قائدجمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب موجودہ زمانے میں علماء حق کے سرخیل،مذہبی قوتوں کے ترجماں،عالم اسلام کے صحیح رہنما،مدارس اسلامیہ کے نگہباں،پیغام امن کے حدی خواں، حقیقی جمہوریت کے پاسباں، مظلوم طبقات کے لئے سائباں کا کرداراداکررہے ہیں۔مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ؒ نے ایک طویل جدجہد کے بعد مذہبی قوتوں کو عروج دیا اور انہیں دنیا کے خودساختہ خداؤں کے برابرلاکھڑاکیا۔ دینی قوتوں کو قیادت کے منصب پر پہنچا کر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی غلامی سے نکالا۔ معاشرے پر مسلط فرعونوں کی گردنوں سے سریانکال کر دنیا پر واضح کیا کہ مذہبی طبقہ ذہنی،عملی اور علمی صلاحیتوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ جو اس کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرے گا اسے ذلت ورسوائی کے ساتھ ناکامی کا منہ دیکھناپڑے گا۔حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد وہ قوت منتشر ہوگئی اور اس کاشیرازہ اس قدر بکھرگیاکہ اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگنے لگ گیا اور انہوں نے نشیمن پر بجلیاں گراگراکر دشمنوں کے کلیجے ٹھنڈے کردئے۔
؎با غباں نے آگ دی جب آشیا نے کو میرے جن پہ تکیہ تھا و ہی پتّے ہو ا د ینے لگے
قائدجمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے جب جمعیۃ کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت سوائے چند علماء کرام کے آپ کاحامی وطرفدار کوئی بھی نہیں تھا۔اکثریت مخالف تھی،جبہ ودستار کے علمبردارکوئی بزرگی،کوئی علم،اور کوئی تجربہ کے زعم میں مبتلا تھا دوسری طرف خفیہ قوتیں تھیں جو انہیں تھپکیاں دے رہی تھیں اور وسائل مہیاکرکے ان کے حوصلے بڑھارہی تھیں،اور وہ ان خفیہ قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر حضرت شیخ الہندکی جماعت کے شیرازے کو بکھیر رہے تھے۔
؎غیروں کی نفرتوں کا گلہ ہم نے کب کیا اپنوں کی شفقتوں کے ستائے ہوئے ہیں ہم
ان گھمبیر حالات میں قائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے میدان سیاست میں قدم رکھا کہ اپنے بھی بیگانے بن چکے تھے بلکہ بیگانوں سے بھی زیادہ طوطاچشمی پر اُترآئے تھے اور اپنے مقاصدکے حصول کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیارتھے، اس زمانے کا ڈکٹیٹر مذہبی لبادے میں چھپاہوا حجاج بن یوسف اپنی جابرانہ طاقت وقوت کے ساتھ گھات لگائے بیٹھا تھا،اسلام کے نام پر اسلامی نظام کی کوششوں کی جڑیں کاٹنے کے لئے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مورچہ زن تھا۔مگر قدرت کا فیصلہ تھا جس نے حضرت شیخ الہندکے افکار ونظریات کے وارث کو اسی مقام پر صدائے حق بلندکرنے کے لئے منتخب کیا،جہاں 1921ء میں شیخ الہندکے جانشینِ اول،قافلہ حریت کے سپہ سالار، حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی نے فرنگی جبرواستبداد کے خلاف بغاوت کاعلم بلندکرتے ہوئے فرنگی افواج میں بھرتی کے خلاف تاریخی فتویٰ صادرکیا تھا۔ اسی خالق دیناہال کراچی میں قائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے مفکر اسلام مولانامفتی محمود ؒ کی وفات کے چنددن بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغازکرتے ہوئے فرعونِ وقت کو للکارا، اور مشکلات سے بھرے ہوئے طویل سفر کا آغاز کیا جس میں اپنے بھی غیروں سے زیادہ سنگ باری کرتے ہوئے نظرآئے۔