مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کے سلسلہ میں پولیس گردی.(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

مفتی کفایت اللہ جمعیت علماء اسلام کے ایک باجرات،دلیر اور بیباک رہنما ہیں جو ہرمحاذ پر اپنی آواز انتہائی جرات وبہادری کے ساتھ اُٹھاتے ہیں ٹی وہ ٹاک شوزمیں وہ ان قوتوں کے خلاف ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جن کے بارہ آج تک کوئی شخص لب کشائی نہیں کرسکا،جن کے تقدس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات توکیا انگلی ہلانے کی بھی ہمت نہیں ہوتی،مگر مفتی صاحب انہیں بھی للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان قوتوں کی طرف سے اکثر زیرعتاب رہتے ہیں،اسی جرات رندانہ کی وجہ سے وہ تین دفعہ پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دئے گئے ہیں اور ایک دفعہ ان پر حملہ کرکے ان کو مارنے کی کوشش بھی کی گئی ہے،ابھی حال ہی میں انہیں لالچ بھی دی گئی کہ اگر آپ مولانافضل الرحمن کو چھوڑکر ان سے اپنے راستے جداکرلیں تو آپ کو بیش بہا دولت سے نوازدیاجائے گا اور آئندہ سیٹ اپ میں آپ کو کلیدی عہدے پر فائز کردیاجائے گا،حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک کے روح رواں قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن ہیں،جو ملک میں مغربی ایجنڈے کے سب سے بڑے مخالف ہیں،تحریک انصاف،اس کے سربراہ اور اس کی حکومت کے خلاف اگر کوئی شخص خم ٹھونک کرکھڑا ہے تو وہ مولانافضل الرحمن ہیں جو روزاول سے عمران خان اور ان کے ایجنڈے کے خلاف برسرپیکار ہیں، انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر عمران خان نیازی کے بارے میں قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر جب وہ کسی کے دام میں نہ آسکے تو ان کے خلاف زہریلے قسم کے پروپیگنڈے پھیلائے گئے،ان کے ساتھیوں کو ان سے جداکرنے کی کوشش کی گئی، ان کی جماعت میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں کی گئیں،علماء کو ان کے خلاف کھڑاکرنے کی کاوشیں کی گئیں،کچھ علماء کو ان کے خلاف باقاعدہ طورپراستعمال کیاگیا،انہیں مراعات دی گئیں،انہیں ایوان اقتدار میں بلاکر ان کی خدمت کی گئی،ان سازشوں کی آخری کڑی چند دن قبل انہی کی جماعت کے کچھ لوگوں کو ان کے خلاف لاکھڑاکرنے کی کوشش تھی جوناکام ہوچکی ہے،مفتی کفایت اللہ کو اس صف میں کھڑانہ ہونے کی یہ سزادی جارہی ہے کہ ان پر غداری کا مقدمہ چلایاجارہاہے، ان کو گرفتارکرنے کی کوشش ہورہی ہے ان کے گھر پر رات کے دوبجے پولیس نے چھاپہ مارا لیکن مفتی صاحب گھر میں موجودنہ تھے جس پر پولیس نے ان کے بھائی قاضی حبیب الرحمن،صاحبزادوں شبیر کفایت، حسن کفایت اوربہنوئی مولاناعبدالماجد کو گرفتارکرلیا،اس دوران پولیس نے چادر اور چاردیواری کا تقدس بری طرح پامال کرتے ہوئے بدزبانی اور گالم گلوچ کاحسب روایت بھرپور مظاہرہ کیا،گھرمیں خواتین کے سامنے شرمناک جملے کستے ہوئے درندگی اور جہالت کاوہی وطیرہ اپنایا جو اس شعبہ کا خاصہ ہے،گالم گلوچ بدزبانی  گندی ذہنیت کا پتہ دیتی ہے،جو کسی عام انسان کے ساتھ بھی نہ قانوناًجائز ہے نہ اخلاقاً اس کی گنجائش ہے مگرہمارا پورا معاشرہ ان حدودکوپھلانگ چکا ہے اور پولیس تو اس میں کمالِ مہارت رکھتی ہے،مفتی کفایت اللہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ملک کا ایک بہت بڑا مذہبی اور سیاسی نام ہے،ایک عظیم خطیب بیباک مقرر ہیں،مانسہرہ کی سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت ہیں جب پولیس نے ان کے ساتھ اس طرح کا نازیبا اور گھٹیا قسم کا جاہلانہ،متکبرانہ اور گستاخانہ رویہ اپنا یاہے تو عام لوگوں کے ساتھ پولیس کا کیا رویہ ہوگا؟