ماس اورراس (محمد ناصر اقبال خان)

0

 زبان دراز اورشعبدہ بازعمر شیخ اپنے مخصوص بلکہ منحوس اندازمیں لاہورپولیس کوتین ماہ میں تبدیل کرنے کیلئے شیخیاں اور ڈینگیں مارتارہا لیکن اس کے ہرایک ناقص” ایکشن "سے لاہورپولیس "ڈپریشن” بلکہ آئی سی یومیں چلی گئی تھی،اس نے ڈسپلن فورس کاشیرزاہ بکھیردیا۔ڈی آئی جی سے جوان تک سبھی بددلی اورمایوسی کی کیفیت میں تھے اوران میں سے کوئی بھی عمر شیخ کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیارنہیں تھا۔عمر شیخ کی شیخیوں،شعبدہ بازیوں اوراپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ تلخیوں کی بدولت لاہور میں مجرمانہ سرگرمیوں میں مزید شدت آگئی تھی،موصوف کی تقرری کے روزہی راقم نے اپنے کالم میں ان خدشات کااظہارکردیاتھا۔عمر شیخ کی بدترین” ناکامی "اور”بدنامی "کے بعد تبدیلی سرکارنے ا سے ہٹادیا،موصوف کی جہاں تقرری کی گئی اب وہاں ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی شامت آئے گی اورفاروق آبادپنجاب کانسٹیبلری کاادارہ تختہ مشق بن جائے گا،جس طرح اس نے لاہورپولیس کادھڑن تختہ کردیا تھا۔”سوپیازاورسوجوتے "کامحاورہ تبدیلی سرکار پرصادق آتا ہے،طاہراشرفی کومشیرمقررکرنے کے بعدثروت مندوں کو”تر”بنانے میں ماہر،”امامت” کو”امارت” کیلئے استعمال کرنیوالے، مراعات پسنداورخودپسندعبدالخبیرآزاد کومرکزی رویت ہلال کمیٹی کاچیئرمین بناناکپتان کاانتہائی متنازعہ اور عاقبت نااندیشانہ فیصلہ ہے۔ میں نے عمر شیخ کی تقرری والے دن جونوشتہ دیوارپڑھ لیا تھا وہ کپتان اوراس کے معتمدبزدار کو چار ماہ بعد سمجھ آیا۔عمر شیخ ” بزدارثانی ” تھالہٰذاء اسے بدلنا پڑا،عثمان بزدار کی” تبدیلی "تک تبدیلی سرکارپنجاب میں ڈیلیورنہیں کرسکتی۔ عمر شیخ کوسی سی پی اولاہور لگانے کافیصلہ انتہائی غلط تھا،موصوف کسی بھی انتظامی عہدہ کیلئے موزوں نہیں۔

میں نے حالیہ چار ماہ کے دوران متعدد کالم سپردقرطاس کئے اوردوٹوک اندازمیں لکھا "تھانہ کلچر تبدیل کرنے کیلئے عمر شیخ کی تبدیلی ناگزیر ہے”،میں نے یہ بھی لکھا،”عمر شیخ کی تقرری کی” عمر”بہت مختصر ہے”۔راقم نے اپنے22دسمبر2020ء کے کالم ”تھانہ کلچر اورسیاسی کچرا”میں لکھاتھا،  "عمران خان نے سودن میں نیاپاکستان جبکہ عمر شیخ نے تین ماہ میں لاہورپولیس کونیویارک پولیس بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن دونوں کرداروں کو ان کے نام نہادارادوں میں ناکامی کاسامناکرناپڑا۔ حالیہ دنوں میں ایک خاتون اور مردپولیس آفیسرکے درمیان "قرب” اس وقت دونوں کیلئے” کرب” میں بدل گیاجب آئی جی پنجاب انعام غنی نے دوایس پیز کی خدمات وفاق کے سپردکردیں،اس ایک ایکشن سے ہر کسی کی پوزیشن واضح ہوگئی۔