”سموگ و دھند کا عفریت“(حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

ہر سال موسم سرما کے آتے ہی پاکستان کے بالائی اور وسطی حصے شدید دھند کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ان علاقوں سے جڑے موسمی حالات ہیں مگر یہ مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے، زمین سے اٹھنے والے آلودگی کے ذرات دھند کے ساتھ ملکر ’اسموگ‘ پیدا کر دیتے ہیں جو کہ گاڑھے دھوئیں کی طرح ہوتی ہے۔سموگ ہوا کی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ سموگ جسے زمینی اوزون بھی کہا جاتا ھے۔ یہ ایک وزنی پیلی سرمئی دھند کی مانند ہے اورجس میں دیکھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ھے۔ جوکہ دھند اور دھواں کے ملاپ سے جنم لیتی ھے۔ یہ فیکٹریوں، اینٹ بنانے والے بھٹوں، ٹائر جلانے والی بھٹیوں، چاول کی فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے، کوڑا کرکٹ کو جلانے، گاڑیوں کے دھواں سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر معرض وجود میں آتی ھے۔ تیز ہواؤں کا نہ ہونا اور بارشوں کی کمی اس میں اضافہ کی وجہ بن سکتے ہیں۔سموگ بہت سی بیماریوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ جس میں سانس اور دل کی بیماریاں، فالج، دمہ، پھیپھڑوں کے امراض، ڈپریشن، الزائمز اور ڈیمینشیا سرفہرست ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ دور جہاں دن بدن آبادی میں اضافہ، ٹریفک کااژدھام، چھوٹی بڑی فیکٹریوں میں اضافہ خصوصا آبادی کے اندر بعض سرکاری عملہ کی مجرمانہ غفلت  کی بدولت فیکٹریوں کا قیام اس کا مین سبب ہے۔ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ھڈیوں کی کمزوری، جوڑوں کے درد (گھٹیا) کے مرض کا بھی باعث بنتی ھے، جسکی وجہ سے انسان قبل از وقت موت کی آغوش میں چلا جاتا ھے۔۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہونے والی تیزی کے ساتھ صنعت کاری اور مختلف اقسام کی گاڑیوں یا ٹریفک میں ہونے والے اضافے نے اس مسئلے کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے، دسمبر اور جنوری کے دوران اسموگ کی وجہ سب کچھ مدھم پڑ جاتا ہے اور کچھ مواقع پر تو زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور اس کا دارلحکومت لاہور دنیا میں شدید دھند سے بدترین حد تک متاثر ہونے والے شہروں میں سے ایک ہے۔  دھند کی بدولت ملک بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔صوبہ بنجاب خاص کر جنوبی پنجاب میں دھند کا شدید راج ہے۔اب تک اس دھند کے ہاتھوں درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔اب تک کی اخباری اطلاعات کے مطابق سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ سردی اور دھند ابھی اور رہے گی۔ عام طور پر دن کے وقت حد نگاہ 10 میٹر تک ہوتی ہے اور رات کو خاص کر آدھی رات کے بعد سے دن کے 10 گیارہ بجے تک حد نگاہ صفر ہو جاتی ہے جس وجہ سے ٹریفک حادثات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ان حادثات سے بچا جا سکتا ہے یا ان حادثات میں نمایا ں کمی ہو سکتی ہے۔ا س کے لیے چند احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے ان میں سے سب سے اہم تیز رفتاری ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیور گاڑ ٰ ی کو چلانا نہیں اڑانا چاہتے ہیں ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی بے احتیاطی سے کتنی جانیں جان سے گزر جائیں گی۔اس لیے اگر ڈرائیور دھند میں گاڑی کو آہستہ چلائیں بہت آہستہ تو کافی حد تک حادثات سے بچا جا سکتا ہے دوسری چیز ہے لائٹ کا استعمال ڈرائیونگ کے دورن گاڑی کی چاروں لائٹس خاص کر فوگ لائٹ کا لازمی استعمال کریں۔کیونکہ آپ آہستہ چلا رہے ہیں اس لیے کوئی دوسری گاڑی پیچھے سے آ کر آپ سے ٹکرا کر حادثے کا سبب نا بن جائے۔دھند میں سڑک پر آنے والے موڑ نظر نہ آ نے سے گاڑی الٹ سکتی ہے رفتار آہتہ ہونے سے موڑ دیکھا جا سکتا ہے۔اس سنہری قول پر عمل کریں کہ کبھی منزل پر نہ پہنچنے سے بہتر ہے دیر سے پہنچ جائیں۔ بے شک دھند میں گاڑی چلانا ایک ایسا عمل ہے جو نہایت احتیاط کا متقاضی ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی آپ کی اور دوسروں کی جان لینے کا سبب بن سکتی ہے۔ نہ صرف ڈرائیونگ کے دوران بلکہ سڑک پر چلنے کے دوران بھی بے حد احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ضروری ہے کہ دھند، برفباری اور خطرناک موسم میں انتہائی مجبوری کے علاوہ سفر نہ کریں۔ یہ بھی لازم ہے کہ دھند، برفباری، خطرناک موسم، ٹریفک کا رش، خطرناک راستہ اور رات کے وقت ناتجربہ کار ڈرائیور گاڑی چلانے سے گریز کریں۔دھند اور رات کے وقت ون وے کی خلا ف ورزی، بغیر لائٹوں کے سفر، غلط پارکنگ وغیرہ کے نتائج تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

