غوثِ خراسان امام السالکین حضرت سید علی ترمذی المعروف پیرباباؒ اور ان کے خلیفہ اعظم شیخ الاسلام حضرت مولانا اخونددرویزہؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں،پختونخواہ کا ہرفرد بشر ان کی شخصیت،اخلاس وللہیت،سلوک وتصوف،مجاہدات وریاضات اوردینی جدوجہدسے بخوبی واقف ہے مگر بعض مورخین ومصنفین نے شیخ الاسلام حضرت مولانا اخونددرویزہؒ اور ان کے پیرومرشد سید علی ترمذی ”پیرباباؒ“کو مغل حکمرانوں کا ایجنٹ لکھاہے۔کہ انہوں نے بایزیدانصاری ]پیرتاریک[کا راستہ روکا جو ساری زندگی مغل حکمرانوں کے خلاف لڑتارہا اور قریب تھا کہ وہ پختونوں کی آزادحکومت قائم کرلیتا اگر یہ حضرات اس کا مقابلہ نہ کرتے اور اس پر الحادوزندقہ کے فتوے لگاکرعوام میں بے وقعت نہ کرتے تواس کی قیادت میں پختونوں کی اپنی ایک آزادریاست وجودمیں آجاتی۔خیبرپختونخواہ کے مورخین میں سے خان روشن خان اور بہادرشاہ ظفر کاکاخیل،اللہ بخش یوسفی،لائق شاہ درپہ خیل اور دیگر قوم پرست مصنفین نے قوم پرستی،دین بیزاری،علماء دشمنی یاآزادخیالی کے جذبے سے مغلوب ہوکر اس الزام کو بڑے شدومدسے ان حضرات پر تھوپنے کی کوشش کی ہے،مگر انہوں نے بھی ظن وتخمین کی بنیاد پر یہ بے ہودہ الزامات ان عظیم ہستیوں پر لگائے ہیں حالانکہ ان کے پاس بھی اس امر کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ان تمام معترضین کے ہاں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ حضرت پیربابامغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے نواسے اور ہمایوں بادشاہ کے بھانجے تھے اور ان کے والد سید قنبرعلی بابربادشاہ کے داماداور مغلیہ دربار کے حاشیہ نشینوں میں سے ]فوجی مشیر[تھے۔ اللہ بخش یوسفی صوابی کے رہنے والے اور آل انڈیا خلافت کمیٹی بمبئی کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں وہ اپنی کتاب ”یوسف زے“میں پیرتاریک بایزیدانصاری کی تحریک کے متعلق لکھتے ہیں:مردوزن بوڑھے جوان سب ہی اس کی تحریک کو اپنانے لگے جلد ہی تمام سرحدی قبائل اس کے حلقہ اثر میں آئے بایزید انصاری”پیر روشن“ کے نام سے مشہور ہوا…..قبیلہ یوسف زئی بھی اس کے لپیٹ میں تھا پوری قوم بایزید کو عزت ووقعت کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی پٹھان بحیثیت قوم پہلی بار متحدومتفق ہورہے تھے،اور اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی توشاید تاریخ کا نقشہ ہی بدل گیا ہوتا (جیسے موجوہ د دورمیں پاکستان کانقشہ بدل چکاہے) اور سلطنت مغلیہ کے حالات کی بجائے تاریخ کے اوراق پٹھانوں کے کارناموں سے مزین نظر آتے اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھئے کہ اس دوران……ہمایوں نے اپنے دوران فرارمیں ہی میں مستقبل کی فکر کرتے ہوئے سید علی ترمذی کو جو بعد میں چل کرپیرباباکے نام سے مشہور ہوئے اس طرف روانہ کردیا تھا تاکہ بایزید کی مذہبی تحریک کا مذہبی رنگ میں ہی مقابلہ کیا جاسکے،چنانچہ حضرت پیرباباؒ نے علاقہ یوسف زئی میں پہنچ کر اس طاقت وقوت سے بایزید کا مقابلہ کیا کہ وہی شخص جو پیر روشن کہلاتاتھا پیر تاریکی پکارا جانے لگا،نتیجہ یہ نکلا کہ بایزید انصاری کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا…آگے لکھتے ہیں:کچھ عرصہ بعد وہ (پیرباباؒ)تن تنہا عازم افغانستان ہوئے اس وقت تک ان کے والد اور دادا وفات پاچکے