16مئی 1937ء کی شب کا ابھی آغاز ہوا تھاکہ مدراس میں تھامس ماؤنٹ چھاؤنی میں ڈیوٹی سے فارغ فوجی سپاہی مختلف گروپوں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ انہی میں ایک طرف چند مسلمان نعت ِ رسول کریم ﷺ سننے میں محو تھے۔ اتفاق سے جو شخص نعت شریف سنا رہا تھا، وہ ایک ہندو تھا، یہ بڑی خوش الحانی اور عقیدت مندی کے ساتھ نعت سرا تھا۔وہ خوش الحان تو تھا ہی‘آوازمیں ترنم‘لہجے میں مٹھاس اور عقیدت کا رنگ بھی دلچسپی کا سامان پیداکرگیا مسلمان فوجی اپنی اپنی جگہوں سے کھسک کر اس کے پاس اس کے اردگرد آبیٹھے‘اس نعت کا آخری مصرع تھا ”واہ واہ پیارے محمد“ہندونعت گو بارگاہِ رسالت میں اپنانذرانہ عقیدت کچھ اس والہانہ انداز میں پیش کررہاتھا کہ جوش مسرت سے مسلمانوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ قریب ہی ایک ہندو ڈوگرے سپاہی نے جب ایک ہندو کو اس طرح عقیدت کے ساتھ نعت پڑھتے سنا تو وہ مارے تعصب کے جل کر کباب ہوگیا۔ اس نے بآواز بلند آنحضور ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے نعت پڑھنے والے ہندو سے مخاطب ہو کر کہا:”محمدؐ کو…………کرو، کسی اورکا ذکر کرو۔ تو کیسا ہندو ہے، تو تو ہندو دھرم کا مجرم ہے۔ تیرا پاپ معاف نہیں کیا جا سکتا۔“مسلمان سپاہیوں نے ڈوگرہ سپاہی کی یہ بدزبانی سنی تو صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن ایک سپاہی میاں محمد اپنے آقا کی شان میں یہ گستاخی سن کر تڑپ اٹھے اورڈوگرہ سپاہی سے کہا، تیرے ہم مذہب کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ وہ حضور محمد ﷺ کے نامِ مبارک سے اطمینان ِ قلبی حاصل کرے، اس لئے وہ گا کر سرکارِ دو عالم ﷺ کی نعت پڑھ رہا ہے۔ تجھے اپنے خبث ِ باطن کی وجہ سے یہ بات پسند نہیں تو تو یہاں سے چلا جا، خبردار آئندہ ایسی بکواس نہ کرنا،یہ سن کر ڈوگرہ سپاہی بولا، میں تو بار بار ایسا ہی کروں گا، تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو۔ یہ بے ہودہ جواب سن کر میاں محمد کا خون کھول اٹھا۔ ایک ہندو ڈوگرے نے ان کی حمیت ِ ایمانی کو للکارا تھا۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا، آئندہ اپنی ناپاک زبان سے ہمارے نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا جملہ کہنے کی جرأت نہ کرنا ورنہ یہ بدتمیزی تجھے بہت جلد ذلت ناک موت سے دوچار کر دے گی۔بدقسمت ڈوگرے سپاہی نے پھر ویسا ہی تکلیف دہ جواب دیا اورکہا، مجھے ایسی گستاخی سے روکنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔یہ سن کر میاں محمد سیدھے اپنے حوالدار کے پاس گئے، یہ بھی ہندو تھا۔ آپ نے اس سے تمام واقعہ بیان کیا اورکہا، اگر چرن داس (ہندو ڈوگرہ) نے برسرِ عام معافی نہ مانگی تو اپنی زندگی سے کھیلنا مجھ پر فرض ہو جائے گا۔ ہندو حوالدار نے اس نازک مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہ دی، صرف یہی کہا کہ میں چرن داس کو سمجھا دوں گا۔میاں محمد حوالدار کی یہ سرد مہری دیکھ کر سیدھے اپنی بیرک میں پہنچے۔ اب وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر چکے تھے۔ انہوں نے نمازِ عشاء ادا کی اورپھر سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے دعا کی:”میرے اللہ! میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ تیرے محبوب کی شان میں گستاخی کرنے والے کا کام تمام کر دوں۔ یا اللہ! مجھے حوصلہ عطا فرما، ثابت قدم رکھ، مجھے بھی اپنے محبوب کے عاشقوں میں شامل کر لے۔ میری قربانی منظور فرما لے۔نماز سے فارغ ہو کر میاں محمد گارڈ روم گئے، اپنی رائفل نکالی، میگزین لوڈ کی اورباہر نکلتے ہی چرن داس کو للکار کر کہا۔ کم بخت! اب بتا، نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر میں باز پرس کا حق رکھتا ہوں یا نہیں۔ یہ سن کر شاتمِ رسول ؐ چرن داس نے بھی جو بندوق اٹھائے ڈیوٹی دے رہا تھا، پوزیشن سنبھالی اوررائفل کا رخ میاں محمد کی طرف موڑا لیکن اگلے ہی لمحے ناموسِ رسالتؐ کے شیدائی کی گولی چرن داس کو ڈھیر کر چکی تھی۔ رائفل کی دس گولیاں اس کے جسم سے پار کرنے کے بعد غازی میاں محمد نے سنگین کی نوک سے اس کے منہ پر پے درپے وار کئے۔ سنگین سے وار کرتے ہوئے وہ کہتے جاتے تھے، اس ناپاک منہ سے تو نے میرے پیارے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔جب غازی کومردود چرن داس کے جہنم واصل ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے خطرے کی گھنٹی بجائی اوربگلر سے کہا کہ وہ مسلسل بگل بجائے۔ جب سب پلٹن جمع ہو گئی تو غازی نے کمانڈنگ افسر سے کہا کہ کسی مسلمان افسر کو بھیجو تا کہ میں رائفل پھینک کر خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دوں۔ آپ کی گرفتاری کے لئے آپ ہی کے علاقے کے ایک مسلمان جمعدار عباس خان کو بھیجا گیا۔ گرفتاری کے بعد انگریز کمانڈنٹ افسر نے غازی موصوف سے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا، چرن داس نے ہمارے رسول ِ اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی اور بدکلامی کی تھی۔ میں نے اس کو روکا لیکن وہ باز نہ آیا، میں نے اس کو ہلاک کر دیا، اب آپ قانونی تقاضے پورے کریں۔میاں محمد 1915ء میں قصبہ تلہ گنگ میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام نامی صوبیدار غلام محمدتھا‘ جو اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم چھڑی تو صوبیدار غلام محمد کو اپنی پلٹن کے ساتھ ملک سے باہر جانا پڑا، اسی دوران میاں محمد پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کے والد عراق میں تھے، بیٹے کی ولادت کی خبر سنی تو جی چاہا کہ فوراً اڑ کر تلہ گنگ پہنچیں اور نومولود کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں کیونکہ یہ بچہ شادی کے سات سال بعد بڑی دعاؤں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا صوبیدار غلام محمد 1919ء تک جنگ کے اختتام تک وطن واپس نہ آ سکے۔ اس عرصہ میں وہ اپنی پلٹن کے ساتھ عراق، شام، فلسطین اور استنبول وغیرہ میں فوجی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ میاں محمد پانچ سال کے تھے کہ ان کے والد ماجد گھر لوٹے اورپہلی بار اپنے جگر گوشہ کو دیکھا، بار بار گود میں اٹھاتے اورپیار کرتے، پھر چند روز بعد انہیں پرائمری سکول میں داخل کرا دیا۔ پرائمری کے بعد وہ ہائی سکول میں داخل ہو گئے لیکن ساتویں جماعت تک پڑھنے کے بعد ان کا جی تعلیم سے اچاٹ ہو گیا۔15سال کے ہوئے تو ڈرائیوری سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں وہ ملازم ہوگئے اور تلہ گنگ سے میانوالی جانے والی ایک بس چلانے لگے لیکن بہت جلد اس سے بھی جی بھر گیا۔ 1931ء میں کوئٹہ چلے گئے اورایک ٹھیکیدار کے ساتھ بطورمنشی کام کرنے لگے۔ یہ کام بھی پسند نہ آیا تو 1932ء میں گاؤں واپس آ گئے۔ 1933ء میں انڈین نیوی میں بھرتی ہو گئے۔ اسی ملازمت کے دوران پھوپھی زاد بہن ”نیک اختر“کے ساتھ ان کی شادی ہوگئی۔ انڈین نیوی میں نوکری کرتے ابھی بمشکل ڈیڑھ برس ہی گزرا تھا کہ کھیل کے دوران ایک ساتھی کی بدکلامی کی وجہ سے بگڑ گئے اورہاکی سے اسے پیٹ ڈالا۔ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا اور وہ ملازمت سے برطرف کر دئیے گئے۔2جنوری 1935ء کو وہ بلوچ رجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے اور ابتدائی ٹریننگ کراچی میں مکمل کرنے کے بعد اسی سال اکتوبر میں مدراس چھاؤنی بھیج دئیے گئے۔ اصل میں یہی وہ جگہ تھی جہاں قدرت نے ان سے ایک غیر معمولی کام لینا تھا اورجس کے لئے وہ مختلف مقامات پر پھرتے پھراتے بالآخر یہاں پہنچے تھے۔میاں محمد کو بچپن ہی سے آنحضور ﷺ کی ذاتِ گرامی سے والہانہ لگاؤ تھا، انہیں بہت سی نعتیں یاد تھیں جنہیں وہ اکثر تنہائی میں یار دوستوں میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ وہ بڑے خوبصورت جوان تھے اورہمیشہ نفیس اورعمدہ لباس زیب تن کئے رہتے۔ ان کو دیکھنے والوں نے ان کا حلیہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ لمبا قد، دلکش خدوخال، سرخ و سپید رنگ، باریک ہونٹ، گھنی بھویں، ناک معیار ِ حسن کے عین مطابق، پیشانی چوڑی، آنکھیں چمکدار، خوبصورت سی چھوٹی داڑھی اور خاص ادا کی مونچھیں جن سے مردانہ وجاہت ٹپکتی تھی۔ سرپر کلاہ اور خوبصورت پگڑی، غرض پیکر ِ حسن تھے۔