گستاخِ رسول”شردھانند“کا انجام (پہلی قسط) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

شردھانند جالندھر (مشرقی پنجاب)کا رہنے والا تھا،اس کا اصل نام لالہ منشی رام تھا آریہ سماج کا بہت پرجوش وباعمل کارکن تھا،شردھانند نے عرصہ سے دہلی میں سکونت اختیار کررکھی تھی اور یہیں سے اس نے شُدی کی آگ بھڑکانے کے لئے اردومیں ”روزنامہ تیج“اور اس کے بیٹے نے ہندی میں ”روزنامہ ارجن“جاری کیا،شردھانند کی زندگی کے تین روپ ہیں۔پہلا روپ ”قوم پروری“ کا روپ ہے،1919ء میں آل انڈیا کانگریس کاسالانہ اجلاس پنڈت موتی لال نہرو کی زیرصدارت امرتسر میں منعقد ہوا توشردھانند مجلس استقبالیہ کا چیئرمین تھا،اس نے اپنے خطبہ صدارت میں ترکوں کے مصائب سے گہری ہمدردی ظاہرکی تھی،اور خلافت کی بحالی کے لئے ہندومسلم اتحاد پر زوردیا،مولانامحمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی جھنڈواڑہ (سی۔پی)جیل سے رہا ہوکرجب کانگریس کے اجلاس شریک ہونے کے لئے سیدھے امرتسر پہنچے تومجلس استقبالیہ کے صدر شردھانند بڑی بے تابی سے کانگریسی پنڈال میں دوڑ کر علی برادران سے بغل گیر ہوا ور اسے ہندومسلم اتحاد کا ناقابل شکست مظاہرہ بتایا۔شردھانند کا دوسرا روپ یہ تھا کہ غالباً 1922 کا ابتدائی زمانہ تھا مولانامحمدعلی جوہر کے اخبار ”ہمدرد“میں اعلان شائع ہوا،شہر میں پوسٹر لگائے گئے کہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد”شری سوامی شردھانند جی مہاراج“ ہندومسلم اتحاد کے موضوع پر مسلمانوں سے خطاب کریں گے۔دلی کی جامع مسجد…..دنیائے اسلام کی ایک حسین ترین ومقبول ترین عبادت گاہ……میں ایک ہندوسنیاسی کی تقریر…بات تو انوکھی تھی مگر وہ زمانہ تحریک خلافت کی شباب کا تھا،اگرچہ ہندوؤں کے دلوں میں اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف بغض ونفرت کی چنگاریاں دبی ہوئی تھیں،مگر صاف دل مسلمانوں کو اپنے ہندو بھائیوں کے خلوص پر اعتماد تھا جامع مسجد میں یوں توہرجمعہ کو نو دس ہزار مسلمان نماز جمعہ میں شریک ہوتے تھے لیکن اس دن مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر تھا مسجد کے عظیم الشان صحن کے علاوہ برجیاں اورچھتیں لوگوں سے پٹی پڑی تھیں،تینوں بڑے دروازوں کے باہر بھی لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔نماز ختم ہوتے ہی مولانامحمدعلی جوہر نے شردھانند کی آمد کا اعلان کیا تھوڑی دیر بعد پرجوش نعروں اور خلافتی رضاکاروں کے جلوس میں شردھانند عالم اسلام کی اس مایہ ناز مسجد میں داخل ہوا،مولانامحمدعلی کے ساتھ شردھانند اس بلند وبالا مکبر پر برجمان ہوا۔مولانا کی مختصر تعارفی تقریر کے بعد اس مکبر سے جہاں ہمیشہ تکبیر کی آوازیں گونجتی تھیں،تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہندو سادھوکی آوازتقریر بن کر گونجی،یہ بات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ ہندومسلم اتحاد کا یہی علمبردار صرف چند ماہ بعد اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن بن کر میدان میں آئے گا اور ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے لئے شدھی اور سنگھٹن جیسی خطرناک تحریک جاری کرے گا۔شردھانند کا تیسراروپ انتہائی شرانگیز تھا،غالباً 1923ء کے آغاز میں اس کو دفعہ 124 الف کے تحت قیدبامشقت کی سزاہوئی اور میانوالی جیل میں امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ،اسحبان الہند مولانااحمدسعید دہلویؒ ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند،رئیس الاحرار مولاناحبیب الرحمن لدھیانویؒ اور دیگر مجاہدین آزادی کے ساتھ قید کاٹی،یہیں سے مسلمانوں اورہندووں کوایک دسترخوان پردیکھ کر اس کے دل میں مسلمانوں کی دشمنی پیداہوگئی،جس کے متعلق رئیس الاحرار مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی فرماتے ہیں:”میانوالی جیل میں مسلمانوں کے دسترخوان کی وسعت میں ہندونوجوانوں کی شمولیت ہندونوجوانوں کی آزادخیالی چھوت چھات سے نفرت ”سوامی شردھانند“کے لئے ناقابل برداشت ہوگئی،پہلے تو انہوں نے ہندووں کو مسلمانوں کے دسترخوان پر ساتھ کھاناکھانے سے منع کیا اور کہا کہ آپ لوگ مسلمان ہوتے جارہے ہیں،سوامی جی کے نذدیک ہندووں کا مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا،مسلمان ہونے کے برابر تھا،لیکن سوشل تعلقات کی وسعت کے خلاف سوامی جی کی کوئی بات ہندونوجوانوں نے نہ مانی،آخرانہوں نے اپنی ناکامی کے بعد میانوالی جیل میں اعلان کیا کہ اگر خلافت اور ستیہ گرہ کے یہی معنی ہیں کہ دسترخوان پر ہندومسلمانوں کی تفریق ختم ہوجائے توایسی آزادی ہند کی تحریک سے میں متفق نہیں ہوں،چنانچہ انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک سے اپنے اقدام کو واپس لے لیا اور نہایت ڈرامائی اندازمیں میانوالی جیل سے رہاہوگئے،جیل سے آتے ہی انہوں نے شدہی سنگھٹن کاا علان کیا،میانوالی جیل کے وسیع دسترخوان کی یہ اہمیت ہے کہ اس دسترخوان سے ایک شخص نے ناراض ہوکر ایک ایسی تحریک کا آغازکیا جس کے نتائج خوفناک حد تک ہندوستان میں سامنے آگئے۔ الغرض وہ معافی مانگ کر جیل سے رہا ہوگیا اور اس نے انگریز حکام کو خوش کرنے اور کچھ متعصب ہندووں کے جذبہ اسلام دشمنی کوتسکین دینے کے لیے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزتحریروں کالامتناہی سلسلہ شروع کردیا،شردھانند نے جیل سے رہاہونے کے بعد روزنامہ تیج کے ایک مضمون میں اسلام پر انتہائی شرمناک حملہ کیا۔ تحریک ِ موالات دم توڑ رہی تھی۔ گاندھی ایک دو ماہ بعد ضلع گورکھ پورکے ایک چھوٹے سے گمنام گاؤں چوراچوری کے معمولی سے واقعہ کو آڑ بنا کر تحریک ِ ترکِ موالات کا گلا گھونٹنے والے تھے تا کہ مسلمانوں کے روز افزوں اثر و رسوخ سے کانگریس اورہندوستان کی سیاست کو محفوظ کیا جائے۔ چنانچہ بڑے بڑے ہندولیڈروں کے عملی اشتراک‘ اشیر باد اوربھاری سرمائے سے مسلمانوں کے خلاف شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کی گئیں۔ شدھی کا مقصد یہ تھاکہ مسلمانوں کو جو ہندوؤں کے بیان کے مطابق ہندو نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘ اسلام سے منحرف کر کے دوبارہ ہندو بنایا جائے اور سنگھٹن کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کے لیے نہ صرف مختلف مکاتب فکر کے ہندوؤں بلکہ سکھوں اور بودھوں کو بھی عظیم تر ہندو قومیت کے نام پر متحد کیا جائے اور جارحانہ حملوں کے لیے فوجی لائنوں پر مسلح دستے مرتب کیے جائیں۔ یو۔ پی کے بعض اضلاع میں کئی لاکھ کم تعلیم یافتہ مسلمان راجپوت آباد تھے جنہیں ملکانہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ شدھی کا پہلا سخت حملہ انہیں علاقوں پر ہوا۔ ملکانہ راجپوتوں کو دین اسلام سے منخرف کرنے کے لیے لالچ اور تشدد کے سارے طریقے استعما ل کیے گئے تھوڑے بہت راجپوتوں کا ایمان روپیہ سے خریدا گیا اور جو لوگ اسلام کا دامن چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے‘ ان کے گھروں کو لوٹا گیا اور جلایا گیا اور ان کے ناموس پر حملے کیے گئے۔ شدھی کے خطر ناک فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قابل علماء و مشائخ اور اکابرومشا ہیر نے جس اتحاد اورعظم واستقلال کا مظاہرہ کیا‘ اسے اسلامی ہند کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ شدھی اور سنگھٹن کا سلسلہ اگر سنجیدہ مبارحث اور عملی دلائل تک محدود رہتا تب بھی غنیمت تھا‘لیکن شردھاننداور اس کے آریہ سماجی بھگتوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گالیوں‘ بہتاں تراشیوں اور انتہائی اشتعال انگیزوں کو اپنا مستقل اشعار بنا دیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.