ڈی پی او،ڈی آئی جی اور آئی جی صاحبان کو چاہئے کو اپنی پولیس کی تربیت کریں ان کو انسانیت کا سبق دیں ان کو احترام انسانیت کی تعلیم دیں،یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اب تو ریاست مدینہ میں قوم کے محافظ ہیں،یہ انگریزوں کی فوج نہیں پاکستان کی پولیس ہے مگر ان کا رویہ آج بھی قوم کے ساتھ انگریزی افواج کی طرح متکبرانہ اور گستاخانہ ہے،ان کی نظر میں انسان وہی ہے جس کے پاس مال ودولت ہو،غریب آدمی چاہے جتنا بھی بڑاانسان ہو وہ ان کی نظرمیں انسان نہیں بلکہ اس کے اس ساتھ جانوروں والا سلوک ان کی گھٹی میں پڑاہواہے،مفتی کفایت اللہ کے گھر والوں کے ساتھ بدتمیزی اور نارواسلوک اس طبقہ نے کیا ہے اگر سرعام اس کی معافی نہ مانگی گئی تو جمعیت علماء اسلام کے ہزاروں کارکنان وردی میں ملبوس ان بھیڑیوں کے خلاف احتجاج کا حق رکھتے ہیں، مفتی کفایت اللہ گرفتاری سے بھاگنے والے نہیں مگر وہ جماعتی نظم کے پابند ہیں جب جماعت کی طرف سے ان کو گرفتاری پیش کرنے کا حکم ہوگا تو وہ سب کے سامنے گرفتاری پیش کریں گے،پولیس اس طرح اوچھے ہتھکنڈوں سے ان گرفتار نہیں کرسکتی،ہمارے نظام انصاف کایہ بھی ایک افسوسناک پہلو ہے کہ جب ملزم نہیں ملتا تو اس کے پورے گھرانے کو گرفتار کردیاجاتا ہے،جو نہ کسی انسانی قانون میں جائز ہے اورنہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں اس کی کوئی گنجائش ہے،ہر آدمی اپنے کئے کا ضامن ہے،کسی کے گناہ میں اس کے والد،بھائیوں بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کرنا نہ عقلاً جائز ہے اور نقلا ً کسی مہذب معاشرے میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے،مفتی کفایت اللہ کو اگرگرفتار کرنا تھا تو اسلام آباد میں روزانہ وہ کئی ٹی وی چینلز پروہ ٹاک شوز میں حصہ لیتے ہیں وہیں سے ان کو نہایت آسانی کے ساتھ گرفتار کیاجاسکتا تھا مگر ایک نہتے شخص کی گرفتاری کے لئے سینکڑوں مسلح پولیس کے ساتھ ان کے گھر پر دھاوا بولنا پولیس کی ایک شرمناک کاروائی ہے،مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کی کوششوں اور ان کے بھائی،بیٹوں اور بہنوئی کی گرفتاری پر جمعیت علماء اسلام کے کارکنان میں شدیدغم وغصہ کی کیفیت پائی جاتی ہے،مفتی کفایت اللہ کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ جمعیت علماء اسلام کاایک ایک ممبر اور پی ڈی ایم کا ایک ایک کارکن مفتی کفایت اللہ کے ساتھ کھڑا ہے،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری اورپی ڈی ایم کے مرکزی نائب صدرسینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کی کوششوں،ان کے گھر پر چھاپے اور ان کے رشتہ داروں کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بوکھلا چکی ہے انتقامی کاروائیوں سے اندازہ ہورہاہے کہ وہ کس قدر خوف زدہ ہے انہوں نے کہا انتظامیہ نے چادر اور چاردیواری کی تقدس کو پامال کیا ہے مفتی کفایت اللہ ایک سیاسی شخصیت ہے انتظامیہ کا ان کے گھر پر دھاوا بول دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت آئین وقانون سے ماوراء اقدامات کے ذریعے جمعیت علماء اسلام پر دباؤ ڈالناچاہتی ہے، اس طرح کے اقدامات سے ہم اپنی تحریک سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے،انہوں کہا کہ حکومت نے ثابت کردیا کہ وہ چوری کے ذریعے برسراقتدار آئی ہے،جمہوری حکومتوں میں اس طرح کی قدغنیں نہیں لگائی جاتی،حکومت ہوش کے ناخن لے مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کی کوششیں ترک کرکے گرفتار اہل خانہ کو فی الفور رہا کردے، پی ڈی ایم کے معاون ترجمان اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ اورجے یو آئی کے مرکزی ترجمان اسلم غوری سمیت جمعیت علماء اسلام کے تمام اکابرین نے اس پولیس گردی اور حکومت کی بوکھلاہٹ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے جمعیت علماء اسلام کو اپنے موقف اور دھاندلی زدہ حکومت کے خلاف تحریک سے پیچھے نہیں ہٹایاجاسکتا، گرفتاریاں،مقدمات اور الزمات سے جمعیت علماء اسلام کے کسی کارکن کوجھکایا نہیں جاسکتا،حکمران اتنا ظلم کریں جس کو کل خود بھی برداشت کرسکیں،وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا جلد حالات پلٹاکھائیں گے،آج کے حکمران کل کے مجرم بن کر قانون کے کٹھہرے میں کھڑے کئے جائیں گے،آج دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کریں کل جس کو خود بھی سہہ سکیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.