تھے،والدہ سے ملاقات ہوگئی تو پھر آپ واپس لوٹ آئے،ان کے تن تنہا اس سفر پر جانے اور واپس لوٹ کر گیگیانیوں کے علاقہ سے نکل کر بونیر میں پاچا کلی کے مقام پر قیام سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ہمایوں نے ہی انہیں اس طرف بھیجاہوگا بونیر میں قیام کے بعد انہیں شہرت حاصل ہوئی،مریدین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا اور یہیں پیربابا ؒکے نام سے شہرت ملی،لنگر جاری ہوا تو بایزید انصاری کی شدومد سے مخالفت کی جانے لگی اب انہیں حضرت اخونددرویزہؒ جیسے عالم دین بھی مل گئے تو ان کی تحریک نے اور زور پکڑا اور گو علمی میدان یامناظرہ میں وہ کسی وقت بھی بایزید انصاری کو شکست نہ دے سکے تاہم ان کی تعلیم وتبلیغ نے تحریک روشنائی کا علاقہ یوسف زئی میں خاتمہ کردیا اور بایزید انصاری کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کارہی نہ رہا کہ وہ نقل مکانی کرتے ہوئے آفریدیوں کے پاس جاکرمقیم ہوجہاں تحریک ایک عرصہ تک زندہ دکھائی دیتی رہی (ص ۰۵۲)اللہ بخش یوسفی نے تو بہتان تراشی میں کمال کردیا ہے کہ شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد جب ہمایوں قندھار اوروہاں سے ایران جارہاتھا تو اس نے پیر بابا کو بونیر بھیجا تاکہ بایزید کی تحریک کا مقابلہ کیاجاسکے،کاش!یہ شخص تاریخ کے نام پر صفحات کالاکرنے سے پہلے حضرت پیرباباؒکے بارہ میں کچھ مطالعہ کرلیتا تو اس کو اس قدر جھوٹ اور بہتان تراشی کرنے کی جرأت نہ ہوتی،ہمایوں جب شکست کھاکرقندھار اوروہاں سے ایران بھاگ رہاتھا تو اس کو اپنی جان کی پڑی ہوئی تھی یا بایزید انصاری کو ہرانے کی منصوبہ بندی کررہاتھا؟کیا پورے ہندوستان میں بایزید انصاری کی اتنی بڑی قوت تھی کہ ہمایوں کو سب سے زیادہ اس کی فکر تھی؟پیربابا کو بچپن میں ان کے والد چند دن شاہی دربار میں اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اس کے بعد پیربابا کی ہمایوں سے کوئی ملاقات تک نہیں ہوئی چہ جائیکہ پیربابااس کے ایجنٹ بن کر بونیر جاتے،کونسے قومی تعصب،علماء دشمنی یا دین بیزاری نے موصوف کو اس قدر جھوٹ لکھنے اور ایک عظیم ولی اللہ کے بارہ میں آئندہ نسلوں کو گمراہ کرنے پر مجبور کردیاتھا؟پیربابا تو اپنے شیخ اور مرشد کے حکم پر اس علاقہ میں دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لئے آئے تھے انہیں ہمایوں بادشاہ کی ایجنٹی سے کیا لگا تھا اگر انہیں بادشاہ کی خدمت کا اتنا شوق ہوتا تو وہ ہمایوں کا دربار چھوڑ کر فقیری اختیار نہ کرتے،شیخ سلونہ ؒاور شیخ سالار رومیؒ کے قدموں میں جاکر علم دین نہ سیکھتے،ریاضات ومجاہدات کرکے سلوک وتصوف کے مشقت بھرے راستے پر نہ چلتے،اپنے گھر اور خاندان کو نہ چھوڑتے،مگر اس تعصب کا کیاجائے جو خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی آنکھوں پر بھی جہالت کے پردے لٹکادیتاہے۔ان اعتراضات کے چند جوابات پیش خدمت ہیں (۱)اللہ بخش یوسفی پیربابا پر ایک نامعقول الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”ہمایوں نے اپنے دوران فرارمیں ہی مستقبل کی فکر کرتے ہوئے سید علی ترمذی کو جو بعد میں چل کرپیرباباکے نام سے مشہور ہوئے اس طرف روانہ کردیا تھا تاکہ بایزید کی مذہبی تحریک کا مذہبی رنگ میں ہی مقابلہ کیا جاسکے،چنانچہ حضرت پیربابا نے علاقہ یوسف زئی میں پہنچ کر اس طاقت وقوت سے بایزید کا مقابلہ کیا۔