موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں ماحولیاتی شدت بڑھ چکی ہے۔ ہر سال موسم کی شدت میں اضافہ اور طویل ہوتی گرمیوں کے باعث دنیا بھر کے گلیشئرز پگھل رہے ہیں۔لیکن اس کے بر عکس پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں برفانی چوٹیوں پر درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے گلیشئرز بڑھ رہے ہیں۔ 2017 میں ایریزونا یونیورسٹی کے ایک پاکستانی اور تین امریکیسائنسدانوں نے پاکستان کے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑوں پر واقع گلیشئروں میں پچھلے پچاس برسوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں پر تحقیق کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گلیشئرز کے بڑھ جانے کی وجہ سے پاکستانی دریاؤں میں سات فیصد تک کمی آ چکی ہے۔دریائے سندھ کے علاوہ پاکستان کے بڑے نظام آبپاشی کو پانی فراہم کرنے والا منبع بھی انہی گلیشئرز میں چھپا ہے۔اس رپورٹ میں گلیشئرز میں پائی جانے والی اس غیر معمولی تبدیلی کو”قراقرم ایناملی“ کا نام دیا ہے۔ حالیہ سال میں بین الاقوامی سوشل میڈیانیٹ فلکس نے ویڈیو رپورٹ نشر کی ہے جس میں انہوں نے دنیا بھر کو آنے والے سالوں میں پینے کے پانی میں کمی کے جو چیلنجز درکار ہوں گے، اس بارے آگاہ کیا ہے۔ان کے مطابق دنیا بھر کے دس میں سے سات لوگ گھروں میں چلتا ہوا پانی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی چلتے پانی میں استعمال کم او ر ضیاع زیادہوتا ہے۔کیپ ٹاؤن دنیا کا شاید وہ پہلا شہر ہے جو پینے کے پانی سے محروم ہو چکا ہے۔دنیا میں تین سو چھبیس ٹریلین پانی پینے کے قابل ہے جو دنیا بھر کے پانی کا صرف ایک فیصد بنتا ہے،جسے انسان اتنی لاپرواہی سے استعمال کر رہا ہے کہ آئندہ بیس سالوں میں زیادہ تر ممالک اس سے محروم ہو جائیں گے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 90فیصد آبادی نہری پانی کے پاس آباد ہے۔ نہروں کے پاس آباد ہونے کی وجہ سے پانی نکالنے کیلئے زیادہ وسائل درکار نہیں ہوتے۔ اسی لئے آسانی سے حاصل ہونے والے پانی کی حفاظت و قدر نہیں کی رہی۔اگر اسی طرح پانی کا ضیاع جاری رہا تو آنے والے پانچ سے دس سالوں میں ہم پچاس فیصد پانی کا ذخیرہ کھو سکتے ہیں۔پانی کے یوں نیچے جانے کی وجہ سے زمین دھنسنے لگی ہے۔ کئی ممالک میں ہر سال 9انچ تک زمین دھنس رہی ہے۔ ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک عشرے میں شمالی بھارت میں 29 ٹریلین گیلن پانی زیر زمین کم ہو چکا ہے۔ اسی نسبت سے نیٹ فلکس نے کہا ہے کہ ماضی کی نسبت حالیہ صدی یعنی ان بیس سالوں میں سات گناہ پانی زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔اسی طرح انسان کے لالچ نے بھی پانی کے ذخیرے کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔پانی سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا کر ایسے علاقوں جہاں پانی آئندہ کئی سالوں کیلئے کافی تھا اسے نکال،نکال کر ناکافی کر دیا ہے۔2010 میں اقوام متحدہ نے پانی کے ضیاع کے متعلق ایک قانون پاس کیا تھا جسے ہیومن رائٹس کے قوانین کا حصہ بتاتے ہوئے کہا گیا کہ پینے کے صاف پانی تک رسائی ہر انسان کا حق ہے اور دنیا وہ ممالک جو پانی کو ضائع کرتے ہیں وہ انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق جرائم کے مرتکب ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اقوام متحدہ کے اسی قانون سے فائدہ اٹھایا اور سندھ طاس معاہدے کو تار تار کیا،کہ پاکستان کے حصے کے پانی پر ڈیم بنا کر سارے پانی کا رخ اپنے ڈیموں کی طرف موڑ لیا ہے۔