خلیفہ رسول ؐ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

         خلیفہ رسول ؐ سیدنا ابوبکر صدیق کا اصل نام عبداللہ ہے،شجرہ نسب اس طرح ہے،عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی،اس طرح حضرت ابوبکر صدیق کا سلسلہ نسب چھٹی پشت ”مرہ“پر جاکرنبی کریم ﷺسے مل جاتا ہے۔آپ کے والد ابوقحافہ عثمان فتح مکہ تک اپنے سابقہ دین پر قائم رہے،اور فتح مکہ کے دن اسلام لائے،آپ کی والدہ حضرت ام الخیرسلمی بنت صخر کو ابتداء ہی سے حلقہ بگوشانِ اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔اسلام لانے سے قبل حضرت ابوبکر صدیق ؓ مکہ میں دیانت دار،راستباز، امانت داراورحسن خلق سے مالامال ایک متمول تاجرکی حیثیت سے شہرۃ رکھتے تھے۔آپ ؓ کو بچپن ہی سے نبی کریم ﷺکے ساتھ انس ومحبت اور تعلق تھا تجارتی اسفارمیں اکثر دونوں ساتھ رہتے تھے،نبی کریم ﷺنے جب اعلان نبوت کے بعد اپنے احباب کے سامنے مخفی طورپر حقیقی صورت حال رکھی تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سب سے پہلے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا،خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ،ؓبچوں میں حضرت علی المرتضیٰ ؓ،غلاموں میں حضرت زید بن حارثہؓ اور مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہے۔اسلام قبول کرتے ہی صدیق اکبر ؓ نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی اور ان کی دعوت پر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ تاریخ اسلام کی عظیم ہستیاں ابھرکرسامنے آئیں جن میں حضرت عثمان بن عفان،ؓ حضرت زبیر بن العوام،ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف،ؓ حضرت سعد بن ابی وقاص،ؓ حضرت طلحہ بن عبیداللہ،ؓحضرت عثمان بن مظعون،ؓ حضرت ابوعبیدبن الجراح،ؓ حضرت ابوسلمہ ؓ اور حضرت خالد بن سعید بن العاص ؓ شامل ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور نبی کریم ﷺکا دست وبازوبن کر ہر موقع پر آپ ﷺکے ساتھ شریک رہے،نبی کریم ﷺروزانہ صبح وشام حضرت ابوبکر ؓ کے گھرتشریف لاتے اور دیرتک اہم امور پر رازونیاز کی مجلس قائم رہتی،جب نبی کریم ﷺمختلف قبائل میں دعوت دینے کے لئے تشریف لے جاتے تو ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ کے ہمراہ ہوتے نسب دانی اور اپنے تعلقات کی بناپر لوگوں سے آپ ﷺکا تعارف کراتے۔مکہ کے اندر ابتداء میں جن لوگوں نے کلمہ اسلام پڑھا ان میں اکثریت غلاموں اور لونڈیوں کی تھی،جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجہئ استبدادمیں گرفتارہونے کی وجہ سے طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا رہتے تھے،حضرت ابوبکر ؓ ان بے بس مظلوم مسلمانوں کو خریدکر آزادکرتے تھے جن میں موذن رسول حضرت بلال،ؓ حضرت عامربن فہیرہ،ؓ حضرت زنیرہ ؓ،حضرت نہدیہ،ؓ حضرت ام عبیس ؓ اور دیگر کئی غریب،بے بس مگر جلیل القدرصحابہ کرامؓ شامل ہیں۔ایک دفعہ خانہ کعبہ میں مشرکین نے نبی کریم ﷺکو اس قدر مارا کہ آپ ﷺبے ہوش ہوگئے،حضرت ابوبکر دوڑتے ہوئے اور کہا تم ان کو صرف اس لئے قتل کردوگے کہ یہ ایک اللہ کا نام لیتے ہیں۔