مگر اس عالی ہمت نوجوان کو ہتھکڑیاں،بیڑیاں،گرفتاریاں،آمرانہ بدمعاشیاں،قیدوبندکی صعوبتیں،جیلوں کی آہنی سلاخیں،بوٹوں کی ٹک ٹک،سازشیں،تہمتیں،الزامات اور اعتراضات جھکانہ سکے اور نہ ہی اُن کے حوصلے پست کرسکے۔بڑے بڑے جبہ ودستارکے مالکان آپ سے متنفر،پرشکوہ مدارس، اور عظیم لشان خانقاہوں کے دروازے آپ پربندتھے، چند غریب علماء وطلباء آپ کے ساتھ آمرانہ ظلم وبربریت کے ہتھکنڈے برداشت کرتے ہوئے لوگوں کے طعن وتشنیع سہہ کر بڑی بے بسی کے ساتھ حالات کے جبرکامردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔مگرقائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب اور آپ کے چند جانثار ساتھیوں کی جہدمسلسل،عزیمت،بلندہمتی،دلنوازی،حلم وبردباری،جرأت ومردانگی،حق گوئی وبیباکی،مشن سے وابستگی،خلوص وللہیت،فہم وفرست کودیکھ کر بزرگوں کی روش بھی بدلی انہوں نے بھی دست شفقت بڑھایا،مخالف موافق بن گئے،اور بہت سارے طعن وتشنیع کے تیربرسانے والے آپ کے سایہ ئعاطفت میں پناہ لینے کو سعادت سمجھنے لگے،اپنے جبہ ودستار کو آپ کی قدموں میں نچھاورکرنے لگے،اُن پرشکوہ مدارس مہتممین اور عظیم الشان خانقاہوں سجادہ نشین آپ کے دیدارکوترسنے لگے،دشنام طرازی کرنے والے آپ کی تعریفوں میں رطب اللسان نظر آنے لگے،مشرق ومغرب میں آپ کے استقبال شروع ہوگئے،بڑے بڑے اُمراء آپ کے قدموں میں بیٹھ گئے۔آج ہر مسجد ومدرسہ والا،ہر داڑھی پگڑی والا اور ہردیندارشخص آپ کو مسلمانانِ عالم پر سایہئ خداوندی سمجھتا ہے،آپ کے وجودکو امت مسلمہ کا بہت بڑاسرمایہ خیال کرتا ہے، آپ سے ہاتھ ملانااپنے لئے باعث فخرسمجھتا ہے،بڑے بڑے پھنے خان آپ کی ایک للکار سے میدان چھوڑکربھاگ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں،ہرحکمران اپنی کرسی کی بقاآپ کی حمایت سے مشروط سمجھتا ہے،طاغوتی قوتیں آپ کے وجود سے کپکپاتی ہیں،استعماری قوتیں اپنے عزائم کی تکمیل میں آپ کوسب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتی ہیں۔یہ سب کچھ اس کردار کی بدولت ہے جو آپ نے 40سالہ دورِ سیاست میں اداکیا ہے آپ کی فہم وفراست،عقل ودانائی،ذہانت وذکاوت،حلم وتدبر،سوچ وفکرکی بلندی،معاملہ فہمی اور سیاسی معرکہ ارائی کے دوست،دشمن سبھی قائل ہیں، آپ نے ہمیشہ علاقائیت،لسانیت،فرقہ واریت،اور مسلک کے دائرے سے نکل کر پاکستان کی سا لمیت اور بقاء،امت مسلمہ کی عزت ووقار،آزادی وخودمختاری،جمہوریت اور حقوق انسانی کی جنگ لڑی ہے۔آپ نے امریکہ اور مغرب کے خلاف اگر آوازبلندکی ہے تو ان مظلوم ومقہور مسلمانوں کے لئے جو عرصہ درازسے ظلم کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں،جن کو مسلمانی کے جرم میں صفحہئ ہستی مٹایاجارہاہے،جن کی نسل کشی کی جارہی ہے، 1999ء اور 2001ء میں قائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب نے عالمی استعماری اور استبدادی قوتوں کے خلاف جو کرداراداکیاتھاوہ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب کے طورپر ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔نائن الیون کے بعد جس طرح دینی مدارس اور مذہبی