” سانحہ مچھ قابل مذمت“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

بلوچستان طویل عرصہ سے دہشت گردی، قتل وغارت اور سیاسی مسائل کا شکار ہے،کانکنی کے حالیہ واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے میں کچھ بے رحم طاقتیں بلوچستان کو ٹارگٹ کررہی ہیں۔ پہلے سیکیورٹی فورسزکے خلاف وارداتیں ہوئیں، پھر مختلف انتہاپسند گروپوں کے باہمی گٹھ جوڑکے نتیجے میں سیاسی، فرقہ وارانہ، وکلا برادری اورٹارگیٹڈ وارداتیں ہونے لگیں، ہزارہ برادری کے خلاف بھی سفاکانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔کوئٹہ میں زندگی کے معمولات درہم برہم ہوئے، اندوہناک ہلاکتوں کے سبب بلوچستان کے سیاسی اور جمہوری تشخص کے لیے سوالات نے سر اٹھایا، اب دوسرے رخ پر سنگدلانہ واقعات جنم لینے لگے ہیں۔بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کے 11 معصوم کان کنوں کا قابل مذمت قتل انسانیت سوز بزدلانہ دہشگردی کا ایک اور واقعہ ہے۔دل خراش واقعے کے خلاف کوئٹہ اور مچھ کے علاقوں میں احتجاج کیا جا رہا اور متعدد مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ادھر وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایف سی حکام کو فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کے 11 معصوم کان کنوں کا قابل مذمت قتل انسانیت سوز بزدلانہ دہشگردی کا ایک اور واقعہ ہے۔‘ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کان کنوں کو اغوا کرنے کے بعد شناخت کر کے قتل کرنے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔ ان تمام افراد کو گذشتہ رات نامعلوم افراد نے اس وقت اغوا کیا جب وہ سو رہے تھے اور ان کی شناخت کرنے بعد انہیں ’بے دردی‘ سے قتل کر دیا گیا۔واقعہ چونکہ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور پیش آیا ہے اور یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اس لیے لاشوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ ا۔وہ غریب مزدور تھے، دہشت گرد تھے، نہ ان کا انتہاپسندوں سے کوئی تعلق تھا، وہ جرائم پیشہ نہ تھے، سیدھے سادے محنت کش تھے، جو لوگ کان کنی کی صنعت سے گہری واقفیت رکھتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ کان کن کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے اور ان کوکون سی مراعات ملتی ہیں یہ بھی کسی کو پتہ نہیں، سخت محنت کے بعد ہی انھیں زندہ رہنے کے لیے کچھ معاوضہ ملتا ہے، ان کی ہلاکت بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور تزویراتی بحران کا ایک دردناک سوالنامہ ہے جس کا غیر روایتی انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلہ کانوں میں افغان اور ہزارہ برادری کے افراد مزدوری کرتے ہیں، جن پر اس سے قبل بھی متعدد جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔مچھ، کوئٹہ کے جنوب مشرق میں ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع کچھی کے معروف درہ بولان میں واقع ہے۔ یہ علاقہ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں۔کان کن لیبر یونین کے صدراقبال یوسفزئی نے بتایا کہ اس علاقے میں کوئلے کی 62 لیز ہیں اور ان میں سے 52 فعال ہیں۔  جو اعداد و شمار کے مطابق مچھ کی کوئلہ کانوں میں 17 ہزار کان کن کام کرتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ان کانوں سے 35 ہزار افراد کا روزگار جڑا ہے۔مچھ اور درہ بولان کا شمار بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے اور بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔اس علاقے میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہلے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں اس علاقے میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ان کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔بلوچستان کے جن دیگر علاقوں میں کوئلے کی کانیں موجود ہیں ان میں مچھ کے علاوہ ہرنائی، کوئٹہ کے قریب مارگٹ، مارواڑ، دکی اور چمالانگ کے علاقے شامل ہیں۔ان کانوں میں بلوچستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات اور شانگلہ اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کام کرتے ہیں۔