آپ ؓ مکہ کے بااثر افراد میں سے تھے مگر اس کے باوجود آپ ؓ نے اسلام کی وجہ بہت زیادہ سختیاں برداشت کیں،جب آپ ؓ کی تبلیغ پر حضرت طلحہ ؓ مسلمان ہوئے تو ان کے چچانوفل بن خویلد نے حضرت طلحہ ؓاور حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ساتھ باندھ کر مارا اور حضرت ابوبکر ؓ کے خاندان نے حمایت تک نہ کی۔مشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر آپ ؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا اور رخت سفرباندھ کر حبشہ کی طرف روانہ ہوئے،راستہ ایک کافر سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟تو آپ ؓ نے فرمایا قوم نے مجھے جلاوطن کردیا ہے،اب ارادہ ہے کسی اور ملک جاکر آزادی سے اپنے اللہ کی عبادت کروں،ابن الدغنہ نے کہا آپ جیساآدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا،آپ مفلس اور بے سہارالوگوں کی مددکرتے ہیں،قرابت داروں کا خیال رکھتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں،مصیبت زدوں کو اعانت کرتے ہیں چنانچہ ابن الدغنہ کی پناہ میں آپ واپس مکہ میں آئے اور اس نے قریش میں اعلان کیا کہ میں نے ابوبکر کو پناہ دی ہے،قریش نے کہا ایک شرط پر تسلیم کرتے ہیں کہ ابوبکر لوگوں کے سامنے نمازاور تلاوت نہ کریں،حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی تھی جہاں آپ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت ایسی دلسوزی کے ساتھ کرتے کہ قریش مکہ کی عورتیں اور بچے آپ ؓ کے اردگرد جمع ہوجاتے،چنانچہ آپ حسب معمول نماز اور تلاوت میں مشعول ہوگئے،تو کفار نے ابن الدغنہ سے شکایت کی اس نے آپ کو اس شرط کی طرف توجہ دلائی تو آپ نے فرمایا مجھے تمہاری پناہ کی کوئی ضرورت نہیں مجھے اللہ ورسول کی پناہ کافی ہے۔کچھ عرصہ بعدپھرکفار کے ظلم وستم سے تنگ آکر حضرت ابوبکر ؓ نے ایک دفعہ پھر ہجرت کی تیاری شروع کردی تاکہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے چلے جائیں،جب آپ ؓنے نبی کریم ﷺسے اجازت مانگی تو آپ ﷺنے فرمایا جلدی نہ کرو،اُمید ہے کہ مجھے بھی اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل جائے تو دونوں ساتھ ہجرت کرلیں گے۔ آپؓ نے بڑے تعجب سے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ کوبھی ہجرت کا حکم ہوگا؟آپﷺنے فرمایا:”ہاں۔درخواست کی مجھے بھی ہمراہی کاشرف حاصل ہو،ایک دن نبی کریم ﷺخلاف معمول تشریف لائے،اور حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر ہجرت کے لئے روانہ ہوئے،تین دن غار ثور میں گزارنے کے بعد مدینہ منورہ چلے گئے۔اہل مدینہ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا،کچھ دن آپ ﷺنے قباء میں حضرت کلثوم بن الہدم ؓ کے مکان میں گزارے،پھر مدینہ منورہ تشریف لے گئے،حضرت ابوبکر صدیق آپ ﷺکے ساتھ تھے،نبی کریم ﷺنے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت ابوبکر صدیق کی برادری حضرت حارثہ بن زہیر ؓ سے قائم کی گئی جو مدینہ کے ایک معززشخصیت تھے۔جب مسجد نبوی کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو جو زمین مسجد کے لئے خریدی گئی اس کی قیمت حضرت ابوبکر صدیق نے اداکی۔