داناؤں نے درست کہا "ہرعروج کوزوال ہے اور”زورآور” ایک نہ ایک دن” زیر”ہوجاتے ہیں "۔وہ شخص جو سابقہ آئی جی شعیب دستگیر کی سی پی اوسے رخصتی کاکریڈٹ لے رہا تھااب دن بدن اس کی گرفت کمزورپڑتی چلی جائے گی "۔نیاسال شروع ہوتے ساتھ عمر شیخ کے منفی رویوں کی گھٹن اورنحوست سے نجات لاہوربلکہ پنجاب پولیس کیلئے راحت افزاء اور تازہ ہواکاجھونکا ہے۔عہدحاضر کے فرعون یادرکھیں موسیٰ علیہ السلام کاتعاقب کرتے ہوئے اُس دورکا فرعون فناہوگیا تواس کی باقیات کس طرح دوام پاسکتی ہیں۔جولوگ معمولی منصب ملنے پرفرعون بن جاتے ہیں ان کے شرمناک زوال اورانجام کی الٹی گنتی اسی روزشروع ہوجاتی ہے۔راقم کے نزدیک صرف وہ لوگ منصب کے اہل ہیں جو عادل منصف کی طرح فیصلے جبکہ مصنف کی مانند سچائی تک رسائی کاراستہ ہموار کریں۔جوانسان نفرت کاشت اوراس کی تجارت کرتے ہیں عزت اور نصرت ان سے روٹھ جاتی ہے۔عمر شیخ شہریوں کی "دعاؤں ” سے گیا یااہلکاروں کی” بددعاؤں ” سے ا س کااندازہ لگانا زیادہ دشوار نہیں،نیک نام ایس پی دوست محمدنے بددعا نہ بھی دی ہوتوجس نے ان پربہتان لگایاوہ قدرت کی گرفت میں آگیا،جو”محمدؐ”کا”دوست” ہو اس کے ساتھ عداوت قدرت کے غضب کودعوت دینے والی بات ہے۔عمر شیخ کوہٹاناکافی نہیں،اس کے متنازعہ ترین اقدامات کوبھی فوری طورپر” رول بیک” کیاجائے ورنہ اس کے ہاتھوں نقصانات کامداوانہیں ہوگا۔انصاف کا علم بلندکرتے ہوئے ڈی آئی جی شہزادہ سلطان،ایس پی عاصم افتخار کمبوہ اورایس پی دوست محمدکوفوری طورپران کی سابقہ پوسٹنگ دی جائے۔فاروق اصغر اعوان،عمران قمر پڈانہ،غلام عباس اور اسد عباس سمیت ہراُس ایس ایچ اوکودوبارہ تعینات کیاجائے جوعمر شیخ کے انتظامی نہیں بلکہ انتقامی "فارمولے "کانشانہ بنے۔عمر شیخ کااپنے بارے میں ” زعم” اس کیلئے ایک گہرا”زخم” بن گیا۔عمر شیخ کی زبان بہت چلتی تھی اورجس کی زبان چلتی ہواس کاکام نہیں بولتا۔

باصلاحیت اورجہاندیدہ غلام محمودڈوگر کی تقرری سے لاہورپولیس آئی سی یوسے باہر جبکہ فورس کی جان میں جان آگئی ہے،آفیسراوراہلکارگہرے اطمینان کااظہار کررہے ہیں۔انتھک غلام محمودڈوگر نے اس سے قبل بھی ملتان اورفیصل آبادسمیت لاہور میں مختلف عہدوں پر بااحسن خدمات انجام دی ہیں اورآج بھی ان کانام احترام سے لیا جاتا ہے۔غلام محمودڈوگر کوشہرلاہورکی روایات اور نفسیات کاعلم ہے،وہ تہواروں اورکرداروں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔لاہور کے شرفاء،بدمعاش اوربدقماش کوئی ان سے پوشیدہ نہیں۔وہ یقینا انتقامی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پردوررس اصلاحات کریں گے اوران کے دورمیں تھانہ کلچر تبدیل ہوتاہوامحسوس ہوگا۔