چمالانگ، مارگٹ اور مارواڑ کے سوا بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں کان کنوں کی سکیورٹی کے مؤثر انتظامات نہیں ہیں۔ جس علاقے میں یہ واردات کی گئی اس سے لگتا ہے کہ دشمن نے اس کی با قاعدہ منصوبہ بندی کی اورمچھ کے علا قے گشتری سے کان کنوں کو ان کے کوارٹروں سے اٹھا کر پہلے ان کی پہچان کی اور پھر ان میں سے گیارہ مزدوروں کو الگ کرتے ہوئے قریبی پہاڑیوں میں لے گیا‘جہاں ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کو تیز دھار ا?لے سے ایک ایک کر کے ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی دردناک چیخوں سے درہ بولان دیر تک گونجتا رہا۔ ان گیارہ کان کن شہدا میں مشتاق حسین بھی شامل ہے جس نے 1053نمبر لے کر بلوچستان بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کان کنی کرتا تھا۔حکومت کو چاہیے کہ تمام مجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بے گناہ محنت کشوں کے سفاک قاتلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن کرے اور سانحہ مچھ کے علاقہ گیشتری میں ملوث عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو قانون کے شکنجے میں کس کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔  جبکہ مچھ میں قتل کانکنوں کے لواحقین اور مجلس وحدت مسلمین کامیتوں کے ہمراہ شدید سردی میں تیسرے روز بھی دھرنا جاری رہا،سانحہ مچھ کے لواحقین اور شہدا کمیٹی سے صوبائی حکومت کا تیسرا مذاکراتی دور بھی ناکام،دھرنا منتظمین نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم خود آئیں اور لوگوں کوسنیں، یقین دہانی کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں،صوبائی حکومت میں شامل جماعتیں اگر ناکام ہیں تو مستعفی ہوجائیں یہ ان کے قدراور وقار میں اضافہ کرے گا،وزیراعظم کے آنے اور یقین دہانی تک میتوں کے ہمراہ دھرنا جاری رہے گا۔ دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے دھرنا منتظمین نے کہاکہ ہمیں امن اور انصاف چاہیے،ڈھائی ہزار سے زائد لوگ قتل کانشانہ بن چکے ہیں لیکن کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی، اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں نے دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کی۔صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مچھ میں دہشت گردی کی مذمت اورجانی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ملزموں کو جلدکیفرکردار تک پہنچائیں گے۔گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے نہتے کان کنوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعے میں ملوث شرپسند عناصر کی فوری گرفتاری کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی ہدایت کی ہے، وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا کہ متاثرین کے آٹھ میں سات مطالبات مان لیے ہیں، ان کوسمجھنا چاہیے یہ ایک عالمی سازش ہے، کونے کونے میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے، کافی دہشت گردوں کو کیفرکردارتک پہنچایا ہے۔حکام اور ارباب اختیارکان کنی کے اس واقعے کے پس پردہ عناصرکے گھناؤنے کھیل کے بربریت آمیز منظر نامہ کا ادراک کریں اور خونیں گٹھ جوڑ میں ملوث سہولت کاروں کوکیفرکردار تک پہنچائیں جو وقفے وقفے سے بلوچستان کو غیرانسانی اور ہولناک واقعات کے ذریعے الجھائے رکھنا چاہتے ہیں جب کہ بے گناہ محنت کشوں کو بزدلانہ اور ظالمانہ طریقے سے انتقام کا نشانہ بنانے کی چنگیزی روایت کی خونیں تاریخ رقم کررہے ہیں۔ انسان دشمنی اور بے رحمی کے اس سلسلہ کو سختی سے کچل دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کے دشمن اپنی گریٹ گیم بڑی عیاری سے بھارت کے گٹھ جوڑ سے بلوچستان میں کھیلنے پر کمر بستہ ہیں، وہ بلوچستان میں اپنے اس ایجنڈے کو جسے پاک فوج نے کلبھوشن یادیو کے دہشتگردانہ نیٹ ورک کے خاتمے کے بعد اسے زمین بوس کردیا تھا اب وہ نئی مہم جوئی کی تلاش میں ہے۔غریب، مجبور،مفلس گیارہ محنت کش کان کنوں کا خون ہم سب سے سوال کرتا رہے گا کہ دہشت گرد دشمن کی طرف سے ہم بے خبر کیسے ہو گئے ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.