مودی کی موذیت، کشمیر اور عالمی امن ( ملک شفقت اللہ)

0

مقبوضہ جموں و کشمیر پر مودی کی یلغاریں جاری ہیں۔370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب تک مودی حکومت کو کوئی نہیں روک پایا ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ مظلوموں کی تقدیر پر کرونا عقرب بن کر چھایا ہے جس کی آڑ میں بھارتی حکومت نے اپنی ہر وہ منشا پوری کی ہے جو کشمیر کو ہتھیانے کیلئے کی جا سکتی تھی۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کو آج ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دارالحکومت سری نگر سمیت کشمیر بھر میں ہر سو سناٹا چھایا ہوا ہے۔سڑکیں سنسان ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں محدود ہیں۔ کرفیو نافذ ہے اور ڈیڑھ سال سے مسلسل کشمیری مکین بھارتی قابض فوج کے جبر و تشدد کی زد میں ہیں۔صورتحال پر باریک بینی کیلئے ڈرون کیمرے استعمال کئے جا رہے ہیں۔پولیس، خفیہ اداروں اور سول انتظامیہ کے ہنگامی اجلاسوں میں نت نئی پالیسیوں کے تحت تشدد اور ظلم کے نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں۔کورونا کی آڑ میں لاک ڈاؤن کی پالیسیوں میں سختی لا کر حریت تحریک کو کچلنے کیلئے ہر ممکن تگ و دو کی جا رہی ہے۔جہاں شہری علاقوں کی سڑکوں کو بند کر دیا گیا ہے وہیں دیہی علاقوں میں فوج کے بڑے بڑے کیمپ لگائے گئے ہیں۔ جس سے مراد تو یہی ہے کہ دہلی سرکار کشمیرمیں عوام الناس سے ٹکراؤ چاہتی ہے تاکہ اسے آبادی میں تناسب کے بگاڑ اور انہیں دہشتگرد ثابت کرنے کا ٹھوس ثبوت مل سکے۔ضد بازی اور انسانیت سے گری ہوئی سوچ کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ پورا سال غیر انسانی سلوک کو جاری رکھنے کے بعد اور کشمیر کی وادی میں معصوم لوگوں کا نا حق خون بہانے کی خوشی میں پندرہ روز تک بی جے پی کی جانب سے جشن اور ورچوئل ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں دہلی سرکار کے لیڈروں نے آن لائن خطاب کرتے ہوئے اس بات کی ترغیب دی کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ اور ان کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کیلئے ہر حد پار کی جائے۔اس جشن اور ریلی کیلئے مبینہ طور پر سرکاری پنچائیت گھر استعمال کئے گئے۔اس ڈیڑھ سال میں جموں و لداخ کی صورتحال دیکھ کر یہ امر بھی واضح ہو چکاہے کہ خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد جس ترقی و خوشحالی کے دعوے کئے جا رہے تھے وہ دھرے رہ گئے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی ترقی کے منصوبے کا آغاز تک نہیں ہو پایا ہے۔اس کے برعکس کشمیر کی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت سرکارکشمیرمیں تعینات کی گئی اضافی سکیورٹی کی حد میں 100سے 150کروڑیومیہ تک خرچ کررہی ہے۔اورپچھلے ڈیڑھ سال میں اسی ہزار کروڑتک خرچ کئے جاچکے ہیں۔جہاں کرونا کے دورانیے میں خودمودی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت بھر کی معیشت دگرگوں ہوچکی ہے وہیں بھار تی سرکار کی اس طرح کی معاشی پالیسیا ں یہ ثابت کرتی ہیں کہ بی جے پی حکومت ایک دہشتگرد جماعت ہے اور دہشتگردی کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے ان کے اس چھ،سات سالہ دور میں کہیں بھی اقلیتوں کو سکون اور چین کی سانس نہیں ملی ہے۔یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ  جموں وکشمیر کی آبا دی کے تناسب کو بگاڑنے کی سازش کے نتیجے میں اس کی متنازع حیثیت اور ہئیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی اس حقیقت سے فرار اختیارکیا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل نکا لنا ناگزیر ہے۔ حکو مت کے ان اقدامات اور کار وائیوں سے بلا امتیازجموں کشمیر کے تمام لوگوں میں شدید ناراضگی اور مایوسی میں اضافہ ہو اہے۔ مزید یہ کہ کشمیر کی  عوام پر شدیددباؤاور کریک ڈاؤن کے باوجود ان اقدامات کے خلاف ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ پاکستان نے روز اول سے جموں وکشمیر کی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی وکالت کی ہے اوروہ اپنے مؤ قف پر قائم ہے۔جموں وکشمیر کے اراضی قوانیں میں ایسی ترامیم کی گئیں ہیں کہ کوئی بھی بھارتی شہری اب کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ یہ اقدام ان آئینی معاہدوں سے انحراف ہے جو اقوام متحداہ میں پاکستان،کشمیر اور بھارت کے مابین جموں و کشمیر کے حوالے سے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔بھارتی حکومت نے کشمیر کے وسائل کی لوٹ مار میں  کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔ جعل سازی ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہریوں کی جہا ں رہائشی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے  وہیں ان کی فصلیں اور کاروبا ربھی لوٹے گئے ہیں۔ جموں وکشمیر میں نئے ڈومیسائل ضابطوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق جو بھی شخص جموں و کشمیر میں پندرہ برس تک رہائشی پذیر رہا ہو یا جس نے وہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں وہیں کے کسی ادارے کی طرف سے شامل ہوا  ہو، وہ ڈومسائل سرٹیفیکیٹ کا حقدار ہوگا۔ ایسا شخص سرکا ر ی ملازمتوں کا اہل اور غیرمنقولہ جائیداد کا مالک بھی بن سکتاہے۔اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے متعلق 29قوانین منسوخ کئے گئے اور 109قوانین میں ترمیم کی گئیں ہیں۔ بھارتی حکومت کے سیکولراورلبرل ہونے کے دعوؤں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی جب بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں اپناتے ہوئے انہیں دیوار سے لگایا گیا۔ گزشتہ سات برس کی ان پالیسیوں  اور بڑھتی ہو ئی نفرت انگیزسرگرمیوں کی وجہ سے امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے نے بھارت کی دونوں ہندو انتہا پسند تنظیموں وشواہندوپریشداور آر ایس ایس کو ورلڈفیکٹ بک میں دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔سی آئی اے نے اسی فیکٹ بک میں جموں کشمیر کو متنازعہ دکھاتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ بھارت میں ان دو تنظیموں کے علاوہ دیگر انتہا پسند گروہ بھی موجود ہیں جو مذہبی منافرت اور تعصب کو فروغ دیتے ہیں اور اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اسی فیکٹ بک میں آل پارٹیزحریت کانفرنس کو وادی کشمیرمیں علیحدگی پسند گروہ کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے اس وقت بھارت کی صورتحال دیکھ کر جو کچھ سمجھ آرہا ہے اس سے یہ واضح ہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسندتنظیمیں بھارتی خفیہ اداروں اور تھنک ٹینکس تک اپنی جڑیں پھیلاچکی ہیں۔یہی مقامی میڈیا کو بھی کنڑول کررہی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر 1990 سے ملٹری ایمرجنری قانون کے زیر اثر ہے۔ جس کے تحت فوجیوں کو مشتبہ علیحدگی پسندوں کو گولی مارنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔اس قانون کے تحت فوجیوں کو ان جرائم پر سول عدالتوں میں کاروائی سے بھی استثنیٰ حاصل ہے۔2010 میں بھارتی فوج کے افسران نے تین مزدوروں کا ماورائے عدالت قتل کیا اور انہیں نام نہاد لائن آف کنٹرول کے قریب موجود پاکستان کے درانداز بنا کر پیش کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کئی مہینوں تک احتجاج جاری رہا تھا اور اس دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہو ئے تھے۔اس سے قبل پینتیس سکھوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بھارتی فوج نے پانچ مقامی افراد کو دہشتگرد کہہ کر قتل کیا تھا۔ ایک طرف مودی حکومت بھارت کے اندر پشتوں سے رہائش پذیر مسلمانوں اور سکھوں کو نکالنے کے لیے پالیسیا ں بنارہی ہے تودوسری طرف کشمیر میں اس کے برعکس چند برسوں سے رہائش پذیر یا غیر مقیم رہائشیوں کے لئے دروا کررہی ہے۔یہی غیر منصفانہ رویہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ حکومت کا یہ دوہرامعیار بالواسطہ مسلم واقلیت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  موجودہ بھارتی حکومت کو برہمن اورہندوانتہا پسند جماعتوں وشواہندو پریشنداور راشتریہ سوک سنگھ کی آشیربادحاصل ہونے کی وجہ سے وہ دوبارہ منتخب ہوکر آئی ہے۔اس وقت پاکستانیوں اور کشمیریوں سے محبت رکھنے والے دیگر لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ مودی حکومت کی موذیت کے بارے میں ہرممکن چرچا کریں اور جس حد تک ممکن ہو اقوام متحدہ تک کشمیریوں کی آواز بنیں۔ بھارتی سرکار کے یہ اقدامات بلا شبہ عالمی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں جو ایک نئی خون ریز جنگ کو ہوا دینے کیلئے کافی ہیں۔انتہا پسند ہندو مسلمانوں کورسوا کرنے اور اپنی پالیسیوں کو تقویت دینے کیلئے ہر حد تک گر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنی ہی قیادت کے اہم لوگوں میں سے کسی کا قتل کرکے ایک نیا فساد بپا کر دیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.