تحریک لبیک پاکستان ٹی ایل پی کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی 54 برس کی عمر میں دنیا چھوڑ گئے۔ ان کی اچانک ناگہانی وفات پر ہر آنکھ اشکبار ہے وہ اپنی آخری ساس تک ناموس رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے سر گرم رہے۔ انہوں نے قران پاک حفظ کیا ہوا تھا۔ عربی اور اردو کے علاوہ فارسی زبان پر بھی عبور تھا۔ علامہ خادم حسین رضوی 22 جون 1966ء کو ضلع اٹک کے علاقہ نکہ توت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جہلم و دینہ سے حاصل کی۔ جس کے بعد انہوں نے درس نظامی جامعہ نظامیہ لاہور سے مکمل کیا۔ علامہ خادم حسین رضوی نے 2017ء کے اسلام آبادمیں دھرنے کے بعد سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔2017ء میں انہوں نے تحریک لبیک کی بنیاد رکھی‘ سندھ اسمبلی میں انکی پارٹی نے دو نشستیں حاصل کیں اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی کئی نشستوں پر امیدواروں نے خاصے ووٹ حاصل کئے۔ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے بعد تحریک لبیک ووٹوں کے لحاظ سے چوتھی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی۔ ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر بلاشبہ وہ عاشقِ رسول تھے۔ پاسبانِ ختم نبوت تھے خود کو رسول اللہ کا چوکیدار کہتے تھے۔ ناموس رسالت کے حوالے سے جب کوئی معاملہ اٹھا تو وہ تڑپ اٹھتے تھے۔ فرانسیسی صدر کے گستاخانہ موقف پر انہوں نے اسلام آباد تک ریلی نکالی اور فیض آبادمیں ایک بار پھر دھرنا دیا اور حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنا موقف منوانے کے بعد دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ خادم حسین رضوی ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔ خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی، جبکہ عام انتخابات 2018 ء میں ٹی ایل پی ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔تحریک لبیک انتخابات کے دوران لاکھوں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔خادم رضوی بچپن سے ہی خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کرنے والی شخصیت تھے جبکہ زمیندار گھرانے سے تعلق کے باوجود بھی غریبوں کی مدد کرتے تھے۔خادم حسین رضوی جامعہ نظامیہ بھاٹی گیٹ لاہور کے مہتمم بھی رہے ہیں۔ اس سے قبل پیر مکی مسجد لاہور کی بھی امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔2007 میں اپنی والدہ کے چہلم میں شرکت کے بعد واپسی پر خادم رضوی کی گاڑی تلہ گنگ میں حادثے کا شکار ہوئی اور ان کا نچلا دھڑ متاثر ہوا، جس کے بعد سے وہ وہیل چیئر کے ذریعے نقل وحرکت کرتے تھے۔وہ کئی سال تک محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب رہے، جہاں انہیں منفرد انداز بیان کی وجہ سے شہرت ملنا شروع ہوئی۔خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔اب ان کی وفات کے بعد یہ سوال فطری طور پر جنم لے رہا ہے کہ ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟،کیا یہ جماعت ایسے ہی پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب میں باالخصوص شدت پسندانہ رجحان والے مذہبی نظریات کو فروغ دے کر ملکی معاشرت و سیاست پر اثرانداز ہوگی یا پھر ماضی کی ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہو گی جو اپنے قائدین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد ماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گی۔خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی اٹھارہ رکنی شوری نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا خادم رضوی جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے اس خلا کو، بعض مبصرین کے مطابق سنی بریلوی عقیدہ کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بہت تیزی سے پر کیا تھا۔ جس کی قیادت اب عملی طور پر نوجوان سعد رضوی کے ہاتھ میں آگئی ہے۔علامہ خادم رضوی کا جنازہ بتارہا ہے کہ یہ جماعت مستقبل میں اپنی سٹریٹ پاور کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر اثرانداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔تحریک لبیک پاکستان کا سیاسی سفر کم و بیش چار سال پر محیط ہے۔اس دوران یہ جماعت عملی طور پر پاکستان کی اکثر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے سربراہ یعنی علامہ خادم رضوی کے گرد ہی گھومتی رہی۔خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی پارٹی کا مستقبل ان کی پارٹی قیادت کی جانشینی کی اہلیت سے جڑا ہوا ہے۔ایک مشہور واقعہ جب پولیس والوں نے انہیں وہیل چیئر سے اتارکر گھسیٹا تو آپ مسکرانے لگے۔یہ دیکھ کر پولیس والے نے تعجب سے پوچھا مولوی صاحب!آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟آپ نے ہنستے ہوئے ایک لازوال جملہ کہا "ہنس میں اس لیے رہا ہوں کہ جس کے لیے تم مجھے گھسیٹ رہے ہووہ تمہیں نہیں دیکھ رہے،اور جس کے لیے میں گھسیٹاجارہا ہوں وہ مجھے ضرور دیکھ رہے ہیں "اللہ پاک آپ مولانا کی قبر کو نور سے منور فرمائے آمین۔