لوگوں کا دائرہ تنگ کیاگیااور ان کے کردارکو غیرمؤثر بنانے کے لئے کوششیں کی گئیں،ان کو صٖفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے جو منصوبے بنائے گئے،ان تمام منصوبوں کوخاک میں ملانے کے لئے میدان عمل میں ایک ماہر، جرأت مند اور ہوشیار سپہ سالار کی طرح آپ ڈٹے ہوئے نظرآئے، 1988ء کے بعد مختلف ادوار میں جب سے ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے لئے مغربی قوتوں کے آلہ کار میدان میں اُتر آئے اور حکومتیں مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اس قانون میں ترمیم پر آمادہ ہوئیں تو ان کے خلاف میدانِ جہاد میں قائدجمعیۃ گرجتے برستے اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملاتے نظرآئے۔ اگر آمرانہ قوتوں کی شہ پر خفیہ ہاتھوں کے پالے ہوئے کچھ لوگ جمہوریت پر حملہ آور ہوئے تو اسمبلی کے اندر اور عوامی اجتماعات میں ان کی سازشوں پر پانی پھیرنے کے لئے قائدجمعیۃ ہی عوام کو نظر آئے۔ اسلامی تہذیب وتمدن، مشرقی کلچروروایات کے خلاف اگر کوئی یہودی ایجنٹ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے سڑکوں پر نکلے تو ان کے خلاف خم ٹھوک کر ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے میدان کارزارمیں قائدجمعیۃ ہی معرکہ سرکرتے ہوئے نظر آئے۔اگر منتخب اسمبلیوں کو لپٹنے کے لئے کوئی ساشی ٹولہ اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلاتو اس کا مقابلہ بھی قائدجمعیۃ نے مردِ آہن کی طرح ڈٹ کرکیا۔اسمبلی کے اندر اگر کوئی اسلامی آئین کا حلیہ بگاڑنے کے لئے متحرک ہواتواسکے مذموم عزائم کو بھی خاک میں ملانے کے لئے قائدجمعیۃ کو اپناکرداراداکرناپڑا۔گزشتہ دورمیں اگر پنجاب حکومت نے گھریلوتشددکے نام پر غیر اسلامی قانون سازی کی تو اس کے خلاف علمِ بغاوت بلندکرتے ہوئے قائدجمعیۃ ہی دکھائی دئے،اگر سندھ اسمبلی نے کوئی غیر اسلامی بل پاس کیا تو اس کوبھی پاؤں تلے روندنے کے لئے قائدجمعیۃ مردِ میدان بن گئے، نواز شریف دورمیں اگر جمہوریت کی ساکھ گرتی ہوئی نظر آئی تو اس کوبھی سنبھالاقائدجمعیۃ ہی نے دیا۔مدارس ومساجد پر اگرکوئی پریشانی آئی تو اس کادفاع بھی قائدجمعیت نے کیا،بیرون ملک میں اگر کسی بزرگ کسی عالم دین پر کوئی آفت ٹوٹی تو اس میں بھی قائدجمعیۃ اس کی دادرسی کرتے ہوئے نظرآئے۔اس کے صلہ میں آپ کو ملا کیا…؟آپ کو بدنام کیا گیا۔آپ پر الزامات لگائے گئے۔بہتان تراشیاں کی گئیں،غلط القاب سے نوازاگیا۔ آپ کی کردار کشی الیکٹرانک میڈیا کا محبوب مشعلہ قرارپایا۔بعض نام نہاد صحافیوں نے کالم پر کالم سیاہ کئے اور کررہے ہیں۔ بعض دریدہ دہن اپنے جلسوں میں آپ کو غلط الفاظ سے یادکرنے کی رٹ لگاتے رہے ہیں،ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر کچھ لوگ آپ پر کیچڑ اچھالنے کو اپنے روزمرہ کاکام سمجھ رہے ہیں۔سوشل میڈیامیں آپ کے ساتھ کونسا مذاق ہے جو نہیں کیاگیا،کونساالزام ہے جو آپ کی طرف منسوب نہیں کیاگیا،کونسی برائی ہے جو آپ پرتھوپی نہیں گئی،کونسے غلط الفاظ ہیں جو آپ کے شان میں استعمال نہیں کئے گئے،کونسی گالی ہے جو آپ کے لئے استعمال نہیں کی گئی؟