وہ اسلامی فتوحات کا سنہری دور تھا جب مشرق سے لیکر مغرب تک او رشمال سے لیکر جنوب تک مسلمان تنِ تنہا سمندر کے با دشا ہ بن گئے دنیا کی کو ئی بھی طا قت اِ ن سے مقا بلہ کر نے کی ہمت نہ کر تی تھی، بحری جہازوں کے ذریعہ غیر ممالک کو مال دار آمد اور بر آمد کیا جا تا تھا وسیع و عریض اسلامی سلطنت میں ہر طرف خو شحالی تھی سلطان صلا ح الدین ایوبی اور اسپین کے عبد الرحمن ناصر اور ترکی کے حکمرانوں نے بھی بحری بیڑے بنا ئے اوراپنی بحری طا قت کو بے مثل و بے نظیر بنانے میں دلچسپی دکھا ئی۔ مسلم دور حکمرانی کا شاندار ماضی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے بحری طا قت کے ذریعہ پورے سمندر پر اسلامی پرچم لہرا یا۔مسلمانو ں کے دورِ اقتدار سے پہلے رو میوں کی بحری طا قت بڑھی ہو ئی تھی۔ امیر المومنین عمر فا روق ؓکی خلا فت کے زمانے میں شا م، مصر اور دو سرے اسلامی ملکوں پر رومیوں کی بحری جھڑپیں ہو ا کرتی تھیں۔ان اسلام دشمنوں طاقتوں کا جواب دینے کے لئے بحری جہا زوں کی تیاری نہایت ضروری تھی اس ضرورت کو پوری کر نے کے لئے بحری حملوں کا جواب دینے کے لئے حضرت امیر معا ویہؓ کے زمانے میں خا ص توجہ دی گئی اْس وقت آپ ملک شام کے گور نر تھے بحری بیڑہ کی تیاری کا کام شروع کیا گیا۔ جب پہلا بحری بیڑہ تیار ہو گیا تو رومی حملے کا منہ توڑجواب دینے کے لئے بحری بیڑہ کو سمندر میں اْ تا را گیا جس میں تین سو کے قریب چھوٹے جنگی جہا ز بھی شا مل تھے، حضرت امیرمعا ویہؓ اس بحری بیڑہ کے سپہ سالار تھے رو میوں پر بھر پو ر حملہ کرکے بڑی کامیابی حا صل کی۔ جب آپ ؓ پوری اسلامی سلطنت کے سر براہ بن گئے اور سلطانِ وقت بن گئے تو جہاز سا زی کو آگے بڑھا نے کے لئے آپ نے خا ص تو جہ دی۔ شام کے سا حلی علاقوں میں جہا ز سا زی کے بڑے بڑے کا ر خانے قا ئم کئے اور سا حلی شہروں میں بحری فوج کے تر بیتی مرا کز قا ئم کئے جہاں مسلمانوں کو بحری جنگ کی تعلیم و تر بیت دی جا تی تھی۔ آپ ہی کے زمانے میں بحری فوج ایک طا قتور فوج مانی جاتی تھی۔ آپ کے بعد خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس کو آگے بڑھا یا بحری جنگ میں مسلمانوں نے اچھا نام پیدا کیا۔دنیا میں سب سے طا قتور بحری فوج رو میوں کی تھی۔رو میوں کے ما تحت جو جزا ئر تھے ان میں بہت سوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں کی بحری طا قت کو اور زیادہ ترقی دینے اور پروان چڑھانے میں وا لی مصر موسیٰ بن نصیر کا بھی بہت بڑا ہا تھ رہا۔ آپ نے افریقہ کے سا حل پر کئی جنگی جہا ز بنا نے وا لے کا ر خانے قا ئم کئے۔ وہا ں اتنے بڑے جہا ز تیا ر ہو تے تھے کہ بیک وقت دو ہزار سپاہی مع سا ز و سامان جنگ کے سفر کر سکتے تھے۔ان ہی جنگی جہازوں کے ذریعہ نامور سپہ سالار طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ کر کے وہاں کی مسیحی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا۔ آج ہماری پاک بحریہ حضرت امیرمعا ویہ ؓنامور سپہ سالار طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیرکی جانشین شب و روز سمندر کی لہروں کو چیرتے ہوئے دشمن پر دہشت طاری کر رکھی ہے بلاشبہ پاک بحریہ پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے۔ یہ مادر وطن کی 1,046 کلومیٹر (650 میل) لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاک بحریہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد وجود میں آئی۔ پاکستان کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کا موجودہ اور بنیادی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ نے محدود بیرون ملک آپریشنز کیے۔ پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گزر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات اسمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تیزی لائی۔ 2004 ء میں پاکستان نیٹو مشترکہ ٹاسک فورس CTF-150 کا رکن بنا۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358 اہلکار (180 افسران اور 34ریٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زیادہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔ ابتداء میں بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گزرنا پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سیلر ملے،ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ویسے بھی تکنیکی عملے، ساز و سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے میں کم تھی۔ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کو عبور کرتے ہوئے وطن عزیز کی سمندری حدود کے دفاع اور نگہبانی کے فرائض انجام دینے میں سر فہرست نظر آئی۔ الحمد اللہ پاک بحریہ کے پاس 63 بحری جہاز اور 101 ایئر کرافٹس ہیں۔ پاک فوج کے پاس اس وقت آگسٹا آبدوزوں کے علاوہ 3 ایکس کرافٹ آبدوزیں بھی ہیں۔ ایکس کرافٹ آبدوز مائنز کی منتقلی، تارپیڈ وفائر کرنے اور محدود آپریشنز کیلئے کمانڈوز کی لانچنگ جیسی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ آبدوزیں ہاربون میزائل، اینٹی شپ میزائل اور ایگزوسیٹ میزائل فائر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ الخالد ٹینک بھی پاک نیوی کا حصہ ہے۔ پاک بحریہ چین سے تیز رفتار اور ٹارگٹ کو جلد ٹریس کر لینے والی دو MRTP-33 اوردوMRTP-15 کشتیاں حاصل کی ہیں۔ یہ کشتیاں اینٹی شپ میزائل C802/803 سے لیس ہیں۔ پاک نیوی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار پاکستان نیول ایئرڈیفنس سسٹم بھی لگا چکی ہے۔ جو پاک نیوی کی طاقت میں اضافہ کا باعث بننے کے ساتھ دشمن پر ہیبت قائم رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان نیوی کے بحری بیڑے میں نئے اور جدید بحری جنگی جہازپی این ایس یرموک کی بحری بیڑے میں شمولیت ایک اہم سنگ میل ہے، بحری بیڑے میں جدید کارویٹ کی شمولیت پاکستان کے سمندری مفادات کے تحفظ کے لیے پاک بحریہ کی طاقت کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔پی این ایس یرموک جدید سینسرز اور ہتھیاروں پر مبنی سیلف پروٹیکشن اور ٹرمینل ڈیفنس سسٹم سے لیس جدید ترین جنگی جہاز ہے جس کی تعمیر ڈامین شپ یارڈز رومانیہ میں کی گئی ہے۔ یہ جہاز بیک وقت مختلف قسم کے بحری آپریشنز سر انجام دینے اور ایک ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ فضائی جہاز (یو اے وی) لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جہاز پاک بحریہ کی ریجنل میری ٹائم سیکیورٹی پیٹرولنگ کے اقدامات کے ذریعے خطے میں پائیدار بحری توازن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بحریہ ایک خاموش دفاعی قوت ہے، ہمارے بحری محافظ ساحلوں سے دور سمندروں کی سطح اور گہرائی میں اپنا مشن بلا تعطل جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وطنِ عزیز کے دفاع، آبی سرحدوں کی نگرانی اور اب سی پیک کے تناظر میں پاک بحریہ کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان نیوی اہم قومی اہمیت کے حامل اس منصوبے کی کامیابی میں اپنی بڑھتی ہوئی ذمے داریوں میں اہم کردار نبھانے کے لیے تیار ہے۔ سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک بحریہ گوادر کی بندرگاہ اور اس کے نواحی علاقوں کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اس حوالے سے پاک بحریہ ملک کے بحری سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار اور چوکس ہے۔ ملکی سمندری دفاع کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان نیوی میری ٹائم سیکٹر اور بلیو اکانومی کے فوائد ملک و قوم تک پہنچانے کے لیے پر عزم ہے۔1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں آپریشن دوارکا بحری تاریخ کا ایک سنہرا باب،پاکستان کے سمندری محافظوں کا عظیم کارنامہ ہے جو بھارت کو اس کی بد ترین شکست کی یاد دلاتا رہے گا۔پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے گھناؤنے منصوبے کے تحت بھارت نے بری، فضائی اور بحری حملوں کے ذریعے پاکستان کو کاری نقصان پہنچانے کی کوشش کی تاہم بزدل بھارت کے جنگی جنون کو اس وقت پستی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب افو اج پاکستان کے با حوصلہ، دلیر، نڈر اور جذبہ شہادت سے سرشار سپاہیوں نے بھارتیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ اس معرکہ حق و باطل میں جہاں پاکستان کی بری اور فضائی افواج نے بھارتی حملوں کو ناکامی سے دورچار کیا اور جوابی کاروائی میں بھارتی افواج کی کمر توڑ کر رکھ دی وہیں پاکستان کی بحری فوج نے سمندری و ساحلی حدود کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے بھارتی نیوی کو دھول چٹا دی۔جنگ ستمبر کا معرکہ دوارکا پاک بحریہ کا تاریخی آپریشن ہے کہ جس میں پاک بحریہ کی بلند حوصلہ افواج نے ثابت کر دکھایا کہ پاک بحریہ سمندری حدود کا تحفظ کرنے کی بھرپور استعداد رکھتی ہے۔دوارکا، کراچی سے قریبا 350کلو میٹر دور واقع ہے، دوارکا کو بھارت کے دفاعی قلعے کی حیثیت حاصل تھی، یہاں نصب طاقتور ریڈار سسٹم بھارتی فضائیہ کو کسی بھی بیرونی حملہ کے بارے میں خبردار کرتا تھا اور جنگ کے دوران پاکستان کی ساحلی پٹی پر فضائی حملوں کے لیے سپورٹ بھی اسی ریڈار سسٹم سے حاصل کی جاتی تھی لہٰذا دوارکا آپریشن 1965ء پاک بحریہ نے آپریشن میں اپنی سب سے مؤثر اور جدید ٹیکنالوجی سے مزین سب میرین غازی کو بحری مشن میں شامل کیا۔ پاک بحریہ خطے میں سب میرین سروس متعارف کرانے والی پہلی فورس ہے۔غازی کی شمولیت پاک بحریہ کی اپنے حریف بھارت کے خلاف 1965ء کی جنگ میں ایک فیصلہ کن بر تری کا سبب بنی۔ کیونکہ دوارکا کی تباہی سے ہی بھارتی بحریہ اور فضائیہ کا گٹھ جوڑ توڑ کر ان کے دفاعی سسٹم پر کاری ضرب لگائی جا سکتی تھی۔پاک بحریہ کی سرفیس فورس کروز بابر اور تباہ کن جہازوں پر مشتمل تھی۔ جنگ کے دوران پاک بحریہ کے پاس بھارتی بحریہ کے مقابلے میں حربی سازو سامان بہت کم تھا۔پاکستان کی بحری سرحدوں کی حفاظت کے لئے بحری جنگی جہاز وں کی پوزیشن کے ساتھ آبدوز غازی کو بھارتی بحریہ کے بھاری یونٹس کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے اور انہیں تباہ کرنے کے لئے بمبئی کے قریب بھیجا گیا۔ جذبہ ایمانی سے سرشار پاک بحریہ کے افسران اور سیلرز نے دوارکا پرکامیاب حملہ کر کے افواج پاکستان کیلئے کئی ایک کامیابیوں کی راہ ہموار کر لی۔ستمبر 1965میں کراچی پاکستان کا اہم ترین اور اہم بندر گاہ کا حامل شہر بھارتی فضائی حملوں کی انتہائی زد میں تھا۔ جس تواتر سے حملے کئے جا رہے تھے۔ اس مشکل جنگی صورتحال میں پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت کے بروقت فیصلے نے کہ بھارتی بحریہ کو بمبئی سے با ہر نکلنے پر مجبورکردیا اور وہ باہر نکلتے ہی پاک بحریہ کی آبدوز ”غازی“ کانشانہ بنی اور عظیم الشان فتح بحری فوج کے جانبازوں کا مقدر بن گئی۔ اس آپریشن کو”سومناتھ آپریشن“ کا نام دیا گیاتھا۔ 71 ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور کی جانب سے بھارتی بحریہ کے جہاز آئی این ایس ککری کو تارپیڈو حملے میں نیست و نابود کیا جبکہ دوسرے بھارتی بحری جہاز آئی این ایس کرپان کو بڑے نقصان سے دوچارکیاتھا۔یہ دن پاک بحریہ کی ہنگور کے جانبازوں کا دلیرانہ مشن، پیشہ وارانہ مہارت،کامیابی اور مضبوط عزم کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جب ہنگور سمندر کی لہروں کا سینہ چیرتی ہوئی دشمن کے سر پر جا پہنچی تھی اور اسے خبر تک نہ ہوئی تھی۔پاک بحریہ کے تباہ کن حملے میں بھارتی بحری جہاز ککری پر موجود 18 بھارتی افسران اور 176 سیلرز ہلاک ہو گئے تھے۔ 9 دسمبر کو دشمن کو کاری ضرب لگانے کے بعد 13 دسمبر کو مشن کی تکمیل کے بعد وطن واپس لوٹی۔ ہنگور دشمن کے لیے دہشت کا نشان اورپاکستانی قوم کے فخر اور وقار کی علامت ہے۔آبدورز ہنگور پاک بحریہ کا فخر ہے اس کا بہادر عمل نہ صرف ایک شاندرا جنگی حربہ تھا جس نے بھارتی نیوی کے فریگیٹ جہاز کو سمندر برد کر دیا بلکہ یہ پاک بحریہ کی اسٹریٹیجک حکمت عملی کا ایک ایسا آغاز تھا جس نے 71 ء
کی جنگ میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کی گئی جارحیت کا بھرپور جواب دے کر محدود کر دیا۔ ککری کے ڈوبنے کے ساتھ ہی بھارتی بحریہ کے حوصلے ہی پست نہیں ہوئے بلکہ دشمن کے کراچی پر حملہ آور ہونے کے مذموم ارادے بھی خاک میں مل گئے تھے۔دنیا کی جنگی تاریخ کا اس عالیشان فتح یاب واقعے میں بھارتی جہاز کو ڈبونے کا یہ شاندار کارنامہ بھارت کے مغربی ساحل پر ڈیو ہیڈکے جنوب مشرق میں 30 میل دور وقوع پزیر ہوا تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کی بحری جنگی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔بھارتی بحری جہاز ککری کا سمندر میں پاک بحریہ کے ہاتھوں غر قابی صرف ایک جنگی جہاز کی تباہی نہیں تھی بلکہ اس کے باعث بھارتی بحریہ کا مورال اورناپاک عزائم دونوں خاک میں مل گئے تھے۔ پاکستان نیوی کے ایوی ایشن بیس پی این ایس مہران پر حملہ ہو یا پاک بحریہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے پی این وار کالج لاہور میں موجود اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت۔ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم ناکام بنانے میں پاک بحریہ کے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے اپنی قیمتی جانیں پیش کر کے ہزاروں قیمتی انسانی جانوں اور حساس دفاعی تنصیبات کو بچایا۔ شجاعت،جرأت اور بہادری کے یہ کارنامے آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آج پاکستان نیوی دنیا کی بہترین نیوی میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس جدید اور بہترین دفاعی اور دشمن پر سبقت لینے والے ہتھیار موجود ہیں یاد رہے کہ دنیا کی 93فیصد تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے، پاکستان نیوی کا کردار امن و جنگ دونوں ہی زمانوں میں بہت اہم ہے اور پاک نیوی اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