غلام محمودڈوگر ایک عزت دار کی حیثیت سے اپنے ٹیم ممبرز سمیت شہریوں کوبھی عزت دیں گے لیکن جہاں ان کاکوئی ماتحت مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کرے گااسے سزا ضرورملے گی۔یقینالاہورپولیس کی خوداعتمادی اورخودداری کی بحالی غلام محمودڈوگر اوراشفاق احمدخان کی ترجیحات میں سرفہرست ہوگی۔غلام محمودڈوگراوراشفاق احمدخان نے فیصل آبادمیں بھی ایک ساتھ کام اورعمدگی سے پرفارم کیا ہے، وہ لاہورمیں بھی ایک ساتھ ڈیلیورکریں گے جس سے عوام کاپولیس پراعتمادبحال جبکہ اہلکاروں کامورال بلند ہوگا۔ایک بہترین کپتان وہ ہے جواپنے ٹیم ممبرز کی صلاحیتوں اورتوانائیوں سے استفادہ کرے،غلام محمودڈوگراوراشفاق احمدخان کی قائدانہ صلاحیتوں سے ان کے ٹیم ممبربھی مستفیدہوں گے۔ڈی آئی جی آپریشنز لاہوراشفاق احمدخان کو ہرطرح کے حالات میں اپنافرض منصبی بااحسن انجام دینے کاہنر خوب آتا ہے۔اگر لاہورپولیس کے آپریشنز ونگ کی باگ ڈور متعدل،مستقل مزاج،مستعداورپروفیشنل ڈی آئی جی اشفاق احمدخان کے ہاتھوں میں نہ ہوتی توانتہاپسند عمر شیخ کے ہاتھوں لاہورمیں خدانخواستہ کوئی بڑاسانحہ رونماہوسکتاتھا۔اشفاق احمدخان فطری طورپر مہم جو اور مردمیدان ہیں،انہیں چیلنجز سے نبردآزماہو نااچھالگتاہے۔اشفاق احمدخان کیلئے عمر شیخ کے ساتھ چلنا دشوارتھا لیکن وہ ہمت نہیں ہارے اورحساس معاملات میں سی سی پی اولاہور سے اختلاف رائے کرتے رہے۔عمر شیخ کے مختصر دورمیں لاہور کے اندر اشفاق احمدخان کادم غنیمت تھا۔ ہمارے ہاں بدعنوان اوربدزبان عناصر سیاست اورصحافت تک محدود نہیں بلکہ پولیس بھی اس معاملے میں خودکفیل ہے۔ عمر شیخ سمیت متعدد پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کوقانون کی دفعات ازبرہوں نہ ہوں لیکن انہیں گالیاں ضروریاداوران کی زبان پررواں ہوتی ہیں۔ناداروں،کمزوروں،اسیروں اوریتیموں کے ساتھ حقارت سے پیش آنیوالے انسان انسانیت پربوجھ ہیں۔انہیں کہناچاہتاہوں اسلام کی روسے اگرہم کسی فقیر کوخیرات نہیں دے سکتے توہمیں اسے دھتکارنے کا بھی حق نہیں پہنچتا کیونکہ انہیں بھی اپنی عزت نفس بہت عزیز ہوتی ہے جو کسی کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،اگرہم کسی فقیرکونہیں دھتکار سکتے توپھر یقینا کوئی آفیسر بھی اپنے ماتحت کی خوداعتمادی اورخودداری پرخودکش حملے نہیں کرسکتا۔ شعیب دستگیر نے اصولی بنیادوں پر” زیرتربیت” وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات میں عمر شیخ کی متنازعہ تقرری بارے اپنے شدیدتحفظات کااظہارکیا تو الٹا انہیں سمجھوتہ کرنے کامشورہ دیا گیا لیکن ان کے آبرومندانہ انکار پرانہیں سبکدوش کردیا گیا۔