حضرت ابوبکر صدیق نبی کریم ﷺکے ساتھ غزوہ بدرسے لے کر غزوہ تبوک تک تمام غزوات میں شریک رہے،سریہ بنی کلاب اور بنوفزارہ دونوں کے امیر لشکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے،جس میں بہت سے قیدی اور مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔۹ہجری میں نبی کریم نے حضرت ابوبکر ؓ کو امیر الحج بناکر بھیجا اور ہدایت کی کہ منیٰ کے عظیم الشان اجتماع میں اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے،اور نہ کوئی برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف کرے۔۰۱ھ میں نبی کریم ﷺحجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر ؓ بھی ساتھ تھے۔۱۱ھ میں نبی کریم ﷺکے وصال کا سانحہ ہوا،تو انصارنے اعلان کیا کہ ایک امیر انصار میں سے ہوگا اور ایک مہاجرین میں سے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس مشکل وقت میں امت کی رہنمائی کرتے ہوئے انصارومہاجرین کو متحدکیا اور تمام صحابہ ؓ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے آپ کو امیر منتخب کیا،خلافت پرمتمکن ہونے کے بعد پہلامشکل مرحلہ حضرت اسامہؓ کے لشکرکا معاملہ تھا اکثریت کی رائے تھی کہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے اس لشکر کو روک دیاجائے مگر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا جس لشکر کی تشکیل رسول اللہ ﷺنے کی ہے میں اسے کیسے روک سکتا ہوں۔دوسرابڑامشکل معاملہ مدعیانِ نبوت کا تھا مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے نبی کریمﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا مگر اب ان کی قوت میں اضافہ ہوتا گیا طلیحہ اسدی اورایک خاتون سجاح بنت حارثہ تمیمی نے بھی نبوت کا دعویٰ کردیا،ہرمدعی نبوت کے ساتھ ہزاروں کا لشکر تھا،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ ان جھوٹے مدعیانِ نبوت کاقلع قمع کیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ کو طلیحہ اسدی کی سرکوبی کے لئے یمن بھیجا،مسلیمہ کذاب کے فتنہ کو مٹانے کے لئے حضرت شرحبیل بن حسنہ ؓ کو روانہ کیا،حضرت خالد ؓ نے یمن میں فتح حاصل کی تو انہیں شرحبیل بن حسنہؓ کی مددکے لئے بھیجا، شدید لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی اور مسیلمہ کذاب حضرت وحشی ؓکے ہاتھوں جہنم رسید ہوگیا،اس کی بیوی سجاح جو خود بھی مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ چلی گئی۔اسود عنسی کو قیس بن مکشوح اور فیروزدیلمی ؓنے واصل جہنم کرکے اس کو فتنہ بھی ختم کردیا۔ایک اور فتنہ جس نے مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشان کردیا تھا کہ نبی کریم ﷺکے وصال کے بعد بہت سارے سردارانِ عرب مرتد ہوگئے اور ہرایک اپنے علاقہ کا بادشاہ بن بیٹھا، مدینہ منورہ کے چاروں طرف قبائل میں ارتداد کا فتنہ پھیل گیا،لیکن حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنے ایمانی فراست سے اس طوائف الملوکی کامردانہ وارمقابلہ کیا اور مختلف لشکر بھیج کر چند دنوں میں حالات کو کنٹرول کرلیا،کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ نے دوبارہ اسلام قبول کیا،ایک اور فتنہ منکرین زکوۃ کا تھا اس بارہ میں صحابہ کے اندر اختلاف پیداہوا کیونکہ یہ لوگ کلمہ نماز کے قائل تھے صرف زکوۃ کا انکارکرتے تھے،حضرت عمر فاروق ؓ جیسی شخصیت کی رائے بھی یہ تھی کہ آپ ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیسے کرسکتے ہیں جو توحید ورسالت کا اقرارکرتے ہیں؟