آج کا یہ مضمون اپنی نوعیت میں تین طرح سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آ ج میں اپنے قارئین کو ایک ایسی ہستی سے متعارف کروانے جا رہا ہوں جن کا دل ملک وملت کی محبت اور سب سے بڑھ کر عشق رسولﷺ سے سرشار ہے۔ وہ جس قدر ملک سے محبت کرتے ہیں اسی قدر اپنی ماں بولی اور سر زمین سے بھی محبت کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک عاشق رسولﷺ ہیں جو لفظوں کی صورت قرطاس پر رقم کرتے ہیں۔ عشق رسولﷺ پر ہم بات کرنے سے پہلے میں اس ہستی کی ماں بولی اور شخصیت کے بارے میں قارئین کو بتانا چاہوں گا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بہت سی ریاستیں میں سے جہاں مسلم آبادی زیادہ تھی اور وہ پاکستان کے ساتھ ضم ہونا چاہتی تھیں ایک ریاست چترال بھیہے۔چترال پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے جنوبی سرے پر واقع ایک ضلع ہے جسے سیاحتی، لسانی اور محل وقوع کے اعتبا ر سے ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کی مقامی زبان کھوار، چتھرار، آریائی، قشقاری اور پتو بھی کہلاتی ہے جو ایک ہند، یورپی زبان ہے۔ یہ زبان چترال کے علاوہ افغانستان، ہندوستان اور سنگیانگ (چین)میں بھی بولی جاتی ہے۔کھوار سابق ریاست چترال کی سرکاری زبان تھی جو پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد مقامی زبان میں تبدیل ہو گئی۔ چترال کی سرز مین میں سال1970 کو ایک گلاب پھوٹا تھا جو آج خوشبو بن کر دنیابھر میں پھیل گیا ہے۔ آپ پاکستان کے نامور سائنسدان، مؤجد،سافٹ وئیر انجینئر، ماہر لسانیات، ادیب، شاعر، محقق، ماہر اقبالیات اور مترجم ہیں! جنہیں 2015 میں ان کی شاندار سائنسی خدمات، ایجاد و اختراع سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستانی زبانوں کیلئے خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے مایہ ناز پاکستانی سائنسدان سے منسوب ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایوارڈ و گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔آپ نے ایک انوکھا کلیدی تختہ ایجاد کیا جس کی مدد سے چالیس سے زائد پاکستانی زبانوں میں کمپیوٹر پر پہلی بار تحریر ممکن ہو پائی ہے۔آپ نے دنیا کا یہ کی بورڈ ایجاد کر کے عالمی ریکارڈ بنا کر پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ان شاندار لسانی خدمات کے اعتراف میں آپ کوجرمنی کی طرف سے انٹرنیشنل اینوویشن ایوارڈ،اینوویٹو اینیشی ایٹو ایوارڈ، شندور ایوارڈ، پاکستان یوتھ آئی کون ایوارڈ اقوام متحدہ، کارپوریٹ ایمبیسیڈر اینوویشن ایوارڈ، وائی سی ایم اینوویشن ایوارڈ کے علاوہ بے شمار ملکی و بین الاقوامی ایوارڈز و اعزازات ملے۔انہیں یہ ایوارڈز چہل زبانی کلیدی تختہ تفاعل کے نظریہ کو منصوب کرنے پر دیا گیا۔وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں جرمنی کی طرف سے پاکستانی زبانوں کے شعبے میں انٹرنیشنل اینوویشن ایوارڈ دیا گیا۔آپ نے کالاشہ، کھوار، بروشسکی، بلتی، گواریتی زبانوں کیلئے بھی الگ الگ موبائل، کمپیوٹر، آئی فون اور آئی پیڈ کلیدی تختے بنائے۔معدومیت کا شکار پاکستانی زبانو ں کیلئے یہ غیر معمولی اور پہلی کاوش ہے۔ادیب ہونے کی حیثیت سے آپ کا تعارف بھی دوسرے شعبوں کی طرح ایک مقام رکھتا ہے۔آپ ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ ماہنامہ ظرافت کراچی اور ماہنامہ چاند لاہور میں ”ہلکے فکابیہ“ کالم بھی لکھتے ہیں۔ تین نعتیہ مجموعے گلدستہ ء رحمت، گلدان رحمت اور گلستان مصطفیٰ ﷺ اردو اور چترالی زبان میں شائع ہو چکے ہیں جبکہ صدائے چترال کے نام سے ایک خطوط کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔آپ نے کھوار زبان میں پہلی بار شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کی کتابوں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، زبور عجم اور ارمغان حجاز کا منظوم ترجمہ کیاہے۔آپ نے کھوار اکیڈمی کے صدر نشین اور انجمن ترقی کھوار کراچی کے صدر کی حیثیت سے مادری زبان کیلئے غیر معمولی کردار ادا کیاہے۔ یہاں میری مراد فرزند پاکستان و کھوار اور سراپا ء محبت رحمت عزیز چترالی ہیں۔آپ وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے معدوم ہوتی اپنی ماں بولی کو زبان و ادب میں زندہ رکھنے کیلئے غیر کام سر انجام دئیے ہیں۔ آپ نے نہ صرف کھوار بلکہ شمالی علاقہ جات کی دیگر معدوم ہوتی زبانوں کو بچانے کیلئے یونیسکو کو اپیل بھیج رکھی ہے۔ لیکن انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر یہ زبانیں امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔ حالانکہ ایک نئی زبان سیکھنے کا مطلب ایک نئی روح حاصل کرنا ہے۔رحمت عزیز چترالی وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے تحقیق سے دس لاکھ کھواری بولنے والوں کے صحیح اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔اب ہم اپنے مضمون کے آخری حصے میں ان کے عاشق رسولﷺ ہونے پر بات کریں گے۔رحمت عزیز چترالی صحیح معنوں میں شاعر ہیں اور اپنی عقیدت کو لفظوں کی تسبیح کی صورت پیش کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان بھرمیں زیادہ ترلوگ قومی زبان اردو سمجھتے اور بولتے ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے تمام نعتیہ مجموعوں کو سلیس اردو میں ترجمہ کے ساتھ شائع کروارکھا ہے۔ اس وقت راقم ان کے تیسرے شعری مجموعے گلستان مصطفےٰ ﷺ کا مطالعہ کر رہا ہے۔ اگریہ مجموعہ محض چترالی زبان میں ہوتا تو ہم انکی زبان و بیان سے لطف اندوز تو ہوسکتے تھے لیکن سمجھ نہیں پاتے۔ لیکن کھواری کے ساتھ ان کی سلیس اردونے جس قدر ان کے خیالات سے ہم آہنگ کیا ہے اس نے ہم ایسے طالب علموں کو دو فائدے پہنچائے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم ان سے کھواری زبان سیکھ سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ عشق رسول ﷺ میں تصور کی جن بلندیوں پر ہیں اس کا ادراک ہوتاہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ رحمت عزیز چترالی جہاں کھوار ادب کیلئے کام کر رہے ہیں وہیں وہ اردو اور کھوار سمیت دیگر زبانوں کو باہم کرنے میں مضبوط سنگ میل بن کر سامنے آ ئے ہیں۔تمام اہل علم اوراہل قلم اس زبان کوسیکھ کر نئی روح حاصل کر سکتے ہیں۔ادب کی ایسی خدمت کیلئے رحمت عزیز چترالی بلاشبہ اعزازات کے مستحق رہیں گے۔ان کا مذکورہ نعتیہ مجموعہ 2020میں شائع ہوا جسے وزارت مذہبی امور نے سند امتیاز سے نوازا ہے۔اس مجموعے کے پہلے ایڈیشن کی پانچ سو کاپیاں شائع ہوئیں جس کی قیمت تین سو روپے ہے۔اس کے کل صفحات 89ہیں۔آخر میں اردوترجمے کے ساتھ کتاب سے کچھ انتخاب قارئین کی نظر!
مہ ارمان شیر یا نبیﷺ، مہ ارمان ہیہ
روزِ محشرا، کہ دست احمد مجتبیٰ بہہ کوم
ترجمہ: اے میرے نبی ﷺ ء محترم میری دلی تمنا ہے اور یہی تمنا ہے کہ روز محشر آپﷺ کے دست مبارک پر بوسہ دوں۔
کآ کہ محمدﷺ و سورا درود نو ریتائے
ہتو عو زندگی بیکار، فضول شیر
ترجمہ:جو مسلمان درود شریف کا ورد نہیں کرتا، اس کی زندگی بے کارو فضول ہے۔
ہسے نبیﷺ،نبیﷺ آخر زمان دی ہسے
ہسے امام الانبیاء تاجدارِ رسالت مہ پیغمبار
ترجمہ: وہی نبیﷺ ہیں، وہی آخری نبیﷺ ہیں وہی نبیوں کے امام ہیں اور تاجدارِ رسالت بھی وہی ہیں۔
دیدار کوراوے تو جو دنیو سردار محمدو ﷺ
ہیہ مہ آرزو شیر، وہ ہیہ مہ تمنا
ترجمہ: اے رب کعبہ دونوں جہانوں کے سردار محمدﷺ کا دیدار کرا دے، یہی میری آرزو ہے یہی میری تمنا۔
تہ نیشک، روپھک تہ لو حدیث
کھیو کہ تان زندگیہ تو اظہار کو ریتاؤ
ترجمہ: آپﷺ کا بیٹھنا، اٹھنا اور قول و فعل سب کے سب پیروی کے لائق ہیں۔ اور جو کچھ بھی آپ ﷺ نے زندگی میں کیا سب حدیث ہیں۔
قرآنو شکلہ اسپتے ای دستورالاؤ
ای ضابطہ ء حیات ای منشور الاؤ
ترجمہ: آپ ﷺ قرآن جیسا ہمارے لئے ایک دستور لائے، ایک منشور اور ضابطہ ء حیات لائے۔ اس کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ رحمت عزیز چترالی، وطن و زبان سے محبت اور عشق رسولﷺ بیک وقت اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔آخر میں ان کیلئے صحت و سلامتی کی ڈھیروں دعائیں