سی سی پی اوکی بجائے آئی جی کی” تبدیلی” کے سلسلہ میں "تبدیلی سرکار” کے اس عاقبت نااندیشانہ اقدام کے نتیجہ میں عمر شیخ کی گالیاں عزت دار اہلکاروں کیلئے گولیاں بن کران کے سینے چھلنی کرتی رہیں۔سی آئی اے لاہور کیلئے پروفیشنل ازم کی بنیادپر سرمایہ افتخار ایس پی عاصم افتخارکمبوہ نے عمر شیخ کے اشتعال انگیز اورتوہین آمیز رویہ کیخلاف جرأتمندانہ اورآبرومندانہ اندازسے مزاحمت کی توالٹاانہیں ٹرانسفرکر دیا گیا۔سابقہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہورشہزادہ سلطان منجھے ہوئے آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ منفرداسلوب کے شاعر اور اخلاص سے بھرپورایک حساس انسان ہیں لہٰذاء انہوں نے بھی منصب کی بجائے عزت بچانے کافیصلہ کیا لہٰذاء ان کالاہور پولیس سے علیحدگی اختیارکرنے میں عافیت سمجھنافطری امر تھا۔عمر شیخ کے” جارحانہ "اور”جاہلانہ” جملے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں پرحملے کی مانند تھے۔ سرکاری اہلکار ریاست کے وفادار اورملازم ہوتے ہیں کسی حکمران یاحکام کے غلام نہیں۔ان کی غلطی یامجرمانہ غفلت پرانہیں قانون کے مطابق سزادی جاسکتی ہے لیکن کوئی انہیں گالی نہیں دے سکتا۔بدزبان عمر شیخ اپنے بے بس اور بے زبان اہلکاروں کے ساتھ ساتھ خواتین اورشہریوں کوبھی نہیں چھوڑتاتھا،پچھلے دنوں ایک سائل خاتون نے دادرسی کیلئے عمر شیخ کوفون کیا تواسے بھی بری طرح دھتکارا گیا، خاتون کوگالی دینے کی آڈیووائرل ہونے کے باوجود وزیراعظم اوروزیراعلیٰ سمیت کسی نے عمر شیخ سے بازپرس نہیں کی لیکن اب چیف جسٹس عدالت عالیہ لاہور جسٹس قاسم خان نے عمر شیخ کے عدلیہ کیخلاف توہین آمیز انٹرویوزکی رپورٹ مانگ لی ہے۔ عمر شیخ کی متعدد ویڈیوزسوشل میڈیاپرزیرگردش ہیں،ان ویڈیوزمیں عمر شیخ کو انتہائی معصومیت کے ساتھ اپنی نااہلی،ناکامی اوربدانتظامی کاملبہ عدلیہ پرگراتے ہوئے صاف دیکھاجاسکتاہے۔یہ” غار”کادور ہے اورنہ ہم” اغیار” کے رحم وکرم پرہیں لہٰذاء عدلیہ سمیت خواتین، شہریوں اوراہلکاروں کی توہین برداشت نہیں کی جاسکتی۔ آزاد عدلیہ کو یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچاناہوگا۔ "اگرایک کتادوسرے کتے کا”ماس” ہڑپ کرے تواسے” راس” نہیں آتالیکن زیادہ تر پولیس آفیسر اوراہلکار ایک دوسرے کی دمڑی تودرکنار چمڑی بھی نہیں چھوڑتے”۔ میں نے آفیسرز کے ہاتھوں ماتحت اہلکاروں کو”استعمال "اوران کا”استحصال” ہوتے دیکھا ہے، تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے یہ مجرمانہ روش بندکرناہوگی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.