 دوسری جانب پیدل  چلنے والے بھی اھتیاطی تدابیر  پر عمل کریں۔جہاں پر پیدل کراسنگ کے لیے پل موجود ہو وہاں اس کا استعمال لازمی کریں کیونکہ ایسا نہ کرنا نقصان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔چھوٹے بچوں کو آزاد مت چھوڑیں ان کا ہاتھ پکڑ کر رکھیں۔روڈ پر چھلکے، بوتلیں اور لفافے وغیرہ پھینکنے سے گریز کریں۔ یہ ڈرائیور حضرات کی توجہ بھٹکا سکتے ہیں۔

ملک میں سموگ اور فوگ کے شروع ہوتے ہی اس سے بچاوکی احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، جبکہ  بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ بھی بند کر دئیے  ہیں۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کیا جارہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے ہم وقت سے پہلے تیاری نہیں کرتے، ہمیں ہوش تب آتا ہے جب سر سے پانی گزار چکا ہوتا ہے۔ ہمیں ماحول دوست توانائی کے ذرائع کے بارے میں پہلے ہی سے سوچنا چاہیے تھا۔ سموگ کے شروع ہوتے ہی دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے خلاف کاروائی اب کی بجائے سارا سال جاری رکھنی چاہیے۔ نومبر اور دسمبر میں بھٹہ خشت میں آگ جلانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ کوڑے کو جلانے کی بجائے اسے ری سائیکل کیا جائے۔ انڈسٹریز کو شہر آبادی سے دور بنایا جائے۔زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ اب بھی اتنے حالات بھیانک نہیں ہوئے بہتر حکمت عملی اور موثر اقدامات سے ہم ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کر کے اس کر ہ راض کو آنے والے انسانوں کے لئے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ”دی لینسیٹ“نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیزی سے ہوتی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی شدید غذائی کمی کے سبب 2050ء میں 5 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔اس کے علاوہ مزید محققین نے انکشاف کیا ہے کہ فضائی آلودگی کے سبب سالانہ بنیادوں پر کئی لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ ہلاکتیں تیزی سے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ممالک چین اور بھارت میں ہوتی ہیں۔ واشنگٹن میں امریکن ایسوسی ایشن فار دا ایڈوانسمنٹ آف سائنس‘ کی ایک کانفرنس میں سائنس دانوں نے چند سال قبل خبردار کیا تھا کہ اگر آلودگی میں کمی لانے کے لیے زیادہ سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والوں سالوں میں قبل از وقت اموات کی شرح میں اضافہ جاری ہے گا۔ اسی طرح دنیا کے مختلف حصوں میں گرمی کی شدید لہر کے دوران کھلے آسمان تلے کام کرنے والے محنت کشوں کی پیداواریت میں 5.3 فیصد کمی آئی جب کہ اسی موسمی صورتحال کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران دل کے دورے اور ڈی ہائیڈریشن کے نتیجہ میں ہونے والی اموات 125ملین تک پہنچ گئیں۔ ماہرین نے انکشاف کیا کہ اگر فضائی آلودگی میں کمی متعارف کرانے کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو  2030 ء میں تک تقریباً دس لاکھ تا تیرہ لاکھ اموات کا سبب ماحولیاتی آلودگی بن سکتی ہے۔اگر چہ فصلوں کو جلانے اور اینٹوں کے بھٹوں کو ہوا کی آلودگی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، لیکن ماہرین موسمیات کے مطابق لاہور سمیت بڑے شہروں میں گاڑیوں سے دھویں کا  اخراج  بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔سالوں سے، حکومت پنجاب سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ایک سویڈش وہیکل فٹنس سرٹیفیکیشن کمپنی، جو 2016 ء میں قائم ہوئی تھی، کو پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں مراکز قائم کرنے کا کام سونپا گیا تھا لیکن یہ اب تک غیر فعال ہے۔  وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے اس نظام کو دوبارہ فعال کرنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ جلانا بھی لاہور میں آلودگی کی ایک اور وجہ ہے۔ اس پر پابندی  کے باوجود بلا روک ٹوک جاری ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.