ماضی کی نامور تاریخی،مذہبی،سیاسی اور ادبی شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے صوبہ کی بیس جامعات میں اعزازی کرسیوں کی تخصیص کا فیصلہ کیا ہے،یہ اقدام محکمہ سیاحت،کھیل،ثقافت اور امور نوجوانان کی تجویز پر کے تحت اُٹھایاگیا ہے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش کے مطابق اس تاریخی فیصلے سے نوجوان نسل میں ان شخصیات کے افکار کی ترویج ہوگی اور ان کے خیالات وخدمات سے آئندہ کی نسلیں مستفید ہوں گی،صوبائی حکومتی فیصلے کے مطابق ان نامور شخصیات میں بایزید انصاری (پیرتاریک)مرزاعلی خان المعروف فقیر آف ایپی،خوشحال خان خٹک،رحمان بابا،بہاکوخان،ملک احمدخان،شیخ ملی،دریاخان آفریدی،ایمل خان مہمند،عبدالغنی خان،گجو خان،صاحبزادہ عبدالقیوم خان،حمزہ شنواری بابا،حاجی صاحب ترنگزئی،سواتئی ابئی،معصومہ ابئی،سیدہ بشریٰ بیگم،وغیرہ شامل ہیں،اسلاف اور کابر کی تعلیمات وافکار اور ان کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانا ایک خوش آئند اور قابل رشک عمل ہے،جو قومیں اپنے اسلاف سے کٹ جاتی ہیں ان کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوسکتا،اپنے اکابر کی قربانیوں سے جو قوم واقفیت حاصل نہیں کرتی وہ قوم کبھی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوتی،جس کا نتیجہ ہلاکت وتباہی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا،صوبائی حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے مگر کیا اس فہرست میں دئے گئے بزرگ ہی نامور مذہبی،سیاسی اور ادبی شخصیات میں شامل ہیں؟ان تمام شخصیات کی خدمات مسلم،قابل تذکرہ اور لائق تقلید ہیں مگراس فہرست میں ان سے زیادہ اہم شخصیات جن کی علمی،دینی،روحانی،مذہبی،سیاسی اور ادبی خدمات اور کارناموں کا آج بھی ایک دنیا معترف ہے،ان میں صوبہ کی سب سے بڑی روحانی شخصیت حضرت سید علی ترمذی المعروف پیرباباؒ اور ان کے خلیفہ ومازون شیخ الاسلام حضرت مولانااخوند درویزہ باباؒ،سید عبدالواہاب المعروف اخون پنجو باباؒ،شیخ رحمکارالمعروف کاکاصاحبؒ،،اخوندسالاک باباؒ،اخون کریم دادباباؒ،قابل ذکر ہیں،صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے ان بزرگوں کی اولاد اور ان کے پیروکار جو یقیناکروڑوں کی تعدادمیں صوبہ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں،ان کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے،بلکہ ان سے بھی بڑی شخصیت جلیل القدرصحابی ئ رسول حضرت سنان بن سلمہ بن محبق ہذلی رضی اللہ عنہ کی شخصیت جو داؤد زئی پشاور کی دھرتی پر اپنے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ محوخواب ہیں،انہیں حضرت عبداللہ بن سوار عبدی ؓ]شہید ومدفون قلات[ کی مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قلات]بلوچستان[ بھیجاگیا،جنہوں نے قلات کو فتح کرنے کے بعد کوئٹہ کے تمام علاقے فتح کئے اور دوسال تک یہاں حکمران رہے،اس کے بعد جنوبی وزیرستان،ڈیرہ اسماعیل خان،بنوں کوہاٹ کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے پشاور پہنچے اور بدھ مذہب کے بڑے لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ 45ھ میں جام شہادت نوش کرگئے،جو آج”اصحاب بابا“کے نام سے مشہور ہیں،حضرت سیدعلی ترمذیؒ المعروف پیربابا ہاشمی سید تھے،سلسلہ چشتیہ میں شیخ عطاء اللہ سالار رومی کے خلیفہ مجازتھے،جو اپنے شیخ کے حکم پر بونیر کے علاقہ میں آکر آباد ہوئے اور بہت ساری مخلوق کو گمراہی سے نکال کر صراط مستقیم پر گامز ن کرتے ہوئے 992ھ کو دنیاسے چلے گئے،ان کی اولاد میں بڑی بڑی علمی،روحانی اور سیاسی شخصیات گزری ہیں،جن میں سیداکبرشاہ اور ان کے نواسے سیدعبدالجبار شاہ سوات کے بادشاہ گزرے ہیں جبکہ پیرباباکے پڑپوتے جلال بابا نے پکھلی کے ترک حکمران کوشکست دے کر پکھل ہزارہ میں اپنی حکومت بنائی،بطل حریت سید جمال الدین افغانی بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بونیر میں پیرباباکا مزار آج بھی مرجع خلائق اوران کی دینی،علمی اور روحانی خدمات کا منہ بولتاثبوت ہے۔شیخ الاسلام مولاناحضرت اخوند درویزہ باباؒ]م1048ھ /1636ء[ حضرت عثمان ؓ کی اولاد میں تھے،حضرت پیربابا کے خلیفہ مجازومازون تھے،بہت بڑے فقیہ،مصنف،مناظر،فتنوں کا تعاقب کرنے والے،شیخ الاسلام اور مجاہدین اسلام کے سپہ سالار تھے،جنہوں نے اپنے پیر ومرشد کے ساتھ مل کر اس صوبہ کے سب سے بڑے فتنے بایزیدانصاری کے دجل وفریب کا مقابلہ کیا جس نے پیرروخان کے نام سے صوبہ کے لوگوں کو گمراہ کردیاتھا،اس کی گمراہی کے لئے صرف اتناہی کافی ہے کہ وہ دیگر خرافات کے ساتھ نبوت کا دعویدار بھی تھا، وہ مذہبی لبادہ میں ایک رہزن تھا جو لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنے من گھڑت دین کی ترویج کررہاتھا اور اسی دجل وفریب کی آڑمیں حکمرانی حاصل کرنے میں لگاہواتھا،حضرت اخوند درویزہ بابا ؒنے اس کوپیرتاریک کانام دے کراس کی بے دینی سے عوام کو آگاہ کیا، مناظرے کئے، جہاد کیا یہاں تک کہ پیرتاریک اور اس کی اولاد کونیست ونابود کرکے دم لیا،حضرت اخوندصاحبؒ پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے،ان کی مشہور زمانہ کتب ”تذکرۃ الابرار والاشرار“اور”مخزن اسلام“ ہیں،مخزن اسلام وہ کتاب ہے جو صدیوں تک مالاکندڈویژن میں ہر گھر کی ضرورت تھی،بلکہ عدالتوں میں اسی کتاب کی روشنی میں فیصلہ کئے جاتے تھے۔اخوند صاحبؒ کے چھ بیٹوں میں سب سے بڑے بیٹے اخوندعبدالکریم المعروف کریم دادباباؒ]م 1072ھ[ پشتو ادب کی معروف شخصیت ہیں جن کو محقق افغان کا لقب دیاگیا تھا،پشتو کے مشہور صوفی شاعر حضرت عبدالرحمن بابا انہی کے تلمیذ اور خوشہ چیں ہیں،کوہستان،سوات،دیر،شانگلہ اور بونیر میں میں کفار کے ساتھ جہاد میں اسلامی لشکر کے سپہ سالارتھے اسی جہاد میں مدین ]سوات [کے مقام پرجام شہادت نوش کرکے کانجو سوات میں مدفون ہوئے۔ان کے صاحبزادے میاں دولت بابا بھی اپنے بزگوں کی طرح بہت بڑے عالم،شیخ اور مجاہد تھے،ان کے صاحبزادے میاں فاروق باباؒ نے تھاکوٹ سے بشام تک کا علاقہ کفار سے آزاد کرکے جام شہادت نوش کیا،میاں فاروق کے بیٹے میاں محمداکرم باباؒنے بھی اپنے اسلاف کی طرح اسلامی لشکر کی سپہ سالاری کرتے ہوئے چانجل کاقلعہ فتح کیا اور پورے علاقے کے کفار کوشکست سے دوچار کیا،چانجل بٹگرام کے مقام پر مدفون ہیں،حضرت اخونددرویزہ باباؒکی پانچ چھ نسلوں نے مسلسل کفارکے ساتھ جہاد کرتے شہادتوں کے تمغے اپنے سینوں پر سجائے اور اس کے ساتھ ساتھ علمی،روحانی اور ادبی میدان میں بھی ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکا،مگر افسوس کہ صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ان کی خدمات کاکوئی پتہ نہ چل سکا؟ ان کی اولاد،سوات،بونیر،دیر،شانگلہ،بٹگرام،کوہستان،چارسدہ،مردان صوابی،نوشہرہ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں کروڑوں کی تعدادمیں آباد ہیں۔اخوند سالاک بابا ]م 1067[بھی مشہور علمی،روحانی اور جہادی شخصیت گزرے ہیں،جنہوں نے بونیر،سوات،کوہستان،تورغر، بٹگرام اور ہزارہ میں ڈوماکفار کے ساتھ کئی معرکے سرکئے ہیں،ان کی اولادبھی انہی علاقوں میں بڑی تعداد میں آباد ہیں،جن میں مولاناولی احمد المعروف سنڈاکئے باباؒجو حضرت شیخ الہندمولانامحمود حسن ؒکی تحریک آزادی کے رکن،حاجی صاحب ترنگزئی ؒکے جہاد مشن کے ساتھی اور ریاست سوات کے حقیقی بانی تھے،شیخ عبدالوہاب المعروف اخوندپنجو باباؒ ]م 1040ھ[بھی صوبہ کی مشہور ومعروف علمی اور روحانی شخصیت ہیں،اخوندسالاک باباؒکے علاوہ کئی روحانی شخصیات کے پیر ومرشد تھے،شیخ رحمکار المعروف کاکاصاحبؒ]1063ھ[بھی ہاشمی سید تھے،اپنے دورکے بہت بڑے عالم دین اورپیر طریقت تھے،ان کی اولاد بھی صوبہ بھرمیں مختلف مقامات پر موجود ہیں،مگر صوبائی حکومت کے اہلکاروں کو یا توتاریخ کا کوئی علم ہی نہیں یا انہوں نے حقیقی علمی،روحانی،جہادی اور مذہبی اکابر سے لوگوں کواندھیرے میں رکھنے کا فیصلہ کیاہے،افسوس کامقام یہ ہے پیرتاریک جس کی لامذہبیت اور گمراہی کو حضرت پیربابا اور اخونددرویزہ بابانے چار سوسال قبل دفن کیا تھا اسی مدعی نبوت اور گمراہ شخص کو اس میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔صوبائی حکومت کے اس ظالمانہ اور ناروا فیصلے سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بسنے والے کروڑوں اخوندخیل،سیدبرادری،اخوندزادگان،کاکاخیل سمیت دیگر قوموں اور ان کے روحانی پیروکاروں کی دل آزاری ہوئی ہے، حکومت کو چاہئے کہ ان بزروگوں کے نام پر بھی اسی طرح کی کرسیاں مختص کردے اورمدعی نبوت]بایزیدانصاری[ پیرتاریک کواس فہرست سے نکال دے ورنہ یہ کروڑوں لوگ اپنے بزرگوں کی عزت وتوقیر کے لئے احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔فہرست میں دئے گئے لوگوں میں چند کے علاوہ شاید کوئی جانتا ہو مگر جن بزرگوں کا سطور بالامیں تذکرہ کیاگیا ہے،ان کو اجمالی طورپرپورے ملک کے لوگ جانتے ہیں اور ان کا اثر صرف صوبہ خیبرپختونخواہ تک محدودنہیں بلکہ ملک بھرمیں کروڑوں لوگ ان کے روحانی اثرات،جہادی معرکات اور دینی تعلیمات سے متاثر ہیں،یہی وجہ ہے کہ عوامی سماجی حلقوں نے بھی اس پر بھرپور آوازاُٹھائی ہے اور وزیراعلیٰ محمود خان اور معاون خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے،حضرت پیربابا،حضرت اخونددرویزہ بابا،حضرت اخوندسالاک بابااور دیگر نظر انداز نامور شخصیات کے ناموں سے بھی جامعات میں اعزازی کرسیاں مختص کی جائیں۔