(یہاں حصے کے بارے میں آگاہ کرتا چلوں کے بھارت جو ڈیم تعمیرکر رہا تھا اس کی اونچائی سطح زمین سے 80 فٹ تعمیر کرنے والا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں کیس دائر کیا تھا، جس کے بعد عدالت نے ڈیم کی اونچائی 60 فٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر پاکستان کی سابقہ حکومتوں کے لالچ اور نام نہاد دوستانہ و تجارتی عزم کی وجہ سے اس فیصلے پر عمل درآمدنہیں کروا پائیں،یہی وجہ رہی کہ انہوں نے ڈیم کی تعمیر اپنی مرضی کے مطابق رکھی)۔ چاہے ہم بھارت کے خلاف کچھ بھی کریں لیکن ہیومن رائٹس میں بھارت نے خود کو ثابت کیاہے اور ہماری سابقہ حکومتیں ڈیم بنانے اور پانی کے ضیاع کو روکنے کی بجائے محض واویلا مچاتی رہیں۔ ایک تنزیہ شاباشی تھپکی ان جمہوری مولویوں اور ٹھیکیداروں کو بھی بنتی ہے جو ہمیشہ سے ان ڈیموں جیسے منصوبوں کی مخالفت میں کسی نہ کسی صورت ملوث رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں دیگر عالمی استعماری قوتیں دنیا میں اپنی دہشت برقرار رکھنے کیلئے پوری دنیا کو جنگ میں جھونکے ہے وہیں نوع انسانی کو بقاء کیلئے جن نئی سے نئی مشکلات کا سامنا ان میں سے ایک پینے کا صاف پانی ہے۔موجودہ منتخب وزیر اعظم کم از کم ابھی تک دور اندیش ثابت ہو رہے ہیں اور قوم کے آزمائشی وقت میں بھی ملک و ملت کی بقاء کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ایسے منصوبوں کی تکمیل بارے سنجیدہ اور کوشاں نظر آتے ہیں جو ہم سب کیلئے ریڑھ کی ہڈی سی اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلے ہی دو ڈیم زیر تعمیرہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آغاز کے علاوہ مزید ڈیموں کی تعمیر بھی ضروری ہے۔ گلیشئروں کے بڑھنے اور روایتی حریف بھارت کی کامیاب ڈیم پالیسی کی وجہ سے ملک کو جو سیلاب جیسی آفت کا سامنا رہتا ہے اور اس کے علاوہ جو دریاؤں میں پانی کی کمی نے پاکستان میں اناج کی نشونما کو ناقص کر دیا ہے اس سے اب آسانی سے نمٹا جا سکے گا۔جہاں عمران خان کی موجودہ منتخب حکومت اس وجہ سے بدنام ہے کہ وہ وعدے نبھانے میں ناکام اور یوٹرن ماسٹر ہے وہیں حکومت سابق حکومتوں کے دہائیوں پر محیط وعدوں کو وفا کرکے جواب دے رہی ہے۔ ہرذی شعور اس امر کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس معاملے میں حکومت کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے تیار ہے۔دیامر بھاشا ڈیم کے ماضی بارے میں معروف کالم نگار انجینئر کرامت اللہ چوہدری نے دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے اکیس مئی بیس صد بیس کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ”دیا مر بھاشا ڈیم کے حقائق“ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔اخباری ذرائع کے مطابقستائیس ارب اٹھارہ کروڑ بیس لاکھ روپے مالیت کا یہ کنسلٹنسی (Consultancy)سروسز ٹھیکہ دیا مر بھاشا ڈیم کنسلٹنسی گروپ نامی اشتراک کار کو دیا گیا ہے۔ اس کنسلٹنٹ گروپ میں بارہ کمپنیاں شامل ہیں جن کی مرکزی کمپنی نیسپاک ہے۔ ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ ایک ہزار چار سو چھ اعشاریہ پانچ ارب روپے ہے۔ ڈیم کی تعمیر پر فی الفور کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سال 2028 تک مکمل ہوگی۔پاکستان کا دیا مر بھاشا ڈیم اپنی تعمیر مکمل ہونے پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا جس سے 4800 میگا واٹ کے قریب بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ اضافہ ہوگا جبکہ بارہ لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہو سکے گی۔اس کے علاوہ تربیلا ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔جس طرح حکومت پر ذمہ داریاں عائد ہیں اسی قدر عوام پر بھی ذمہ داریاں ہیں۔ معاشرے حقوق ادا کرنے سے مضبوط بنتے ہیں۔ آج قوم کو مل کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک و ملت کے ٖغداروں اور چوروں کو پکڑوانے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم نکلوانے میں اپنا کردار ادا کریں