مگر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم!اگرایک بکری کابچہ بھی جو رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں دیاجاتاتھا کوئی انکارکرے گا تو میں اس سے بھی جہاد کروں گا اس موقع پر آپؓ نے ایک تاریخی اور ایمان سے لبریزجملہ ارشادفرمایا:”اَیَنْقُصُ الدِّیْنُ وَاَنَاحَیٌّ“کیادین اسلام میں کمی کی جائے گی اور میں زندہ رہوں گا؟آپؓ کی جدوجہدسے بہت جلد وہ لوگ بھی فرمانبرداربن گئے اور وہ تمام منکرین خود زکوۃ لے کر بارگاہِ خلافت میں حاضرہوئے۔مسئلہ ختم نبوت میں مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد خصوصاجنگ یمامہ میں سینکڑوں کی تعدادمیں حفاظِ قرآن شہید ہوگئے تھے،اس لئے حضرت عمر فاروق ؓ کو اندیشہ ہوا کہ اگراسی طرح حفاظ قرآن کریم شہید ہوتے گئے تو قرآن کریم کا بہت ساحصہ ضائع ہوجائے گا،انہوں نے حضرت ابوبکر کی توجہ تدوین قرآن کی طرف مبذول کرائی شروع میں تو حضرت ابوبکر ؓانکارکرتے رہے لیکن پھر مشہور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو قرآن کریم جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی اور انہوں نے بڑے احتیاط اور ان تھک کوشش کے بعد قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرکے کتابی شکل دے دی۔مذکورہ بالا تمام فتنوں سے فارغ ہوکر حضرت ابوبکر ؓ نے قیصروکسریٰ کے ظالمانہ نظام سے انسانیت کو نجات دلانے کا منصوبہ بنایا،حضرت مثنی شیبانیؓ کی قیادت میں ایک لشکر عراق کی طرف روانہ کیا،امین الامہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کو خمص،حضرت یزید بن ابی سفیان ؓکو دمشق،شرحبیل بن حسنہؓ کو اردن اور حضرت عمرو بن العاص ؓ کو فلسطین کی طرف بھیجا،حضرت خالد بن ولید ؓکو پہلے عراق حضرت مثنی کی مددکے لئے بھیجا لیکن جب شام سے مزید کمک بھیجنے کی درخواست آئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت خالد بن ولید کو بھی شام جانے کا حکم دیا مجاہدین اسلام شام میں اجنادین کے مقام پر کفرکی کمرتوڑکردمشق کی طرف پیش قدمی کررہے تھے،ادھر عراق میں مثنی شیبانی کسریٰ کے ظلم وبربریت کو پاؤں تلے روند رہے تھے،حضرت عثمان بن ابی العاصی مکران سے آگے بڑھ کر سندھ اور ہندھ کی طرف پرچم اسلام بڑھا رہے تھے۔حضرت علابن حضرمی بحرین سے آگے بڑھ کر اسلامی سرحدوں کو وسعت دے رہے تھے،آپؓ کی خلافت کے ابھی سوادوبرس ہی ہوئے تھے کہ خلیفہ رسولؐ حضرت ابوبکر صدیق کو بخار ہوگیا اور پندرہ دن بخارکے بعد آپ نے اپنے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کو مسلمانوں کا خلیفہ مقررکیا اور 22جمادی الآخر 13ھ بمطابق 22اگست 634ء پیر کے دن مغرب کے بعد دنیائے فانی سے سفر کیا اور اپنی صاحبزادی اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ہجرہ میں امام الانبیاء حضرت محمدمصطفی ﷺکے پہلو میں محوخواب ہوئے،زندگی کاایک ایک لمحہ دین اسلام کی سربلندی اور رسول کریم ﷺکی حمایت میں گزارنے والے یارِ غاریارِ مزاربن کراپنی وفاؤں کا صلہ پاکر جنت میں پہنچ گئے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی زندگی کاایک ایک واقعہ ایمان واخلاص اور محبت ِ رسول ؐسے معطرہے،رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنۃ مثواہ

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.