موسموں کی تبدیلی کا راز (مفتی شاکراللہ)

0

ویسے تو کوئی بندہ اللہ کے کسی کام کے بارے میں بالیقین یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کام میں اللہ کا یہی ایک حکمت ہے اور بس  ،کیونکہ حکیم ذات کے امور کی حکمتیں لا متناہی ہوا کرتی  ہیں لیکن پھر بھی انسانی بساط کے مطابق بعض علماء نے بعض فوائد کی نشاندہی کی ہے جن میں سے ایک یہ موسمی تبدیلیاں ہیں ان تبدیلیوں میں جہاں مخفی بہت سارے  راز موجود ہیں تو وہاں ایک حکمت ہمارے لئے ان سے سبق حاصل کرکے عبرت لینا ہے اس لئے کہ اللہ کے خزانوں میں نہ گرمی کی کمی ہے اور نہ سردی کی کمی ہے اور وہ رب ہمیشہ بہار رکھنے پر بھی قادر ہے جیسا کہ جنت میں ہمیشہ بہار رکھے گا ۔ان موسمی تبدیلیوں میں سے بعض کا تذکرہ مقصود ہے (1) جب سردی کی شدت ہو یا گرمی شدت اختیار کریں تو ہمیں جہنم کا استحضار کرنا چاہیے اس لئے کہ نبی کریم ﷺسے پوچھا گیا کہ یہ سردی اور گرمی کیوں آجاتی ہے تو فرمایا کہ ایک  دن جہنم نے اللہ کے ہاں شکایت کی کہ زیادہ گرمائش کی وجہ سے میرے بعض حصوں نے بعض کو کھا لیا مجھے سانس لینے دو تو اللہ نے سال میں  دوبار سانس لینے کی اجازت دی  اب جو آپ لوگ گرمی محسوس کرتے ہیں یہ جہنم کی سانس کی شدت ہےاور جو گرمی آپ لوگ محسوس کرتے ہیں تو یہ بھی جہنم کی شدت سردی کی سانس ہے ، اس لئے ہمیں جہنم یاد کرکے اللہ سے جہنم کی پناہ مانگنا چاہیئے جب ہم دنیاوی گرمی اور سردی جوکہ جہنم کا اثر ہے برداشت نہیں  کر سکتے  تو عین جہنم کا کیا حال ہوگا (2) دوسرا سبق یہ ہے کہ ہم اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہو جائے کہ ہمارا رب جو ہی موسم لا تا ہے ہم اس پر راضی ہیں  بعض لوگ گرمی کی شدت کو محسوس کرکے موسم گرما کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں یا پھر اپنے رب سے گلے اور شکوے کرنا شروع کر دیتے ہے جو انتہائی غفلت ہے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ فرماتے ہے کہ زمانے کو برا بلا مت کہنا کیونکہ میں ہی  زمانہ ہو ں(3) تیسرا سبق ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم ان اوقات میں اپنے رب سے عافیت کی دعا کریں اس لئے کہ عافیت ایک ایسا خزانہ ہے جس کی کوئی ثانی نہیں رسول کریم ﷺ نے اپنے روزانہ کے دعاؤں میں عافیت کی دعا خصوصیت کے ساتھ فرماتے اور فرمایا کرتے کہ اپنے رب سے اپنے لئے عافیت طلب کرو اس لئے کہ اللہ سے کوئی چیز ایسی نہیں مانگی گئی جو اللہ کے ہاں عافیت سے زیادہ  محبوب اور پسندیدہ ہو۔(4) چوتھا سبق کثرت سے استغفار کرنا اس لئے کہ توبہ اور استغفارہمارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور یہ سردی اور گرمی کی حد سے نکلنا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے فرمان باری تعالی ہے کہ جو کوئی مصیبت آپ لوگوں پر آجاتی ہے یہ آپ کی اعمال کا نتیجہ ہے اور بہت سے کاموں سے وہ درگزر کرتا ہے  اس لئے تمام آلام اور مصائب کا واحد حل توبہ اور استغفار ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ جوبندہ استغفار اپنے اوپر لازم کرے اللہ ان کے لئے ہر تنگی میں راہ نکال لیتا ہے اور اسے ہر رنج اور غم سے نجات دلاتا ہے نیز اس کو ایسے جگہ سے روزی دیں دیتا ہے جسکا اسکو خیال بھی نہ ہو ۔

حسن بصری ؒسے ایک آدمی آکر اولاد کی شکایت کی دوسرا آکر رزق کی کمی کی شکایت کی تیسرا آکر خشک سالی کی شکایت کی سب کو انہوں نے استغفار کا کہا ساتھ بیٹھے  ہوئے ساتھی نے پوچھا کہ سب کو استغفار کا کہا ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سب میں سورۃ نوح  کی آیتکے حوالہ سے کہتا ہو  جس میں اللہ نوح ؑکے زبانی قوم سے استغفار کے بدلے میں ان سب چیزوں کا وعدہ کر چکا تھا ۔(5) پانچواں ادب ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم سردی اور گرمی سے بچاؤ کے اسباب کا استعمال کریں  اس میں تو ایک طرف ہمیں اپنی کمزوری اور لاچاری کا احساس ہو تو دوسرے طرف  ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہم اپنے نفس کا ہمارے اوپر واضب حق ادا کریں گے کیونکہ حدیث میں فرمان نبوی ہے کہ تمہارے بدن کا تمہارے اوپر حق ہے (6) چھٹا ادب یہ ہے کہ ہم ان موسمون میں اپنے آپ کے ساتھ وہ نادار اور مفلس لوگوں کو بھی شامل کریں جن کو اس موسمون میں اپنے اور اپنے بچوں کے بچاؤ کے اسبا ب نہیں ،کیونکہ اللہ ان کےبارے میں روز قیامت پوچھے گا ہمارے قریب میں یتیم ،بیواؤں اور بے آسرا لوگوں کا وجود در اصل ہمارہ جنت ہمارے قریب میں ہماری جنت کا ہی وجود ہے اگر ہم قدر کریں اور اپنے ہاتھوں غفلت کے ذریعے ضائع نہ کریں ۔

حضرت صفوان بن سلیم تابعی ؒ سردی کی موسم میں ایک رات مسجد سے باہر نکلے دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اسکے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کےے لئے کپڑے نہ تھے چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اتار کر اس شخص کو پہنا دیا اسی رات بلاد شام مین ایک شخص نے خواب دیکھا کہ حضرت صفوان بن سلیم ؒ صرف اس قمیص کی وجہ سے جنت دا خل ہوئے وہ شخص اسی وقت مدینہ روانہ ہوئے اور مدینی آکر صفوان کا پتہ کیا اور اپنا خواب بیان کیا۔         

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.