہ نعرہ مستانہ اس زور سے گونجا کہ اس کی گونج کمرۂ عدالت، گیلری، برآمدے اورباہر والوں نے بھی سنی۔ وہ سمجھے کہ عبدالقیوم بری ہو گیا ہے۔غازی عبدالقیوم تو حکم سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے جیل چلا گیا اورمجھے حکومت نے پرفیشنل مس کنڈکٹ کا نوٹس دے دیا جس میں حدودِ قانون سے متجاوز ہو کر بحث کرنے کا الزام تھا۔ میں نے دوسری عدالت میں اس الزام کو غلط اوربے بنیاد ثابت کر کے پہلی عدالت کی جہالت پر مہر ثبت کی۔چند روز بعد میں نے اپنے تین رفیقوں حاجی عبدالخالق صاحب، مولوی ثناء اللہ صاحب اورمولانا عبدالعزیز صاحب پر مشتمل وفد اپنے استاد علامہ اقبال ؒ کی خدمت میں بھیجا کہ سزائے موت کو عمر ِ قید میں تبدیل کرانے کے لئے وائسرائے تک سفارش پہنچائیں۔ جب مسلمانوں کے اس وفد نے علامہ اقبال ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ غازی عبدالقیوم شہید کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لئے وائسرائے ہند سے سفارش کی جائے تو پہلے تو وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر عجیب تیوروں کے ساتھ پوچھا، کیوں؟ کیا عبدالقیوم کمزورپڑ گیا ہے؟ جواب ملا، نہیں۔ علامہ اقبال ؒنے برہمی لہجے میں فرمایا:”جب وہ کہہ رہاہے کہ میں شہادت خریدی ہے‘تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہوسکتا ہوں؟کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لئے وائسرائے کی خوشامد کروں‘جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مرگیا تو شہید ہے۔“ پھر آپؒ نے تفسیرِ خودی ان الفاظ میں بیان فرمائی: ؎
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالمِ معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دِیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
میں نے ایک طرف یہ وفد علامہ ؒ کے پاس روانہ کیا، دوسری طرف گورنر بمبئی کے نام رحم کی عرضداشت بھیج دی۔ اس کا جواب ملا، درخواست زیر غورہے، دو ہفتے تک آپ کو نتیجے سے آگاہ کر دیا جائے گا۔گورنر بمبئی کا جواب ملے تیسرا روز تھا کہ صبح کے وقت میں نے اپنے دفتر میں سنا کہ رات غازی عبدالقیوم کو پھانسی دے دی گئی۔ میں مولانا عبدالعزیز کولے کر جیل پہنچا تو پرائیویٹ ذریعہ سے پتہ چلا کہ صبح اذان کے وقت غازی کے لواحقین کو ان کی جائے قیام پر جگا کر بتایا گیا کہ عبدالقیوم کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ لاش کو پولیس سرکاری گاڑی میں رکھ کر میوہ شاہ قبرستان لے گئی ہے، جنازہ تیار ہے، منہ دیکھنا ہے تو جلد چلو،ہم لوگ قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ میت قبر میں اتاری جا چکی ہے کہ مسلمانوں کا جم غفیر وہاں پہنچ گیا اور اس نے مٹی ڈالنے نہ دی۔ ایک جوشیلا قومی کارکن قلندر خان قبر میں کود گیا اورمیت کو لحد میں سے نکالا، چارپائی کفن وغیرہ کا بندوبست پہلے سے ہو چکا تھا، فوراً لاش کو کفنایا اور جنازہ لے کر روانہ ہو گئے۔یہ خبر آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ کراچی مسلم اکثریت کا شہر تھا اورصبح کا وقت۔ دیکھتے ہی دیکھتے دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود دس بارہ ہزار مسلمان جمع ہو گئے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فوراً فوج طلب کر لی۔ ہم اس عرصہ میں راستہ کاٹ کر چاکیواڑہ کے قریب ایک تنگ گلی سے گزر کر جنازے کے قریب پہنچ گئے، بے پناہ ہجوم تھا۔ کندھا دینے والوں میں قلندر خان خاصا نمایاں نظر آ رہا تھا۔ اچانک ہجوم کا ریلا آیا اورپھر برابر والی پتلی گلی سے ”تڑتڑ“ کی آواز گونجی۔ نظر اٹھا کر آگے کا جائزہ لیا تو قلندر خان کے بدن سے خون کا فوارہ اُچھلتے دیکھا، اس کے باوجود وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جنازے کو کندھا دئیے جا رہا تھا۔ چند منٹ بعد وہ زخموں سے نڈھال ہو کر گر پڑا۔ نہتے اورپر امن جلوس پر گوروں نے بے تحاشا فائرنگ کی۔ سینکڑوں مسلمان شہید اور ہزاروں مجروح ہو گئے۔ اندھا دھند فائرنگ کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مکانوں اورجھونپڑیوں میں بیٹھے بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی اس کا نشانہ بن گئیں۔ حالات قدرے پرسکون ہوئے تو میں، مولانا عبدالخالق، مولانا عبدالعزیز اور حاتم علوی زخمیوں کی عیادت کے لئے سول ہسپتال گئے۔ ہسپتال کے اردگرد پولیس کی بھاری تعداد اورکچھ فوج بھی موجود تھی۔ہم کسی نہ کسی طرح شہیدوں اور زخمیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں تک میری یاداشت کا تعلق ہے۔ میں نے 106لاشیں گنیں اور بعد میں ان کی تعداد ایک سو بیس ہوگئی۔ ہسپتال میں کہرام مچا ہوا تھا، لاشیں علیٰحدہ کی جا رہی تھیں۔ تڑپتے، سسکتے، کراہتے اور چیختے ہوئے زخمی الگ……بڑی تعداد ایسے زخمیوں کی تھی جن کے ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں کے ٹکڑے اڑ گئے تھے۔ حادثہ اتنا مہیب تھا کہ بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ پھر صبح کے وقت جب جوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ہاتھ پاؤں سے بھری ہوئی ایک وین سول ہسپتال سے نکلی تو بے اختیار میری چیخ نکل گئی۔ بلکہ کئی دن تک حواس بجا نہ ہوئے۔ بے شمار لاشیں ان کے وارثوں نے پولیس میں رپٹ دئیے بغیر چپکے سے دفن کر دیں۔اتفاق سے ان دنوں دہلی میں مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ ہم نے وائسرائے کے نام ایک تار دیا، ساتھ ہی ایک قاصد بذریعہ ریل قائداعظم کے پاس روانہ کیا۔ کراچی میں ہم نے مسلم ریلیف کمیٹی قائم کی جس کی امداد کے لئے دہلی اورلاہور دونوں نے چندے دئیے۔ ادھر قائداعظم نے اسمبلی میں آواز بلند کی، پھر تو ہماری آواز برٹش پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بھی گونجی۔ سر ونسٹن چرچل نے اظہارِ تاسف کیا۔یہ شمعِ رسالتؐ کے پروانے کی ایمان پرور داستان ہے جس نے عشق رسول ﷺ کے لئے اپنی نئی نویلی دلہن،ماں باپ اور بہن بھائیوں کی پرواہ کئے بغیر جان سے گزرنے کو ضروری سمجھتے ہوئے ایک گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے حیات جاودانی کوحاصل کیا اور قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ جب آقائے دوجہاں ﷺکی ناموس پر کوئی بدبخت حملہ آور ہو تو ایسے حالات میں جان کا زیاں لاکھوں زندگیوں پر کروڑوں درجہ فوقیت رکھتا ہے۔
گستاخِ رسولﷺ ”نتھورام“کاانجام(آخری،قسط)حافظ مومن خان عثمانی
You might also like