یہ جاہل اور ان پڑھ لوگوں نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کچھ اس ملک کے پڑھے لکھے جہلِ مرکب کی زنجیروں میں جھکڑے ہوئے نام نہادروشن خیالوں نے کیا ہے،جنھوں نے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں شایدسوائے جہالت کے اور کچھ سیکھاہی نہیں۔یوٹیوب،گوگل اور فیس بک وغیرہ پر جاکر آدمی کا خون کھولنے لگتاہے کہ یہ کونسامذہب ہے، کونسی شرافت ہے،کونسی انسانیت ہے،کونسی سیاست ہے؟ایسی جہالت شاید دنیا کے کسی کونے میں نہ پائی جاتی ہو جو ہمارے ملک کے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے میں پائی جاتی ہے جو انسانیت کے نام سے بھی ناواقف ہیں،کچھ بگڑے ہوئے مولوی بھی پائے جاتے ہیں،جومولاناصاحب اور ان کی تحریک کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے منتظر رہتے ہیں، کچھ لوگ صحافت کے نام پر اپنی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں جن کا قلم قائدجمعیت کے بارے میں مختلف قسم کا زہر اُگلتاہے۔دینداری کے لبادے میں ملبوس بعض مذہبی قوتیں آپ پر چھپ کر وارکرتیں ہیں اور بعض برملا غیروں کے آلہ کاربن کر دشنام طرازی کرتے ہیں۔ ؎تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی تیر پہلا کس نے مارا یہ کہا نی پھرسہی
مخالفین کی مخالفت کا زیادہ دکھ نہیں ہوتا مگر جب مولانامحمدخان شیرانی اورحافظ حسین احمدجیسے اپنے گھرکے لوگ بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے ہوکر سنگ باری کرتے ہیں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے،کیونکہ مشکل حالات میں لوگ بہت سارے شکوے شکایتیں بالائے طاق رکھ کر قدم سے قدم ملالیتے ہیں،لیکن شیرانی صاحب اور حافظ صاحب جیسے عالم دین اور سیاسی میدان کے منجھے ہوئے پرانے کھلاڑیوں سے ان حالات میں اس قسم کی الزم تراشی سمجھ میں نہیں آتی کہ آخران کو کیا ہوگیا؟چالیس سال تک جس شخصیت کے گن گاگاکر کارکنان کی تربیت کرتے رہے آج اچانک اس میں تمام خرابیاں نظر آنے لگیں،جس کو چالیس سال تک قائد مانااور منوایاآج اس کے خلاف دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے میدان سجاچکے ہیں،آج اگر ان حضرات کو یہ مقام حاصل ہے تو بھی قائدجمعیۃ کی مدبرانہ سیاست کی مرہونِ منت ہے، مگر قائدجمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سابقہ روایات کے مطابق ان تمام چیزوں سے بے نیاز،اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کسی سے الجھے بغیرآگے بڑھتے ہوئے نظرآئیں گے،پہلے توصرف مذہبی جماعتوں سے وابستہ افرادآپ کو اپنامحافظ سمجھتے تھے، مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ہی کو اپناسہاراخیال کرتے تھے، آپ ہی سے تعاون کے طلب گار ہوتے تھے اور اب تو پوری جمہوری قوتوں نے آپ کو اپناقائد تسلیم کیا ہوا ہے۔قائدجمعیۃ موجودہ دور میں مسلمانان عالم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔پاکستان میں جاری مذہبی اورسیکولرطبقات کی کشمکش میں مذہبی طبقات کے سب سے بڑے وکیل صفائی،الیکٹرانک میڈیا عوامی اجتماعات،قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی جنگ لڑنے والے سپہ سالارتوتھے ہی مگر اب جمہوریت کے تمام علمبردار وں کی امیدیں بھی آپ سے وابستہ ہوچکی ہیں ڈھائی سال سے مسلسل محاذجنگ میں اپنوں اور غیروں کے طعنے برداشت کررہے ہیں۔ ؎میرے جلتے مکان کوکیا معلوم؟ میرے گھرکے چراغ مجرم ہیں۔