“مثال مشہور ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا،آئیے ذراتاریخ پر نظر دوڑاکردیکھیں کہ اللہ بخش یوسفی کا یہ الزام تاریخی لحاظ سے کہاں تک درست ہے؟شیرشاہ سوری نے جب دہلی پر قبضہ کرکے ہمایوں بادشاہ سے حکومت چھین کر اسے ملک سے جانے پر مجبورکیا یہ947ھ/ 1540ء کا واقعہ ہے اور بایزید انصاری پیرتاریک 932ھ /1525ء کو جالندھر میں پیداہوئے ہیں،اس حساب سے ہمایوں کے قندھار جاتے وقت بایزید کی عمر بمشکل 15 سال تھی،ابھی تو اس کو شاید اپنے گاؤں میں بھی نہ جانتا تھا،اس وقت اس کی تحریک کا آغاز اور مغل سلطنت کی مخالفت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،کیا ہمایوں بادشاہ عالم الغیب تھا کہ بایزید بڑا ہوکر ایک تحریک کا آغازکرے گا لہذاابھی سے اس کے مقابلہ کے لئے پیربابا کو بھیج دیاجائے۔موصوف مورخ اس الزام لگانے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ کرلیتے تو شاید بہتان تراشی کے اس جرم عظیم کے مرتکب نہ ہوتے۔(۲)دوسری بات یہ ہے کہ پیر تاریک کی تحریک کے ابتدائی دنوں میں یوسف زئی قبائل مغل حکمرانوں کے حمایتی ہی نہیں تھے بلکہ اس زمانہ میں تمام پختون مغل حکمرانوں کے اقتدارسے عملاً بالکل آزاداور خودمختار تھے (۳) حضرت اخوند درویزہ صاحبؒ اور ان کے پیرومرشدحضرت پیربابا ؒنے کسی دنیاوی غرض کے لئے پیرتاریک پر الحادوزندقہ کے فتوے نہیں لگائے بلکہ اس کے عقائد ونظریات کے مطابق اس پر فتوے لگائے تاکہ وہ مسلمانوں کے عقائد واعمال کو خراب نہ کرے (۴)بایزید انصاری نبوت کا دعویدار تھا اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بغیر جبرائیل کے توسط کے اس سے باتیں کرتاہے،،وہ اپنی کتاب خیرالبیان کو من جانب اللہ سمجھتا تھا اور اس کا خیال تھا یہ کتاب اللہ کی طرف سے بایزید کو خطاب ہے،اس کو صحیفہ الٰہی سمجھتا تھا،وہ اپنے ماننے والے کے علاوہ تمام مسلمانوں کو مشرک اور ان کا قتل جائز سمجھتا تھا وہ تناسخی عقیدہ کے قائل ہونے کا ساتھ ساتھ دیگر بہت سے غلط عقائد رکھتا تھا جس کی وجہ سے پیر بابا ؒاوران کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا اخونددرویزہؒ نے اس کی مخالفت کوایمان کا جزو سمجھتے ہوئے اس کے خلاف محاذ سنبھالا (۵)قمبرعلی شاہ اگرچہ ظہیرالدین بابر کے داماداور دربار مغلیہ میں بڑے عہدے پرفائز تھے مگر ان کے صاحبزادے حضرت پیرباباؒنے دنیا کی طرف مطلقاً کوئی التفات نہیں کی بلکہ اپنے داداکے مسلک پردنیا سے بیزار اور امور دنیاداری سے دورتصوف اورذکرالٰہی میں مگن رہے اور ساری زندگی بونیر کے پہاڑوں میں گزار کرسلوک الی اللہ، درس وتدریس اور دین اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے (۶) اگر یہ حضرات مغل بادشاہوں کے ایجنٹ ہوتے توحضرت پیرباباؒاور ان کے مرید خاص حضرت اخونددرویزہ باباؒعیش وعشرت کی زندگی گزارتے اور مغل حکمرانوں سے بڑی بڑی جاگیریں اور مراعات حاصل کرتے۔جبکہ ساڑھے چار سوسال گزرجانے کے بعد آج بھی پختونخواہ کا ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت پیرباباؒکی زندگی عیش وعشرت سے دورایک غارمیں گزری ہے۔اور شیخ الاسلام حضرت خونددرویزہ باباؒکامزارآج بھی صدیوں پرانہ نقشہ پیش کررہا ہے۔حالانکہ مغل حکمرانوں نے اپنے منظورنظردینی پیشواؤں کے مزاروں کو عالیشان گنبدوں سے سجایاہواہے(جاری ہے)